سائنس کواوڑھنا بچھونا بنائیے

دس ماہ قرآن کے مطالعے نے اسے مجبورکردیاکہ سیرت کا بھی مطالعہ کرے


[email protected]

تین سال پہلے محض اتفاق تھاکہ سوشل میڈیا پرروبن سے ملاقات ہوگئی۔عام ساگورا۔یوکے کے برائٹن شہر میں قیام پذیر۔آہستہ آہستہ معلوم ہواکہ ایک درمیانے درجہ کے تحقیقی ادارہ میں کام کرتا ہے۔روبن سے دوستی ہوگئی اورای میل پربھی رابطہ شروع ہوگیا۔ فیس بُک پرروبن نے اپنی نئی تصویرلگائی تومعلوم ہواکہ اس کی دونوں ٹانگیں حادثے کی وجہ سے بے جان ہوچکی ہیں۔روبن نے معذوری کوکسی صورت میں اپنی زندگی پراثراندازنہیں ہونے دیا۔اگروہ پہلے آٹھ گھنٹے کام کرتاتھا تو اپاہج ہونے کے بعد بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرنے لگا۔ڈیڑھ برس سے روبن سے میری فون پر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ روبن اپنی تحقیق کے متعلق بتاتا رہتا ہے۔پہلے مجھے معلوم نہیں تھا۔ مگر 9/11 کے حادثے کے بعدروبن نے اسلام کو پڑھناشروع کیا۔ قرآن کا انگریزی ترجمہ حاصل کیا اور پڑھناشروع کردیا۔

دس ماہ قرآن کے مطالعے نے اسے مجبورکردیاکہ سیرت کا بھی مطالعہ کرے۔ روبن نے آقاؐ کی انگریزی میں سیرت کی کتابیںحاصل کی اور مطالعہ شروع کردیا۔قرآن اور سیرتِ نبیؐ کے مطالعے کے بعد روبن ششدررہ گیا۔اس کا خیال تھاکہ اسلام دہشت گردی پھیلانے کاایک ذریعہ ہے۔ دقیق مطالعے کے بعد اندازہ ہواکہ اس دین کادہشت گردی سے دوردورکاتعلق نہیں ہے۔بلکہ یہ تواپنے زمانے سے لے کرآج تک ایک انقلابی پیغام لے کرآیاہے۔ موجودہ مسلمان ممالک تو اسلام کے نزدیک تک نہیں ہیں۔اس کے ذہن میں تجسس تھاکہ ایساکیوں ہے۔

ایک شاندارترین نظام کا حصہ ہونے کے باوجودموجودہ مسلمان اتنے پسماندہ کیوں ہیں۔ دنیا میں ہرترقی سے محروم کیسے رہ گئے۔اس کی تحقیق مکمل طور پر ذاتی تھی۔روبن نے دونتائج نکالے۔ پہلاتویہ کہ مسلمان صرف اسلام کی ظاہری رسومات تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔عملی طورپراس عظیم دین سے انکاکوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ مسلمانوں میں تحقیق،سائنس اورعصری علوم حاصل کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔روبن کبھی پاکستان نہیں آیا۔ مگر اس کا خیال ہے کہ اگرمسلمانوں میں کوئی بھی ملکی ترقی کرنے کی حیرت انگیزقوت رکھتاہے تووہ پاکستان ہے۔اس کی وجوہات اس کے نزدیک کافی ہیں۔ ان پرکسی اوروقت بات کروں گا۔ پانچ چھ مہینے سے وہ صرف یہی کہتاہے کہ مسلمان تحقیق کی دنیاسے اتنے دورکیوں ہیں۔ سائنسی علوم پرغورکیوں نہیں کرتے۔خیرمیرے پاس بھی اسکاکوئی حتمی جواب نہیں ہے۔

دوماہ پہلے روبن پوچھنے لگا، کیا آپ کومعلوم ہے کہ پاکستان ترقی کی دوڑمیں اتنا پیچھے کیوں ہے؟ اس کا عالمی تاثراتنامنفی کیوں ہے؟ ذہن میں جوجوابات تھے ، بیان کیے۔روبن کاتجزیہ چونکا دینے والاتھا۔کہنے لگا،تمہارے ملک نے صنعتی ترقی کی دوڑمیں شامل ہونے سے انکارکر دیا ہے۔تم لوگ اس پرہی خوش ہوکہ اناج پیداکرکے بھوک مٹا سکتے ہو۔مگربحیثیت قوم،تم لوگوں نے زراعت سے نکل کر انڈسٹریل سوسائٹی بننے میں ہررکاوٹ کھڑی کررکھی ہے۔ خصوصاًہائی ٹیک انڈسٹری کی ہی کی نفی کرڈالی ہے۔نتیجہ یہ کہ پاکستان ہالینڈ جیسا ایک ترقی یافتہ زرعی ملک ہے اورنہ ہی جاپان جیسا جدید صنعتی سوسائٹی بن سکاہے۔قیامت یہ کہ تم لوگوں نے اس کمی کومحسوس تک نہیں کیا۔روبن نے مثال دی کہ چالیس سال سے تمہاری ہرحکومت نے برآمدات بڑھانے کی سرتوڑ کوشش کی ہے۔سرکاری بیساکھیوں کے بل پر پاکستان، تولیے، بیڈشیٹس،ٹی شرٹس،جینزوغیرہ کے سوا کوئی خاص چیز برآمد نہیں کرسکا۔ہاں کھیلوں کی مصنوعات بھی موجود ہیں۔

کیا کبھی تمہارے ملک میں کسی نے سوچاکہ ایک تولیے سے اگر چارپاؤنڈملتے ہیں تو پھر مزید ایسا کیا کام کیاجائے کہ یہ چار پاؤنڈ،سیکڑوں میں تبدیل ہوجائیں۔ اس سوال کاکوئی جواب نہیں تھا۔فون پرکہنے لگا کہ اگرتم چادریں بناناچھوڑ دو اورفیصلہ کروکہ ہم نے جدید ترین سیل فون بنانے ہیں۔ ڈل (Dell)کے مقابلے پر کمپیوٹربنانے ہیں۔دنیاکی محفوظ ترین کاربنانی ہے۔ تو کیا خیال ہے کہ تمہاری کاروباری صلاحیت کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔درست ہے کہ کپاس سے منسلک اشیاء کوبھی بناؤ۔مگر نگاہ ہائی ٹیک انڈسٹری پر مرکوز رہنی چاہیے۔ روبن کہہ رہاتھاکہ اگرہماری توجہ، زراعت سے نکل کر جدید مصنوعات کی طرف چلی جائے توصرف بیس برس میں پاکستان ،جاپان کے برابرآجائے گا۔ ایکسپورٹ بیس پچیس بلین ڈالرسے بڑھ کرکم ازکم دوسوبلین ڈالرتک پہنچ جائے گی۔روبن کی باتیں میرے دل کولگیں۔

تھوڑاعرصہ پہلے اس سے دوبارہ بات چیت ہوئی تو کہنے لگاکہ پاکستان کے خلاف کسی نے سازش نہیں کی۔کسی ملک کے پاس اتناوقت نہیں ہے ۔دراصل،تم لوگ بذاتِ خود،اپنے دشمن ہو۔ذہنی غلامی کے اتنے عادی ہوچکے ہوکہ تمہاری سوچ بھی بیڑیوں میں قیدہے۔کسی بھی سیاسی شخص میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ کوئی ایساانقلابی قدم اُٹھائے کہ عام لوگوں میں بھی ذہنی غلامی ختم ہوسکے۔بلکہ تمہارے سیاسی اورمذہبی رہنمافکری آزادی کے حددرجہ خلاف ہیں۔روبن کے نزدیک یہ اسلام کے بنیادی اُصولوں کے خلاف ہے۔ اس کی تحقیق کے مطابق جدیدعلوم ہرگزہرگزیونان اورروم سے مسلمانوںمیں منتقل نہیں ہوئے۔ننانوے فیصدموجودہ سائنسی تحقیق کی بنیادآج سے آٹھ سوسال پہلے قرطبہ اور بغدادمیں رکھی گئی تھی۔

مسلمان سائنسدانوں نے اتنی حیرت انگیزایجادات کیں تھیں،جس نے دنیا بدل کررکھ دی تھی۔اس وقت میں یورپ کے لوگوں کارویہ بالکل وہی تھاجوآجکل مسلمانوں کا ہے۔یورپ میں جدیدعلوم سے نفرت کایہ عالم تھاکہ اگرکوئی محقق نئے سائنسی کلیے کوبیان کرنے کی کوشش کرتاتھاتو اسے لادین قراردیکرریاست قتل کروادیتی تھی۔ حیرت انگیز مماثلت یہ ہے کہ آج اگرکوئی مسلمان،فکری آزادی،تحقیق اورجدیدعلوم کی ترویح کی بات کرتاہے تواس کی حددرجہ مخالفت کی جاتی ہے۔اکثراوقات اسے ماردیا جاتا ہے یااسے ملک چھوڑناپڑتاہے۔روبن کی باتوں میں کافی وزن تھا۔فون بند ہونے کے بعدکافی دیر سوچتا رہا کہ واقعی ایک ہزارسال پہلے، دنیامیں ترقی کے ضامن تو صرف مسلمان حکمران اورعوام تھے۔سائنسی علوم اورتحقیق پر انکی بالادستی تھی۔سوسائٹی کاایک طبقہ صرف تحقیق اورایجادات پرغورکرتاتھا۔بادشاہ سے لے کرعوام تک،ان محققین کی دل وجان سے عزت کرتے تھے۔انکاسماجی مقام حددرجہ بلندتھا۔ مسلمان حکمرانوں کی کوشش ہوتی تھی کہ اہل علم کے ساتھ وقت گزاریں۔کتابیں پڑھیں۔ لائبریریاں بنائیں۔ جدیدعلوم کوعام کریں۔تحقیقی اداریں بنائیں۔اتنی فکری آزادی تھی کہ سائنسدان عام لوگوں کوتحقیق کے نئے زاویے بتاتے اورسمجھاتے تھے۔کسی کو علمی تفریق کی وجہ سے نقصان نہیں پہنچایاجاتاتھا۔

تین ہفتے پہلے،روبن نے مجھے2018میں ہونے والی ایجادات کی فہرست بھجوائی۔ ایم آئی ٹی یونیورسٹی کی طرف سے شایع کردہ ایک مقالہ تھاجس میں صرف ایک برس کی نئی ایجادات کے متعلق تفصیل درج تھی۔اس کے مطابق پچاس ایجادات ایسی تھیں جو قابل ذکرہیں۔ان میں سے دس ایسی ہیں جوآنے والے وقت کومکمل طورپربدل دیںگی ۔اس تبدیلی کاادراک ابھی مغربی دنیاکوبھی مکمل طور پر نہیں ہوا۔ مسلمان ممالک کا توذکرکرناہی بیکار ہے۔ کیونکہ یہاں توان ایجادات کے اثرات کوآتے آتے کئی دہائیاں لگ جائیں گی۔روبن کے بھیجے گئے لنک کو Googleپرپڑھاتو خوشی کے ساتھ تکلیف بھی ہوئی۔خوشی اس لیے تھی کہ سائنس کتنی تیزی سے ترقی کررہی ہے اور تکلیف اس لیے کہ2018کی ایجادات صرف مغرب میں ہوئیں۔کسی مسلمان سائنسدان نے کوئی نئی چیز ایجاد نہیں کی۔بلکہ کسی مسلمان ملک نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ روبن نے فون کرکے پوچھاکہ لنک کیسالگا۔تیس سیکنڈ بات نہ کرسکا۔کیونکہ یہ ایجادات میرے تصورسے بھی باہرتھیں۔

روبن کہنے لگاکہ دنیاکامستقبل ابArtificial Intelligenceسے منسلک ہے۔یہ صنعتی انقلاب کا چوتھا مرحلہ ہوگا۔''مصنوعی عقل''سے اس طرح کی مشینیں اور روبوٹ بنائے جائیںگے جوہرکام کرسکتے ہیں۔ان میں ایک صلاحیت اوربھی ہوگی کہ اگرکوئی کام غلط ہوجائے توان کا مصنوعی ذہن ان کوفوراًبتائے گا۔اس روبوٹ کے ساتھ کام کرنے والے روبوٹ بھی اس کی غلطی کی فوری تصیح کر دیں گے۔روبن کہنے لگاکہ اس کامطلب یہ ہے کہ چنددہائیوں بعد دنیاکے بہترین ڈاکٹرانسان نہیں،روبوٹس ہوںگے۔ بہترین قانون دان بھی وہی ہوںگے اورعسکری معاملات میں بہترین فوجی بھی یہی ہوںگے۔یعنی اگرکسی ملک کے پاس مصنوعی ذہانت پرمبنی مشینوں کی ایک فوج ہے تو اس کا مقابلہ کرناناممکن ہوگا۔روبوٹ مرے گا نہیں۔صرف تباہ ہو سکے گا۔مگرتباہ ہونے تک وہ ہزاروں لوگوں سے لڑچکا ہوگا۔ روبن نے اس کے علاوہ مجھے متعددنئی ایجادات بتائیں جوکہ آنے والے دنوں میں لوگوں کے معاملات کومکمل طورپر تبدیل کر دیںگی ۔جیسے گاڑیوں میں ڈرائیوروں کی ضرورت نہیں رہے گی،جہازوں میں پائلٹ کاوجود بے معنی ہوجائیگا۔ بحری جہازوں اورآبدوزوں میں انسان کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔

روبن کی سائنسی تحقیق کے متعلق باتیں سچ ہیں۔مگر اس کاایک فقرہ انتہائی تکلیف دہ تھا۔کہنے لگا،مسلمان ممالک کاگزشتہ چارپانچ صدیوں سے کسی نئی ایجاداور سائنسی تحقیق سے کوئی تعلق نہیں۔جب تک مسلمان اپنے انقلابی دین کے مطابق اپنے آپ کوجدت کے سانچے میں نہیں ڈھالتے یہ بے معنی رہیںگے۔ہاں،اگریہ ماضی کی طرح سائنس کو اوڑھانا بچھونا بنالیںتودوبارہ دنیامیں سر اُٹھا کرچلنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔تحقیق اورنئی سوچ سے نفرت انھیں کبھی ترقی نہیں کرنے دے گی۔یہ ایسے ہی رہیں گے۔ ایسے ہی مریں گے ، جب تک تحقیق اورسائنس میںسنجیدہ نہیں ہوں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں