سنا ہے ایک جالب تھا
معروف ادیب اور افسانہ نگار سعید پرویز ہر سال حبیب جالب کی یاد میں ایک محفل کا انعقاد کرتے ہیں
حبیب جالب کو اس جہاں سے کوچ کیے عرصہ بیت گیا، مگراپنے چاہنے والوں کے دلوں میں وہ ابھی تک زندہ ہیں ۔ فرق اتنا پڑا ہے کہ اب وہ سیاسی مخالفین بھی اپنے جلسوں میںحبیب جالب کے شعر سنانے پر مجبور ہیں جو انکی زندگی میں ان پر تنقید کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ حبیب جالب اپنی بے باک شاعری کی وجہ سے نہ صرف سماجی اور سیاسی حلقوں کے محبوب ترین شاعر تھے بلکہ وہ ادبی حلقوں میں بہترین شاعری اور فلمی دنیامیں کئی نا قابل فراموش گیتوں کی وجہ سے بھی ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ پنجابی زبان میں بھی ان کے فلمی گیتوں اور مزاحمتی نظموں کامجموعہ'' رات کلیہنی'' کے نام سے کچھ عرصہ قبل کراچی میں چھپا تھا جسے بعد میں پنجابی کے معروف ترقی پسند شاعر ہر بھجن سنگھ ہندل نے مشرقی پنجاب سے بھی چھاپا تھا۔ اس کتاب میں حبیب جالب کی معروف پنجابی نظم ۔
نہ جا امریکا نال کڑے
سانوں تیرا بڑا خیال کڑے
بھی شامل ہے جو انھوں محترمہ بے نظیر بھٹو کو مخاطب کر کے کہی تھی۔
معروف ادیب اور افسانہ نگار سعید پرویز ہر سال حبیب جالب کی یاد میں ایک محفل کا انعقاد کرتے ہیں ، جس میں سیاست ، صحافت ، انسانی حقوق اورآمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والی سرکردہ شخصیات کو '' حبیب جالب امن ایوارڈ ''سے نوازا جاتاہے۔ ایک سال قبل انھوں نے یہ ایوارڈ بائیں بازوکے معروف سیاسی رہنما ، ادیب اور سماجی کارکن جام ساقی مرحوم کے نام کیا تھاجس کی تقریب میں جام ساقی کی سیاسی زندگی اور جدو جہد کے ساتھ بائیں بازوکی سیاست سے جڑی ان تمام سر کردہ شخصیات کی یاد بھی تازہ ہو گئی تھی ، جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی ماہ وسال یا تو سیاسی جدوجہد میں چھپتے چھپاتے بسرکیے یا منظر عام پر آنے کے بعد انھیں پابند سلاسل ہونا پڑا۔
اس دفعہ ''حبیب جالب امن ایوارڈ'' کے لیے معروف مصور جمی انجینئرکا انتخاب کیا گیا تھا ۔ جمی انجینئرکی تقسیم کے موضوع پر بنائی گئی پینٹنگز پوری دنیا میں دادوانعامات پا چکی ہیں ، مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اپنے ملک اور دنیا کے کئی ممالک سے ملنے والے اعزازات کے ساتھ ملنے والے لاکھوں روپے اپنی ذات پر خرچ کرنے کے بجائے وہ ضرورت مند مریضوں اور دکھی انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کردیتے ہیں۔ جمی انجینئرکے خیال میں ملک کے سیاسی لیڈر عوام کو توسادگی کا درس دیتے ہیںمگر خود بڑے بڑے محل نما گھروں میں قیام کرتے ہیں۔ عوام جو پہلے ہی غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں مزید سادہ زندگی کیسے گزار سکتے ہیں ؟ بہت سارے لوگوں کے لیے یہ بھی انتہائی حیرت کی بات ہوگی کہ کینیڈا، چین اور دوسرے بہت سارے ممالک سے ملنے والے ایوارڈزاور انعامات کے باوجود جمی انجینئرکرائے کے معمولی سے مکان میں زندگی گزار رہے ہیں ۔
حبیب جالب کے نام پر کوئی محفل سجتی ہے تو اس میں ایسے افراد کھچے چلے آتے ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی طرح آمریت کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اب بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں۔ اس دفعہ کی محفل میں معروف صحافی محمود شام بھی مدعوتھے، رشید اے رضوی جیسے نامور قانون دان بھی موجود تھے اور زندگی بھرمحنت کشوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنے والے حبیب الدین جنیدی بھی شامل تھے ۔ یہ تقریب ہر بار جس شام منعقد ہوتی ہے اسی شام یکم مئی کے سلسلے میں مختلف جلسے اور جلوس بھی منعقد کیے جاتے ہیں ۔جب تقریب اپنے عروج پر پہنچتی ہے تو اس میں ٹریڈ یونین سے جڑے وہ مزدور رہنما اور کارکن بھی شامل ہوجاتے ہیں جو یکم مئی کے جلسوں اور جلوسوں کی قیادت کرتے ہوئے آرٹس کونسل تک پہنچتے ہیں۔
اس سال اس پروگرام میں معروف مزدور رہنما حبیب الدین جنیدی کے ساتھ ناصر منصور اور شیخ مجید بھی تقریب میں پہنچے اور انھوں نے جالب کی یادوں اور باتوں کے ساتھ موجودہ دور میں مزدوروں کی مشکلات ، بے روزگاری اور مہنگائی پر کھل کر اظہار خیال کیا۔مقررین کے خیال میں یہ جالب صاحب کا اعجاز ہے کہ انکی یاد میں ہونے والی تقریب میں شاعروں،ادیبوں ، مزدور رہنماؤں، قانون دانوں اورصحافیوں کے ساتھ رقص کی دنیا سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن اور معروف فنکارہ شیما کرمانی بھی اسٹیج پر موجود ہیں۔شیما کرمانی نے خواتین کے حوالے سے کہی گئی جالب کی انقلابی نظم پڑھنے کے بعد جب ان کے معروف گیت '' تو کہ نا واقف آداب غلامی ہے ابھی، رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے'' کی گونج میں رقص کے کمالات دکھائے تو فلم '' شہید'' ریاض شاہد اور رشید عطرے کی یاد بھی تازہ ہو گئی۔
معروف شاعر جاوید صبا نے بھی اس تقریب میں اپنی نظم '' جالب یاد آتا ہے'' کے ذریعے جالب کے چلے جانے کے بعد مزدوروں ، کسانوں اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور ظلم وستم کو اپنے مخصوص انداز میں بے نقاب کیا۔
تقریب کے دوران اس بات کا بھی گلہ کیا گیا کہ جن سیاسی پارٹیوں اور مزدور تنظیموں کے پلیٹ فارم سے حبیب جالب آمریت کو للکارنے کے بعد جیل بھیج دیے جاتے تھے ان پارٹیوں اور رہنماؤں نے کبھی جالب کو یاد کیا اور نہ ہی ان کی یاد میں کبھی کسی تقریب کا اہتمام کیا۔ ہمارے خیال میں سیاسی پارٹیوں اور مزدور تنظیموں کی طرح ادبی تنظیموں نے بھی جالب کو اس طرح خراج عقیدت پیش نہ کیا جس کے وہ حق دار تھے ، ہاں لاہور میں ان کی بیٹی طاہرہ جالب اور کراچی میں ان کے بھائی سعید پرویز نے ان کے نام اور کام کو انتہائی عقیدت کے ساتھ ضرور زندہ رکھا ہوا ہے۔ اس تقریب میںحبیب جالب کو ہم نے بھی اشعار کی صورت میں خراج عقیدت پیش کیاجو کچھ یوں تھے۔
یہ کانٹوں سے بھری راہیں رواں ہیں دارکی جانب
قدم رکھتا نہیں کوئی
یہ سڑکوں پر جو مزدوروں کے بچّے نیم جاں سے ہیں
ان کا غم رکھتا نہیں کوئی
بہت سی بیٹیاںجو پگڑیوں کی بھینٹ چڑھتی ہیں
رقم رکھتا نہیں کوئی
یہاں سچ بولنے کا ، تیر کھانے سر کٹانے کا
دھرم رکھتا نہیں کوئی
ہزاروں سولیاں آواز دیتی ہیں بلاتی ہیں
کسی منصور کے سر کا بھرم رکھتا نہیں کوئی
سنا ہے ایک جالب تھا سو وہ بھی اب نہیں باقی
تو کیا اب ساری بستی میں قلم رکھتا نہیں کوئی