روئی کا تاریخی ارتقاء

زمانہ قدیم میں انسان جب روئی کا استعمال نہیں جانتا تھا تو وہ پتوں اور چمڑوں سے اپنا تن ڈھانپتا تھا.


Zuber Rehman August 23, 2013
[email protected]

زمانہ قدیم میں انسان جب روئی کا استعمال نہیں جانتا تھا تو وہ پتوں اور چمڑوں سے اپنا تن ڈھانپتا تھا۔ سردیوں میں چمڑوں سے جسم کو ڈھانپنا آسان تھا مگر گرمیوں میں تکلیف دہ۔ جانوروں کی کھال کو انسان پہلے اوڑھنے کے طور پر جسم پر ڈال لیتا تھا۔ بعدازاں جانوروں کی ہڈیوں اور مچھلیوں کے کانٹوں سے سونٹیاں بناکر چمڑوں میں سوراخ کرکے اس میں درختوں کی چھال سے ریشے نکال کر باندھ لیا کرتا تھا۔ فلسفیوں نے درست کہا کہ ''انسان کو محنت نے انسان بنایا''۔ اس نے اپنے ہاتھوں کی کاریگری سے کیا کیا کر ڈالا۔ پھر اس نے جنگلات سے کپاس اور سنبھل کی روئی کا بھدا اور موٹا دھاگا بنایا اور اس سے کپڑے بنائے۔ بعدازاں ڈھاکا کے مل مل ''موسلینی'' نام کے کپڑے کی دھاک ساری دنیا پر بیٹھ گئی تھی۔ اب تو سنا ہے کہ 36 ہزار روپے میٹر کے کپڑے بھی بکتے ہیں۔

ابن بطوطہ جب ہندوستان آئے تھے تو واپسی پر اپنے سفرنامے میں لکھا ''سندھ میں ایک قسم کے سفید پھول کھلتے ہیں جو چاندی جیسے ہیں اور چمکتے ہیں۔ اس وقت یہ بات کسی کو کیا معلوم کہ یہ دنیا کی بہترین ''جنس'' بن جائے گی۔ 2013-14 کے آئی سی اے سی کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں روئی کی پیداوار 25.6 ملین میٹرک ٹن متوقع ہے، جو پہلے تخمینوں کے مقابلے میں 6 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن زیادہ ہے جب کہ کھپت کا اندازہ 24 ملین میٹرک ٹن ہے جو پہلے تخمینوں کے مقابلے میں 3 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن کم ہیں۔ سال 2013-14 کے دوران دنیا بھر میں روئی کے اینڈنگ اسٹاک تاریخ کی بلند ترین سطح 19.8 ملین میٹرک ٹن ہوں گے جو پہلے کے تخمینوں کے مقابلے میں 1.31 ملین میٹرک ٹن زائد ہیں۔

دنیا بھر میں روئی کی کھپت میں کمی کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ پولیسٹر کے استعمال کے رجحان میں اضافہ بھی سمجھا جارہا ہے۔ 2013-14 کے دوران چین اور بھارت میں روئی کی پیداوار پہلے کے تخمینے کے مقابلے میں زیادہ اور امریکا میں کم جب کہ پاکستان، برازیل اور ازبکستان وغیرہ میں پہلے تخمینوں کے برابر ہونے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ 2013-14 کے دوران دنیا بھر میں روئی کی قیمتوں میں اضافے یا کمی کا رجحان صرف چین کی پالیسیوں پر منحصر ہوگا۔

چین کی جانب سے 2013-14 کے دوران نیشنل ریزروز کے لیے غیر متوقع طور پر روئی کی خریداری جاری رکھنے اور روئی کے نیشنل ریزروز ریکارڈ 15 ملین میٹرک ٹن تک بڑھانے کے اعلان کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں روئی کی قیمتیں مستحکم رہنے کا امکان ہے، تاہم دنیا بھر میں روئی کی پیداوار پہلے تخمینوں کے مقابلے میں زیادہ اور کھپت کم ہونے کی توقعات کے باعث روئی کی قیمتوں میں غیر معمولی تیزی نہ آنے کے خدشات ہیں۔ چین سال 2013-14 کے دوران اپنے کاشت کاروں سے 20 ہزار 400 یو آن فی میٹرک ٹن کے حساب سے روئی کی خریداری جاری رکھے گا اور روئی کی نیشنل ریزروز میں 2012-13 کے مقابلے میں 50 فیصد اضافہ کرتے ہوئے یہ ریزروز 15 ملین میٹرک ٹن تک بڑھائے گا جو 2013-14 کے دنیا بھر کے روئی کے اینڈنگ اسٹاکس کا تقریباً 76 فیصد ہیں، جب کہ پاکستان کی کل زرعی پیداوار میں گندم اور چاول کے بعد زیادہ پیداوار روئی کی ہے۔

گزشتہ برسوں میں پنجاب کے 2.4 ملین ہیکٹرز اور سندھ میں 79 ملین ہیکٹرز زمین پر روئی کی کاشت ہوئی۔ 2011-12 میں 14.7 ملین گانٹھیں پیدا ہوئیں جب کہ 2012-13 میں 12.9 ملین گانٹھوں کی پیداوار ہوئی۔ 2011-12 میں 10 لاکھ سے زیادہ گانٹھیں روئی کی برآمد ہوئیں جب کہ 2012-13 میں ساڑھے چار لاکھ گانٹھیں برآمد ہوئیں۔ کاٹن یارن گزشتہ سال ایک ارب 81 کروڑ ڈالر کی برآمد کی گئی تھیں جب کہ رواں سال 24 فیصد اضافے کے ساتھ بڑھ کر 2 ارب 24 کروڑ ڈالر ہوئی۔ بیشتر پیداوار پنجاب اور سندھ میں ہے، بلوچستان میں تقریباً ایک لاکھ گانٹھ کی پیداوار ہے۔ پنجاب میں سب زیادہ روئی کی پیداوار ملتان میں ہے جب کہ سندھ میں سانگھڑ۔ پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے جو زیادہ روئی اور دھاگا برآمد کرتا ہے۔

روئی کی پیداوار، مصنوعات، تجارت اور بائی پروڈکٹ سے منسلک کروڑوں لوگوں کے روزگار لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جب روئی کی پیداوار عروج پر ہوتی ہے تو اس وقت ٹرکوں اور مال گاڑیوں میں 90 فیصد روئی ہی روئی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ٹریکٹرز بنانے کی صرف 4/5 فیکٹریاں موجود ہیں۔ یہاں تقریباً 10 کھاد کی ناکافی فیکٹریاں ہیں۔ کیڑے مار ادویات بنانے کی کوئی معقول فیکٹری نہیں ہے۔ بیشتر ادویات چین اور امریکا سے درآمد کی جاتی ہیں۔ ہمارے پاس ٹیکسٹائل کی جدید ٹیکنالوجی (ہنروفن) نہیں ہیں۔ کم لاگت آنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی باہر سے نہیں منگائی جاتی بلکہ مقامی ٹیکنالوجی کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم اگر عمدہ بیج درآمد کریں تو پیداوار میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

بجلی کے فقدان کی وجہ سے فیصل آباد اور ملتان سمیت مختلف شہروں کی ٹیکسٹائل اور پاور لومز کے مزدور اکثر پرتشدد مظاہرے بھی کرتے رہتے ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث پیداوار میں اگر 10 فیصد کمی آئی ہے تو ڈالر کی قیمت بڑھنے سے پیداوار کی قیمتوں میں 35 فیصد کے اضافے سے سرمایہ داروں کے پیداواری سر پلس میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ پتہ نہیں چلا کہ روئی کی مصنوعات میں کمی سے کتنا نقصان ہوا۔ اس میں مزدوروں کو سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ مگر کارخانوں کی بندش سے سرمایہ دار کو بھی نقصان ہوتا ہے۔

روئی کے ایک تاجر کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ جاگیردارانہ نظام ہے۔ جن کے پاس 10 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ ایکڑ زمین ہے، وہ پیداوار بڑھانے یا زمین میں توسیع کرنے پر توجہ نہیں دے گا اس لیے کہ اس کی خاصی پیداوار ہونے کی وجہ سے وہ اتنا فکرمند نہیں ہوتا بلکہ اس کی اکثر زمین بے کار پڑی رہتی ہے جب کہ کم زمین رکھنے والے زمیندار یعنی جس کے پاس 100/50 ایکڑ زمین ہے وہ زیادہ اہمیت اور توجہ کے ساتھ کاشت کرے گا۔ لہٰذا زمین کی حد ملکیت اگر مقرر کردی جائے تو پیداوار میں اضافہ ہوگا اور زمین کی پیداواری صلاحیت بھی بڑھ جائے گی۔ ہمارے اکثر زیادہ زمین رکھنے والے جاگیردار بجلی اور پانی سے بھرپور فائدہ اور سہولت حاصل کرتے ہیں، اس لیے بھی کہ وہ بڑے پیمانے کے خریدار ہوتے ہیں تو انھیں سستا بھی پڑتا ہے جب کہ چھوٹے زمیندار اکثر پانی اور بجلی سے محروم رہ جاتے ہیں۔

اس وقت دنیا میں اچھی روئی مصر اور امریکا کی ہے جب کہ پہلے پیرو، یوراگوئے اور آسٹریلیا میں بھی ہوتی تھی۔ بیجوں پر بھی عالمی اجارہ داریاں موجود ہیں جیساکہ امریکا اور جرمنی کی کمپنیاں پیش پیش ہیں۔ ان میں جی ایم بیجوں میں ایسے جراثیم ڈال دیے جاتے ہیں کہ جس میں پیداوار کی تیز تر بڑھوتری ہو۔ پاکستان زیادہ تر روئی کی برآمد مشرق بعید کے ملکوں بنگلہ دیش، ہانگ کانگ، چین، انڈونیشیا، سنگاپور ، میانمار اور کچھ ہندوستان میں بھی کرتا ہے جب کہ ہماری مصنوعات زیادہ تر امریکا اور یورپ جاتی ہیں۔ ہم اپنی بیشتر اجناس، مصنوعات اور پیداوار کو محفوظ نہیں کرپاتے اس لیے کہ اسے محفوظ کرنے کے لیے ہمارے پاس ہائی ٹیک نہیں ہے۔

جیساکہ دودھ کی پیداوار میں دنیا میں پاکستان 5 ویں نمبر پر ہے جب کہ اندرون ملک اس کی کھپت 13 فیصد ہے۔ اس لیے کہ ہم اسے محفوظ نہیں کرپاتے۔ اس طرح کی بے شمار اجناس اگر ہم محفوظ کرلیں تو ملٹی نیشنل کمپنیوں سے درآمد کی ضرورت نہیں پڑے گی اور ہم اپنی پیداوار سے ہی اپنی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی اور امداد باہمی کے نظام میں ہی مضمر ہے۔ جہاں سب مل کر پیداوار کریں اور مل کر بانٹ لیں مگر جب تک انقلابی تبدیلی نہ آجائے اس وقت تک مندرجہ بالا تجاویز پر عمل کرکے ملک کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کیا جاسکتا ہے۔ خاص کر روئی کی تجارت اور مصنوعات میں بہتری لاکر غیر ملکی زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے اور بے روزگاری میں بھی ایک حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں