عوام ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو کلین چٹ دینے کو تیار نہیں

پیپلز پارٹی کی صورتحال ن لیگ سے بھی زیادہ خراب دکھائی دے رہی ہے۔


رضوان آصف May 08, 2019
پیپلز پارٹی کی صورتحال ن لیگ سے بھی زیادہ خراب دکھائی دے رہی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت احتساب کے کڑے مراحل سے گزر رہی ہے،دونوں جماعتیں اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں اور عدالتی فیصلوں کو ''کپتان کا انتقام'' ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں لیکن تحریک انصاف کی ناقص حکومتی کارکردگی اور معاشی بحران کے ستائے عوام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کو کلین چٹ دینے کو تیار نہیں ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ پانامہ کیس، جعلی اکاونٹ کیسز میں منظر عام پر آنے والے ایسے ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد ہیں جنہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

گزشتہ 20 برس کے دوران پاکستان میں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا بہت مضبوط اور موثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اب عام پاکستانی کو تمام حقائق بخوبی معلوم ہوتے ہیں۔ پانامہ کیس کی ابتداء میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو یہ ادراک نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں یہ کیس کیا صورت اختیار کرے گا اس لیئے انہوں نے منی ٹریل کے حوالے سے کئی''یو ٹرن'' لیئے اور یہی وہ سبب ہے جس نے عام پاکستانی کو یقین دلادیا ہے کہ دال میں کافی کچھ کالا ہے۔

80 اور90 ء کی دہائی میں دونوں بڑی جماعتوں نے حکومت کو شہنشائیت کی مانند چلایا، نہ کسی قانون ضابطے کی پرواہ کی اور نہ ہی میرٹ کو مد نظر رکھا، یہ لوگ خود کو اتنا مضبوط اور خودمختار سمجھتے تھے کہ انہوں نے خود کو یقین دلادیا تھا کہ ان کا احتساب کبھی نہیں ہوگا،اسی زعم میں انہوں نے اس وقت جو بھی ہیرا پھیریاں کیں، غیر قانونی احکامات جاری کیئے وہ اسقدر احمقانہ دلیری سے انجام دیئے کہ ''کیمو فلاج'' کیلئے سرکاری فائلوں کی کارروائیاں یا مالیاتی لین دین کیلئے کوئی کاسمیٹک اقدام بھی نہیں کیا۔

الیکٹرانک میڈیا میں جب 90 ء کی دہائی میں چوہدری نثارعلی خان سمیت شریف خاندان کے اراکین کے دیئے وہ انٹرویوز چلتے ہیں جن میں وہ لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں تو پھر عام پاکستانی کس طرح سے شریف برادران کے خلاف کارروائیوں کو انتقامی تسلیم کرے۔ نہ صرف عوام بلکہ ن لیگ کے رہنما اور کارکن بھی اپنی قیادت کا دفاع نہیں کر پا رہے ہیں، ن لیگ کے اندر اکثریتی حلقہ یہ رائے رکھتا ہے کہ اس وقت جو صورتحال درپیش ہے اس کی بڑی وجہ خود میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز ہیں کیونکہ ان دونوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ غیر معمولی محاذ آرائی کا راستہ اختیار کیا، میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار کی جانب سے مصالحت کی متعدد بار کوشش کو سابق دختر اول اور ان کے حمایتی عقابوں نے ناکام بنا ڈالا یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز میاں نواز شریف کی ضمانت ختم ہونے کے بعد جیل روانگی کے موقع پر ن لیگ کوئی بڑا پاور شو نہیں کر سکی ہے۔

مریم نواز کو ن لیگ کا نائب صدر بنائے جانے پر تحریک انصاف نے سخت ردعمل دیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس حوالے سے عدالت میں پٹیشن بھی دائر کی جا رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کا سیاسی مستقبل تیزی سے معدوم ہو رہا ہے اور ان کی جماعت تنظیم نو کے باوجود کمزور اور غیر موثر ہو رہی ہے، مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جب بھی اقتدار حاصل کیا ہے اس کا سبب اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد تھی، مقتدر حلقوں نے جب ن لیگ کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے تو اب لیگی رہنماوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کس نہج پر سیاست کریں۔ن لیگ کے اندر اختلافات بھی بڑھ رہے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ شہباز شریف کے گروپ کو سائیڈ لائن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کی صورتحال ن لیگ سے بھی زیادہ خراب دکھائی دے رہی ہے کیونکہ یہ جماعت تو پہلے ہی سندھ بلکہ اندرون سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے،آصف زرداری، فریال تالپور سمیت دیگر اہم رہنماوں پر سنگین نوعیت کے کیسز چل رہے ہیں، بے نامی اکاونٹس کے معاملے میں بچت کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی ہے، وفاقی حکومت ایک حکمت عملی کے تحت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ایک گھیرے میں لیکر شکنجہ کس رہی ہے، سندھ میں طویل عرصہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن وہاں کے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، تعلیم کی یہ حالت ہے کہ ہر پرچہ آوٹ ہو جاتا ہے اور کوڑیوں کے بھاو بک رہا ہوتا ہے، صحت کے حوالے سے اندرون سندھ میں تو عوام کو لاوارث بنا دیا گیا ہے جبکہ کراچی جیسے بڑے شہروں میں آئے روز ہسپتالوں میں رونما ہونے والے واقعات سنگینی کی ایک مثال ہیں۔

پاکستانی عوام نے دونوں جماعتوں کو متعدد مرتبہ اقتدار دیا لیکن ان جماعتوں کی قیادت نے اس اقتدار کو ملک و قوم کی فلاح وبہبود اور ترقی کی بجائے ذاتی مفاد کیلئے زیادہ استعمال کیا۔ میگا پراجیکٹس کو کک بیکس اور کمیشن کیلئے لانچ کیا جاتا رہا،لاہور میں زیر التواء اورنج لائن پراجیکٹ بھی ایسی ہی ایک مثال ہے، تمام ماہرین متفق ہیں کہ ابھی لاہور کو اس منصوبے کی ضرورت نہیں تھی اور اگر بنانا ہی تھا تو زیر زمین بنانا مناسب ہوتا، اس منصوبے کے پیسے سے پنجاب بھر کے ہسپتالوں، سکولوں کی حالت سنواری جا سکتی تھی،اب تحریک انصاف کی حکومت پریشان ہے کہ اس منصوبے کا کیا کرے۔

پاکستان کو اللہ تعالی نے وہ موسمیاتی اور جغرافیائی تحفے بخشے ہیں جو شاید ہی کسی ملک کے پاس ہوں لیکن ہمارے جمہوری اور آمر حکمرانوں نے اس ملک کو تباہ کر ڈالا ہے۔ عمران خان کی نیک نیتی پر کوئی شک نہیں لیکن کپتان کا بھی مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس اپنے جیسی ٹیم موجود نہیں ہے،آج کی کابینہ اور ماضی کی کابینہ میں کوئی خاص فرق دکھائی نہیں دیتا۔ بدترین معاشی بحران کا داغ کپتان پر لگ چکا ہے، عوام حکومت سے ناراض ہو رہے ہیں، گلی محلوں میں موجود کپتان کے کھلاڑی بھی مایوس اور خاموش ہو گئے ہیں، پنجاب حکومت شدید تنقید کی زد میں ہے اور یہ تنقید بہت حد تک جائز بھی ہے کیونکہ وزیر اعلی سردار عثمان بزدار ''کلک'' نہیں کر پا رہے، نجانے انہیں ٹیک آف میں ابھی مزید کتنا وقت درکار ہے۔

پنجاب ہی پاکستان کی ترقی کا پیمانہ ہوتا ہے اور اس وقت پنجاب میں سب سے سست حکومت موجود ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے خلاف کرپشن کیسز کا جو سیاسی فائدہ تحریک انصاف کو ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہو پا رہا کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی سمت متعین کرنے میں ناکام ہے۔ عام پاکستانی اس وقت یہ سوچ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو آزمانے کے بعد ان کی ناکامی کو جان لینے کے بعد تحریک انصاف کو متبادل آپشن سمجھا تھا اب اگر تحریک انصاف کی حکومت بھی ناکام ہو جاتی ہے تو اس ملک اور اس کے عوام کا سیاسی اور معاشی مستقبل کیا ہوگا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں