مہنگائی روکو ورنہ…
بیروزگاری میں اضافہ ہونے کی و جہ سے اسٹریٹ کرائم میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
RAWALPINDI:
اس وقت دنیا بھرکے بیشتر سرمایہ دار ممالک میں مہنگائی عروج پر ہے جب کہ پاکستان میں سب سے زیادہ بری حالت ہے۔ ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء دال، چاول، تیل، دودھ ، آٹا ، چینی،گوشت، پیاز وغیرہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جس کی قیمت کا کسی بھی پڑوسی ملک سے موازانہ کیا جاسکے ۔
بیروزگاری میں اضافہ ہونے کی و جہ سے اسٹریٹ کرائم میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بیروزگار لوگ جینے کے لیے ڈاکے ڈال اور چوری کر رہے ہیں ، عصمت فروشی، گدا گری ، منشیات نوشی ، خودکشی ، اغوا ، قتل وغارت گری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جسے روکنے کے لیے پو لیس کی بھرتی اور اسلحے کی پیداوار و خریداری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عدالتوں میں ججوں کی کمی سے ان کی بھی بھرتیاں بڑھ رہی ہیں ۔ان خبروں کو نشرکرنے کے لیے میڈیا ہاؤسز کا بھی اضافہ ہوا اور ان پر اربوں روپے خرچ ہوئے۔ بیروزگاری کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا جائے ۔ پچاس ایکڑ سے زیادہ زمین رکھنے پر پابندی ہو ، بے زمین کسانوں میں حکومت سرکاری زمینوں کو تقسیم کرے ، ضروریات زندگی کی بنیادی سہولتیں عوام کو فراہم کرنے کے لیے لازمی ہے کہ ملک میں فیکٹریوں، ملوں اورکارخانوں کا جال بچھایا جائے ۔ ہمارا صحت کا بجٹ ایک فیصد سے بھی کم اور دفاعی بجٹ پینتئس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
یکم مئی کو شکاگو شہداء کے یاد میں تمام ملکوں کے بیشتر شہروں میں ریلیاں نکلیں اور جلسے ہوئے۔ فرانس میں پٹرول اور اشیائے خردنی کی قیمتوں میں کمی، تنخواہوں میں اضافے ، نئے روزگارکے حصول کی تحقیق ، پینشن میں اضافہ اور دیگر مطالبات پر مبنی چھ ماہ سے ہڑتال، مظاہرے اور ریلیاں ہو رہی ہیں جن کے اثرات تقریبا دنیا بھر میں پڑرہے ہیں ۔ تیونس میں روٹی کی قیمت میں کمی کرنے پر ، سوڈان میں تیل کی قیمت کم کرنے اور فوجی قابضین کو بے دخل کر نے کے لیے، الجزائر میں فوجی آمروں کے خلاف عوام کا سمندر سڑکوں پہ آجانے، مالی میں آمروں سے اقتدار عبوری سول حکو مت کو منتقل کرنے میں کامیاب ہونے، بینن ، لیبیا ، جنوبی افریقہ اور نمیبیا میں عوامی جدوجہد کے ابھارنے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں لا کھوں محنت کشوں نے صدارتی محل کا گھیراؤکیا اور بیروزگاری کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے۔ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیؤل میں لاکھوں کے جلوس نے ، بیروزگاری ، پینشن میں اضافے اور غذائی قلت اور اوقات کار میں کمی کے لیے وزیر اعظم ہاؤس کا گھیراؤکیا۔ ٹوکیو ، بینکاک، دہلی اور ڈھاکہ میں لاکھوں مزدور سڑکوں پر نکل آئے ۔ ترکی ، روس ، جرمنی اور فرانس میں پُر تشدد مظاہرے ہوئے، پولیس سے جھڑپیں ہوئیں ۔ چین کے لا تعداد شہروں اور امریکا کے بڑے بڑے شہروں میں ریلیاں نکلیں ۔برازیل ، ارجینٹینا، کیوبا، وینز ویلا اور سوشلسٹ کوریا میں شاندار جلوس نکلے۔ یوروپ میں ایتھینس، ایمسٹرڈم ، لزبن، لندن، جینوا،کیو اور روم میں زبردست جلوس نکلے ۔ وہ غیر طبقاتی نظام ، امداد باہمی کا سماج یا کمیونسٹ سماج کے قیام کا مطالبہ بھی کر رہے تھے ۔ ب
ہت سے ملکوں میں فرانسیسی انارکسٹوں سے متاثر ہو کر پیلی جیکٹ پہن رکھی تھی ، مگر افسوس کی بات ہے کہ شکاگو میں آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی کروانے کے لیے جن تین انارکسٹ ( انارکوکمیونسٹ ) رہنماؤں کو پھانسی دی گئی تھی ، جن کا کسی جماعت سے تعلق تھا اور نہ کوئی کسی تنظیم کا عہدیدار تھا ، ان کا پاکستان میں بیشتر تنظیموں نے اس سچائی پر منافقانہ رویہ اختیارکیا اور ان عظیم رہنماؤں کے بارے میں انارکسٹ ہونے کی سچائی کی تصدیق تک نہیں کی۔ وہ مزدور رہنما تو تھے لیکن ان کا سیا سی طور پہ انارکسٹ نظریہ تھا۔
پا کستان میں اس بار تقریبا چھوٹے بڑے تمام شہروں میں یکم مئی پر ریلیاں نکالی گئیں۔ جن حکمرانوں نے اپنی حکومتوں کے دوران مزدوروں کی ڈیوٹی کے اوقات آٹھ گھنٹے نہیں کروائے بلکہ آج بھی دس سے بارہ گھنٹے مزدورکام کرنے پر مجبور ہیں جو ملک بھر میں نوے فیصد ہیں، انھوں نے بھی یکم مئی پر جلسے کیے (یہ منافقت نہیں توکیا ہے؟) مزدور بستی اور صنعتی مزدور علاقہ کورنگی،کراچی میں یکم مئی پر جلوس نکالنا زیادہ قابل تحسین ہے ۔ پاکستان میں آئے روز دفاعی اخراجات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ابھی حال ہی میں تیرہ ارب روپے کا اسلحہ خریدا گیا جب کہ دوسری طرف ڈاکٹروں اور نرسوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔ جان بچانے کی ایسی دوا جو غریب لوگ نہیں خرید سکتے ہیں۔
ان کے لیے حکومت نے آئینی طور پر ایک ادارہ مستحقین کے لیے بنایا ہوا ہے جو انھیں مفت دوا فراہم کرتا ہے، مگر یہ بڑی حیرت انگیز اور افسوسناک بات ہے کہ حکومت نے خود نو ٹس جاری کیا ہوا ہے کہ یہ دوائیں ہر ایک کو نہ دی جائیں ، صرف اسمبلی اور سینیٹ اراکین، مشیر اور اعلیٰ نوکر شاہی کو ہی فراہم کی جائیں ۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ ان اسمبلی اور سینیٹ ارکان کو پہلے ہی تمام تر میڈیکل سہولتیں مہیاکی جا چکی ہیں ، پھر بھی انھیں محنت کشوں کے جائز حقوق پہ ڈاکہ ڈالنے کی قانونی سند بھی جاری کر دی گئی ہے ۔ ہمارے ملک میں پنشن کا بڑا گمبھیر مسئلہ ہے۔مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہیں جب کہ پنشن پچھلی دہائیوں کے حساب سے دی جا رہی ہے ۔
حال ہی میں ہر چیزکی قیمت بڑھا دی گئی ہے ۔ شاید اسی کام کے لیے وزیرخزانہ ،گورنر اسٹیٹ بینک اور دیگر وزراء اور نوکر شا ہی کو امریکا کے کہنے پر تبدیل کیا گیا ہے ،جس میں آنے والے بجٹ میں آئی ایم ایف کے احکامات کی بجا آوری کی جاسکے۔ ایک تو پہلے ہی سے آئی ایم ایف کو قرضہ دینے پر را ضی کرنے کے لیے منی بجٹ لایا جاچکا ہے اور اب پٹرول سمیت اشیاء خورو نوش کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ان ریاستی بھول بھولیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس لیے کہ ریاست بنیادی طور پر صاحب جائیداد طبقات کی رکھوالی کرتی ہے ۔ ابھی حال ہی میں چین کی سب سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنی ''علی با با'' نے کہا ہے کہ چین میں مزدوروں کے ہفتہ وارکام کے اوقات کار 72 گھنٹے ہونے چاہیئیں ، جب کہ فرانس کے مزدوروں نے اپنی یکجہتی اور طاقت کے بل بوتے پر 35 گھنٹے کروالیے ہیں۔
ابھی ایک اور خبر آئی ہے کہ چینی مرد 1200پاکستانی لڑکیوں سے شادی کر انھیں چین لے گئے اور ان سے جسم فروشی کروا رہے ہیں ۔ ریاست اور اس کے اداروں کی مو جودگی میں ہاتھ پیر مارکر تھوڑا بہت مسائل حل کروا لیں تو طبقاتی تفریق ختم نہیں ہوگی ۔ حال ہی میں فن لینڈ میں بائیں بازوکی جماعت جیتی ہے، انڈونیشیا میں سینٹر لیفٹ کامیاب ہوئی ہے، اسپین میں سوشلسٹ پارٹی جیتی ہے، اسرائیل میں مضبوط حزب اختلاف کامیاب ہوئی ہے، یوکرائن میں لبرل صدر جیتا ہے۔ آپ اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ '' دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے '' ۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام کے مسائل پر لڑنے کی بجائے بیٹھے رہیں۔آج دنیا بھر میں یورپ، امریکا، افریقہ، ایشیا میں ہر جگہ انارکسٹ ،کمیونسٹ اور محنت کش عوام بڑی جرات مندی سے لڑرہے ہیں، پیلی جیکٹ اس کی ایک مضبوط مثال ہے۔