نہ جھولی نہ دم تو پھر

ہم ان سب باتوں کو محض شاعرانہ مبالغہ سمجھتے ہیں لیکن اب لگ پتہ گیا کہ ’’بہار‘‘ واقعی بڑا ہی جان لیوا موسم ہوتا ہے۔


Saad Ulllah Jaan Baraq May 10, 2019
[email protected]

پہلے ہمارا خیال تھا کہ یہ بزرگ اور گزرگ لوگ اور پھر خاص طور پر شاعر بزرگ ناحق ہی ''بہار'' سے اتنے الرجک ہیں، بہار تو ایک پیارا سا موسم ہوتا ہے بلکہ کسی نے تو یہاں تک تمنا کی تھی کہ اگر خدا گرما و سرما کو مکس کر دے تو کتنا اچھا بہار کا موسم بن جائے۔ مرشد نے بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ:

کیوں نہ فردوس کو دوزخ میں ملالیں یارب

سیر کے واسطے تھوڑی سی فضاء اور سہی

لیکن یہ سب کچھ ایک طرف۔کم ازکم ''بہار'' کے بارے میں ان بزرگوں کی اتنی بری رائے ہمیں بالکل پسند نہیں تھی کہ:

پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی

پھر وہی پاوں وہی خار مغیلاں ہوں گے

ارے تو جوتے پہن لیجیے۔ اور آخر کس نے کہا ہے کہ ضرور ہی ''دشت نوردی'' کرو، اپنی جگہ آرام سے بیٹھ کیوں نہیں جاتے۔ مومن خان مومنؔ تو خیر حکیم بھی تھے اس لیے کسی عارضے کے لیے خود ہی اپنے آپ کو ''دشت نوردی'' تجویز کی ہو گی۔ ویسے آج کل بھی یہ وبا زوروں پر ہے جو بھی ملتا ہے حکیم نیم حکیم یا خود مریض نیم مریض یا نیم ڈاکٹر نیم ڈاکو تو سب سے پہلے یہی مشورہ دیتا ہے کہ ورزش کرو ورزش۔ ہمارے گاوں کے ایک چرواہے کو بھی ڈاکٹر نے کہا تھا کہ ورزش کرو۔ جواب میں چرواہے نے کہا تھا کہ اتنی ورزش تو تم اور تمہارے باپ دادا مل کر بھی نہ کرتے ہوں گے جتنی میں روزانہ کرتا ہوں۔ وہ ایک پڑوسی چینل پر ایک فلمی ڈائریکٹر کے انٹرویو کے بارے میں تو ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ سوال کنندہ نے ان سے پوچھا کہ سنا ہے آپ ورزش بالکل نہیں کرتے تو اس نے کہا کہ گھوڑا سب سے زیادہ ورزش کرتاہے تو اس کی عمر بیس سال تک بھی نہیں پہنچتی لیکن سانپ لیٹا رہتا ہے اور سیکڑوں سال زندہ رہتا ہے۔ ہم بھی کہاں پھسل گئے، ہمارا موضوع نہ سانپ تھا نہ گھوڑا بلکہ ورزش بھی نہیں بلکہ ''بہار'' کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

فصل گل آئی پھر اک بار اسیران جفا

اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے

ہم ان سب باتوں کو محض شاعرانہ مبالغہ سمجھتے ہیں لیکن اب لگ پتہ گیا کہ ''بہار'' واقعی بڑا ہی جان لیوا موسم ہوتا ہے خاص کر مارچ کا مہینہ تو ہم پر بہت بھاری گزرتا ہے کہ سیکڑوں دل دکھانے والے سوال ہماری طرف مارچ کرنے لگتے ہیں خاص طور پر 23 مارچ یعنی مارچ کا آخری ہفتہ۔ اپریل فول تک۔ کیوں بھئی۔ تمہیں کوئی ایوارڈ نہیں ملا؟ تم نے اب تک کوئی ایوارڈ کیوں نہیں جیتا؟ تم سے جونئیر جونئیر آکر سینئرایوارڈ لے گئے اور تم؟۔اب تک تو ہم ایسے سوالوں کا جواب جھوٹ سے دیتے تھے سارا الزام ''دینے والوں'' پر دھرتے تھے لیکن یہ لوگ یہ ہیں یا وہ ہیں۔ ایسا کرتے ہیں ویسا نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اب خیال آیا کہ اس آخری عمر میں اگر ہم کچھ اور نہیں چھوڑ سکتے تو کم ازکم جھوٹ بولنا تو چھوڑ دیں حالانکہ اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ یہ خیال آیاتھا کہ جھوٹ چھوڑ دینا چاہیے لیکن اس کی جگہ صرف داڑھی چھوڑ کر جھوٹ کو جاری رکھا۔ بلکہ اور زیادہ کر دیا ایک پشتو شاعر نے بھی کہاتھا کہ:

بے د گیرے نہ کوم کار دے چہ تا پریخو

یعنی داڑھی کے سوا اور کون ساکام ہے جو تم نے چھوڑا ہو۔ لیکن اب کے ہم نے سچ مچ جھوٹ سے توبہ کرنے کی ٹھان لی ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم دنیا کی ہر گیتا، سیتا، بیتا اور نمریتا پر ہاتھ اور دھیان رکھ کے ''شپت'' لیتے ہیں کہ آیندہ صرف سچ بولیں گے اور سچ کے سوا اور کچھ نہیں بولیں گے۔ ہمارے اس اعلان پر ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہ کہ تمہارا مطلب ہے کہ تم ''موئن ورت'' رکھنا چاہتے ہو یعنی چپ کا روزہ اور یا پھر سیاست جوائن کر رہے ہو کیونکہ سیاست میں کوئی جھوٹ نہیں بولتا بلکہ جھوٹ کو سچ سمجھ کر بولتا ہے جس طرح رشوت کو شکرانہ نذرانہ یا کمیشن سمجھ کر لیا جاتا ہے۔

لیکن ہم نے سختی سے کہا۔ کہ نہیں ہم واقعی میں جھوٹ چھوڑنا چاہتے ہیں بلکہ چھوڑ دیا ہے اور پھر اس کا عملی ثبوت دیتے ہوئے ''ایوارڈز'' کے بارے میں اپنے پچھلے تمام بیانات رد کر دیے جس میں ہم ''اوروں'' کو مورد الزام ٹھہرایا کرتے تھے۔ وہ سب جھوٹ تھا۔ سچ یہ ہے کہ ہم خود ہی نااہل تھے، ہیں اور رہیں گے۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ دینے والوں سے پہلے لینے والے کو لینے والا ثابت کرنا ضروری ہے۔ دینے والا اگر دینا چاہے تو کیسے دے گا کہ ہمارے پاس جھولی ہی نہیں ہے۔ ابن انشاء کی جھولی میں اگر سو چھید بھی تھے تو جھولی تو تھی چھیدوں کی وجہ سے باریک نہ سہی موٹی موٹی چیزیں تو اس میں ڈالی جا سکتی تھیں لیکن جب جھولی ہی نہ ہو بلکہ کرتا تک نہ ہو تو دینے والے کیسے دیں گے۔ ہمارے سر پر نہیں رکھ سکتے حضرت حافظ شیرازی کے ساتھ بھی کچھ ایساہی تھا کہ:

ارباب حاجتم وزبان سوال نیست

درحضرت کریم تمنا چہ حاجت است

یعنی حاجت مند ہوں کہ مانگنے کی زبان نہیں رکھتا۔ اور حضرت کریم کے سامنے اظہار تمنا کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن اس زمانے میں غالباً حضرات کریم ہوا کرتے ہوں گے اور کرم کے لیے سوال ضروری نہیں ہو کریم خود کرم فرما ہو کر کرم دیتا ہے۔

بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے

وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے

لیکن ہمارے زمانے میں کریم نہیں ہوتے ''رحیم'' ہوتے ہیں اور رحم کے لیے خود کو قابل رحم ثابت کرنا ضروری ہوتا ہے رحیم لوگ کریم کی طرح بے طلب نہیں دیتے۔ اور ٹھیک کرتے ہیں کوئی مانگے تو دیں گے کہتے ہیں کہ بچہ روتا ہے تو ماں اسے دودھ پلاتی ہے۔ ایک تو یہ کم بخت ''جھولی'' ہمارے پاس نہیں ہے اور جھولی پھیلائیں گے تو اس میں کچھ ڈالا جائے گا۔ یہ سلسلہ تو ''آگے'' کی طرف ہوا اب پیچھے کی طرف ''دُم'' ہو گی تو اس میں چھاج یا چھلہ ڈالا جائے گا اور اگر ''دُم'' بھی نہیں ہے تو بچارے چھاج اور چھلہ باندھنے والے اگر باندھنا چاہیں بھی تو کہاں باندھیں گے انصاف کی کہیے بلکہ انصاف کو تحریک دے انصاف سے کہیے کہ اس میں دینے والوں کا کیا دوش وہ تو دامن اور دُم کے حساب سے دیتے ہیں اگر دامن پھیلا نہ ہو اور دُم ہل نہیں رہی ہو تو آگے بڑھ کر پھیلی ہوئی جھولی اور ہلتی ہوئی دُم دیکھیں گے اور یہ دونوں نظر آئیں تو ان میں ڈال دیں گے۔ اور یہ بڑی ناانصافی ہے جو ہم آج تک دینے والوں سے روا رکھے ہوئے تھے اور سارا الزام ان پر دھرتے تھے۔

ہم الزام ان پر دھرتے تھے قصور اپنانکل آیا۔ اس لیے آج ہم ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں خاص طور پر جو اکثر چودہ اگست اور 23 مارچ یعنی بہار و ساون میں طعنہ نما قسم کے سوال یا سوال نما قسم کے طعنے دیتے ہیں ان سب کو نوٹ کرنے کے لیے سچ اور صرف سچ جواب یا بیان یہ ہے کہ سارا دوش سارا قصور اور ساری نالائقی ہماری اپنی ہے کہ اتنے زمانے میں نہ ''جھولی'' پیدا کر سکے اور نہ دُم۔ ورنہ:

گلشن میں علاج تہی دامن اور دُم بھی تھا اور ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں