کہانی سوشل میڈیا کی
سوشل میڈیا کی دنیا آج تیز ترین سمجھی جاتی ہے۔
WASHINGTON:
سوشل میڈیا کی دنیا آج تیز ترین سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے اردگرد کیا ہورہا ہے اگر ہمیں خبر نہیں ہے تو ہمارے پڑوسی ممالک میں رہنے والوں کو اس کی ضرور خبر ہے اور یہ خبریں باہم شیئر ہوتی ہیں، اسی سوشل نیٹ ورک کے ذریعے جو پاکستان کے کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے شہر کی ایک چھوٹی سی خبر بمعہ ویڈیو کے ہالینڈ، کینیڈا، برطانیہ، دبئی اور نجانے کہاں کہاں تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔
ویسے تو بہت سے سوشل دائرے مشہور ہیں، لیکن فیس بک اب 90 سال کے بوڑھوں سے لے کر 9 سال تک کے بچے میں باہم مقبول ہوتا جارہا ہے جو اپنے اپنے مزاج اور عمر کیمطابق پوسٹ شیئر کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں مصر میں محمد مرسی کے حامی اور حکومت کے کارندوں کے درمیان جو جنگ چھڑچکی ہے اس کی دلدوز خبریں اور ویڈیوز فیس بک پر آپ کو یاد دلاتی رہتی ہیں کہ اگر آپ کے چینلز پر یہ خبریں نظر نہیں آتیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ سب کچھ اچھا ہورہا ہے، بہت کچھ بہت برا بھی ہورہا ہے۔ اسی طرح شام میں ہونے والی ہلاکتیں اور تباہ کاریوں کی خبریں، ویڈیوز اور تصاویر اہل قلم کو مجبور کرتی رہیں کہ یہ سب کچھ اسی دنیا میں ہورہا ہے۔ خدارا! آپ خاموش نہ رہیں، ہم آپ کی توجہ اور دعاؤں کے طالب ہیں۔
صرف یہی نہیں برما میں مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کے پیچھے کون سا چہرہ چھپا ہے، یہ میں اور آپ ہرگز نہ جان پاتے کیونکہ بہت سی ایسی باتیں ہم اخبارات میں بھی نہیں پڑھ سکتے لیکن فیس بک کے صارفین میں سے کسی ایک کو بھی کہیں سے سن گن ملی اور چل گئی پٹی۔۔۔۔ میری طرح اور بھی بہت سے لوگ اسی فیس بک کو اس لیے شوق سے دیکھتے ہیں کہ اس میں بیٹھے بٹھائے ایک دنیا کی خبر مل جاتی ہے لیکن ان خبروں کی سچائی کو جانچنے کا کوئی ترازو نہیں ہے اور اس طرح یہ معاشرے میں یلو جرنلزم کی شاخیں بھی تناور کرتا جارہا ہے۔شوبز کی شخصیات کے لیے فیس بک اچھا بھی ہے تو برا بھی۔ ہمارے لوگ تو اتنے عقلمند ہیں کہ اپنی پسندیدہ شخصیات کے اکاؤنٹ بھی خوب بنا رکھے ہیں اور اس کے فائدے بھی اٹھا رہے ہیں اور اپنی مرضی سے خبریں بھی لگا رہے ہیں۔ وینا ملک کے لیے فیس بک میں کیا کیا نہیں آیا، کچھ اچھا اور زیادہ تر برا۔ اسی طرح پڑوسی ملک کے فنکار بھی اسی فیس بک کے ذریعے ابھارے اور گرائے جارہے ہیں لیکن اس طرح دونوں ہی طریقوں سے ان کی پبلسٹی خوب ہوجاتی ہے۔
سیاستدانوں کے لیے بھی یہ خوب ہے۔ الیکشن کے دنوں میں تو اس کی شان ہی نرالی تھی۔ ہمارے بڑے بڑے لیڈران کی شان میں ایسی ایسی قصیدہ گوئی کی گئی تھی کہ بیان سے ہی باہر ہے۔ مثلاً ہمارے ایک معزز مولانا صاحب کو کسی تقریب میں ایک ہندو خاتون سے مصافحہ کرتے دکھایا گیا جن کے اردگرد کھڑے حضرات ایسے دانت نکال رہے تھے جیسے کسی کامیڈی فلم کا منظر ہو، کچھ دنوں تک یہی پوسٹ شیئر ہوتی رہی، یقیناً یہ ان صاحب کے سیاسی مخالفین کی کارروائی تھی۔ آخر اس کے مقابلے میں جو کارروائی کی گئی تھی اسے صاف کرکے تصویر اتنی پوسٹ کی گئی کہ پھر گھوم گھما کر ہمارے پاس پہنچ گئی۔ بہت بری بات ہے ہمیں کہنا ہی پڑا۔ کیوں لوگ اس طرح سے گھٹیا حرکتیں کرتے ہیں۔ عمران خان سیاست میں ابھرے تو ابھرتے ہی گئے۔ ان کے مخالفین نے ان کے اتنے بخیے ادھیڑے کہ شاید خود خان جی بھی اپنی ذات کے اتنے زاویوں سے واقف نہ رہے ہوں گے۔ حکمرانوں اور سیاستدانو سمیت بڑے بڑے نامی گرامی نام اسی فیس بک کی زد میں آکر ایسے نظر آئے کہ۔۔۔۔۔ اگر واقعی وہ ان تمام پوسٹوں کو سنجیدگی سے لے لیتے تو اپنے ہی گھر والوں سے منہ چھپاتے۔
بچوں میں فیس بک خاصی مقبول ہے لیکن کسی بھی اکاؤنٹ میں کون بچہ اور کون بڑا یہ جاننا بھی مشکل ہے، اس لیے کہ بہت سے حضرات اور محترمائیں غلط شناخت کے ساتھ متعارف ہوتی ہیں مثلاً لڑکا ہے تو اپنے ہی جیسے بھائی بندوں کو فول بنانے کے لیے خوبصورت سی لڑکی کے طور پر اپنے ہی دوستوں سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہیں۔ کیا بزرگ اور کیا بچہ ایک عجب بے ہودگی کا ساماں ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے اپنے ایک جاننے والے نے شکایت کی کہ ان کا بچہ ان کے فیس بک اکائونٹ پر ہے لیکن اس بچے کے کچھ فضول دوست اتنی لغو گفتگو کرتے ہیں کہ جس سے انھیں کئی بار اپنے دوستوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ مجبوراً انھیں اپنے ہی صاحبزادے کو اپنے دوستوں کی فہرست سے خارج کرنا پڑا۔ نزدیکی دوست اور سیکیورٹی کے بہت سے تقاضوں سے نابلد لوگ ایسا مواد آگے بڑھا دیتے ہیں جو فضولیات کے زمرے میں آتا ہے۔ جس سے غلط فہمیاں بڑھتی ہیں۔
حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والے اس واقعے نے جس میں ایک شخص نے جس کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے کہ وہ نفسیاتی مریض ہے پورے اسلام آباد کی پولیس کو چکرا کر رکھ دیا۔ پانچ گھنٹے تک کے اس بغیر وقفے کے ڈرامے نے سوشل میڈیا کو بھی ایک عام ناظر کی طرح متاثر کیا، لوگوں کے ذہنوں میں سوالات ابھر رہے تھے، شکوک جنم لے رہے تھے اور ویسے بھی اب عوام خاصے سمجھدار ہوچکے ہیں اسے میٹھی گولیاں دے کر سمجھانا آسان نہیں مثلاً حکومتی عہیدار کتنا ہی کہتے رہیں کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا اور آسان نہیں ہے لیکن سوشل میڈیا پر اس سکندر نامی کے بارے میں بہت کچھ آچکا ہے لوگ سیکیورٹی کے اداروں اور ماہر سراغ رساں کی طرح کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
مثلاً یہ کہ سکندر دبئی میں ایک اعلی پاکستانی حکومتی شخصیت کے پاس ملازم تھا اور سیکیورٹی گارڈ بھی رہ چکا ہے، اس کی بیوی کنول پیپلز پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کی ہمدرد اور خیر خواہ ہے وغیرہ وغیرہ، اور یہ سب انھوں نے اپنی پارٹی کے کہنے پر کیا، یہاں تک کہ زمردخان اور کنول کے ساتھ فردوس عاشق اعوان کی بھی تصاویر پوسٹ کی جاچکی ہیں۔ جواباً رفیق انجینئر مرحوم کی تصاویر کے ساتھ یہ بات بھی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جسے سکندر کہا جارہا ہے وہ دراصل انجینئر صاحب ہیں۔ زمردخان کی بہادری ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا لیکن جس انداز سے وہ سکندر کی بے ساختہ فائرنگ سے بچے، اس سے یہ اندازہ لگانا کہ سکندر نے ان پر جان بوجھ کر اس لیے گولی نہیں چلائی کہ وہ خود اسی ٹوپی ڈرامے کے کردار ہے اسی سوشل میڈیا کی کہانی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا عمروعیار کی ایک ایسی زنبیل بن چکا ہے کہ اس میں سے جو چاہو ہاتھ ڈالو اور نکال لو۔ سچ بھی جھوٹ محسوس ہوتا ہے کہ جھوٹ کو اتنے پہناوے پہنا دیے جاتے ہیں کہ سچ کا گماں ہوتے ہیں۔ تو پھر کسے صحیح سمجھیں؟ کیونکہ یہ گول گول پھیریوں کا چکر تو بڑھتا ہی جارہا ہے۔ تو بس اپنی عقل پر ہی زور دیں یہی دانش مندی ہے۔