اناڑی کھلاڑی
پورے ملک میں اس وقت فکری انتشار کی وجہ تحریک انصاف کا اعلانیہ عزم کہ وہ سابق کرپشن مافیا کا سدباب کر کے دم لیں گے۔
مصلحت خداوندی ہے کہ وہ انسان کو اس کی اوقات یاد دلائے رکھتا ہے تاکہ وہ انسانیت کی حدود پار کرنے کی کوششوں سے باز رہے اور خالق و مخلوق میں فرق میں تجاوز کرنے کی حماقت میں مبتلا ہونے کی جسارت کا ارتکاب کرنے کی غلطی سے احتراز کرے، کیونکہ خودی کا نشہ بہرطور فنا کی وادیوں میں اتار کر اترتا ہے اور اس کی مثالیں نہ صرف قرونِ اولیٰ کی تاریخ بلکہ اپنے گرد و پیش نظر دوڑانے سے بھی مل اور نظر آ جاتی ہیں۔
دس ماہ قبل ہمارا جس روز پاکستان سے اپنے بچوں سے ملنے امریکا آنا ہوا اور ابھی ہم ہوائی جہاز میں تھے جب کہ وہ انتخابات کا دن تھا جس میں تین بڑی سیاسی پارٹیاں حصہ لے رہی تھیں، مسلم لیگ (ن) اقتدار میں تھی، اس سے پہلی پانچ سالہ ٹرم پاکستان پیپلزپارٹی کی رہی تھی جب کہ پاکستان تحریک انصاف تیسری بڑی پارٹی میدان میں تھی۔ تیسری پارٹی PTI جس کے سربراہ سابق کرکٹر اور سوشل ورکر عمران خان تھے، پہلی بار پھر پورے طریقے سے میدان میں اتری تھی۔
پہلی دونوں پارٹیاں تجربہ کار، آزمودہ اور طاقت کے نشے میں سرشار تھیں، تیسری یعنی PTI ناتجربہ کار اور نوجوان افراد پر مشتمل تھی جس کا اکلوتا اور بھرپور نعرہ ملک کو کرپشن اور کرپٹ سیاست دانوں سے پاک کرنا اور کرپشن میں لتھڑے افراد کو کٹہروں میں لا کر جیلوں میں ڈالنے کے علاوہ ملک سے لوٹی گئی دولت واپس لا کر ملک کو غربت، جہالت، بیماری، بے انصافی اور ظلم کے پنجوں سے نکالتا تھا۔ گزشتہ دورۂ امریکا پہلے سے طے شدہ تھا۔ حُسن اتفاق کہ ہم جہاز میں تھے جب کہ پاکستان میں یوم انتخاب تھا۔ ہم طارق کے پاس ہیوسٹن پہنچے تو پاکستان سے خبریں آنے لگیں کہ پاکستان میں عمران خان کی تحریک انصاف کے کامیاب امیدواروں کی تعداد اول، مسلم لیگ (نواز) کی دوسرے اور پیپلزپارٹی کی تیسرے نمبر پر ہے۔
امریکا پہنچ کر لکھے ہوئے میرے پہلے کالم کا عنوان تھا ''بلے بلے ہو گئی'' پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان کرکٹ کا بلا ہے، اسی نسبت سے کالم کا عنوان PTI کی الیکشن میں غیرمتوقع کامیابی کے پیش نظر ذہن میں آیا لیکن نواز شریف کی سزایابی، پھر درخواست پر سپریم کورٹ کی چھ ہفتے کے لیے بغرض علاج غیرمعمولی ضمانت کی مدت ختم ہونے پر کارکنوں کے پرجوش ہجوم کی نعرہ بازی، گلاب کی پتیوں کی بارش میں جیل واپسی کی خبریں ایک غیرمعمولی فعل اور عمل تھا۔ گویا جیل کا باسی کرپشن کا سزا یافتہ ملزم قابل فخر ہوتا ہے نہ کہ قابل تحقیر و مذمت۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ کرپشن کے سزا یافتہ پر جیل واپسی کے دوران پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنا عدالتی حکم تسلیم کرنے سے انکار تھا یا حکمران کی کرپٹ پریکٹس کی Celebration۔ غور طلب بات ہے کہ سزا یافتہ شخص کے فعل کی عوامی سطح پر پذیرائی سے عام شہری اور مجرم ذہن کا شخص اس قسم کے فعل و عمل سے نیکی کا سبق حاصل کرے گا یا جرم کی تحریک پکڑے گا۔
گزشتہ کافی عرصہ سے پاکستانی ایئرلائن کی Pride سروس پی آئی اے جس نے کئی معروف ایئرلائنز کی لانچ میں قابل فخر کارنامہ انجام دیا اور Great People to fly with کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی تھی، بد اور بدنامی کا نام کما کر بند کر دیئے جانے کے قریب تھی کہ ہم نے لاہور سے لندن تک ایک دوست کے مشورے پر PIA کے ذریعے جانے کا ارادہ کر لیا لیکن خوفزدگی کی حالت ایسی تھی کہ جہاز کے ٹیک آف کرنے تک دم سادھے بیٹھے رہے اور خیر کی دعائیں مانگتے رہے، یہ آٹھ گھنٹے کی نان اسٹاپ فلائٹ تھی۔ جہاز کا ٹیک آف، فلائٹ، ایئر ہوسٹس، عملے کی میزبانی، Smooth Flying اور پھر ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر بر وقت لینڈنگ تک خوف کی کیفیت آتی جاتی رہی لیکن باہر آ کر ٹیکسی میں بیٹھے تو اس کا گمشدہ Motto ''باکمال لوگ لاجواب پرواز'' واپس آتا نظر آیا۔
پاکستان میں گزشتہ دو سال سے اخبار اور ٹیلی ویژن کے ذریعے عوام تک پہنچنے والی خبروں میں خوشی، کامیابی، امید، نیکی، خوشحالی اور ترقی کے موضوعات نے تنقید، اختلاف، الزام، تنقیص، فساد، بدزبانی، حقارت بلکہ گالی گلوچ نے جگہ لے کر عوام کی تربیت، سوچ اور عادات پر منفی و پراگندہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ لوگ آپس میں مل بیٹھتے ہیں تو بجائے مثبت و تعمیری گفتگو کے تخریبی اور سیاست زدہ موضوعات پر وقت اور سوچ کا ضیاع کر کے ماحول اور فکری پراگندگی میں اضافہ کر کے ایک دوسرے سے اختلاف کی راہ پر چلتے اور ہم آہنگی کی راہ اپنانے سے اجتناب کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
پورے ملک میں اس وقت فکری انتشار کی وجہ تحریک انصاف کا اعلانیہ عزم کہ وہ سابق کرپشن مافیا کا سدباب کر کے دم لیں گے جب کہ دونوں سابق حکمران جماعتوں کی ہم آہنگی کہ حکمران PTI جماعت کی طنابیں کوئی اور ہلا رہا ہے اور حکمران جماعت کے پاس ملکی معیشت کو سنبھال کر ترقی کی راہ پر لانے کی قابلیت ہے نہ تجربہ اور یہ کہ حکمران وقت نااہلوں اور ناتجربہ کاروں کا ٹولہ ہے جو بہت جلد ناکام ہو کر حکومت سے دستبردار ہو جائے گا۔ ملک سے باہر بیٹھے پاکستانیوں کی اکثریت بھی البتہ اتفاق کرتی ہے کہ ناتجربہ کار حکمران بہرحال کرپٹ نہیں ہیں، انھیں ورثے میں بھی خزانہ خالی اور قرضوں کے انبار ملے ہیں، اس کے علاوہ حزب اختلاف کے تجربہ کار سیاستدان اپنے ممکنہ اس انجام سے سخت خوفزدہ ہیں جس پر NAB کے موجودہ چیئرمین مسلسل اپنے ارادوں کا برملا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں۔
بہرحال پاکستان سے امریکا آئے مجھے دو ہی دن ہوئے ہیں اور سوالوں کے جواب دینے کے لیے میں دوستوں سے یہی کہہ رہا ہوں کہ موجودہ حکمران اناڑی ضرور ہیں اور سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی بھی نہیں اس کے باوجود اگر وہ دامن پاک رکھنے کا عزم رکھتے ہیں تو انھیں تھوڑا وقت دینے میں کوئی حرج نہیں۔