گروہ عاشقاں اور نامہ بر
قوم نے فی الحال اپنے آپ کو عمران خان کے سپرد کر رکھا ہے۔
ایک مستند سیاستدان نے ایک بار کہا تھا کہ جنگ اس قدر نازک معاملہ ہے کہ اسے فوجی جرنیلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا لیکن ان سیاستدانوں کے پیدا کردہ بعض معاملے ایسے ضرور ہوتے ہیں جنھیں فوجی جرنیلوں کے سپرد ہی کیا جا سکتا ہے۔
آج کل نہ تو جنگ کا کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی فوج کی حکومت ہے، ایسے ہی بیٹھے بٹھائے ایک بات یاد آگئی تو سوچا کہ قارئین کو بھی اس میں شریک کر لیا جائے۔ ان دنوں پاکستان کی سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ منتخب حکومت اپنے ہی ساتھی سیاستدانوں کی پیدا کردہ مبینہ غلاظت کو صاف کرنے کا مضبوط ارادہ رکھتی ہے اور وہ اپنی آمد کی وجہ یہی بتاتے ہیں کہ ملک سے کرپشن اور بدعنوان عناصر کا مکمل خاتمہ ان کے ایجنڈے میں پہلے نمبر پر ہے۔
ماضی کے کئی سیاسی حکمران اپنی جمہوری حکومتوں میں ملک کے ساتھ جو ہاتھ کر گئے ان کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ عمران خان خوش نصیب ہیں کہ وہ بلا جواز نہیں آئے، قوم نے سابقہ حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے انھیں بھر پور ووٹ دے کر اقتدار کی عنان ان کے سپرد کی ہے اور ابھی تک پوری قوم مشکلات کے باوجود اس انتظار میں ہے کہ نئے پاکستان کی شمع عمران خان ہی روشن کریں گے۔
اب یہ عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ قوم کے مینڈیٹ کو کس قدر مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں یا اسے ڈھیلا کر کے اپنا حکمرانی کا جواز ختم کر دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے بھی عوام کے بھاری مینڈیٹ کے باوجود خود کو تنہا کر لیا تھا اور اس بھرے پرے ملک میں وہ اکیلے کھڑے تھے حالانکہ انھیں اقتدار اس قدر زیادہ مل گیا تھا کہ ان کے ایک ساتھی سیاستدان کے بقول مکمل اور بھاری اقتدار کی اس دہشت سے ان کے قریب کوئی نہیں جاتا تھا اور وہ صرف دو چار ساتھیوں کے حلقہ میں اقتدار کی زندگی بسر کر رہے تھے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے ایسے حیران کن فیصلے کرنے شروع کر دیئے اور ایسی بونگیاں مارنی شروع کر دیں کہ بھاری مینڈیٹ ان کی کرسی کو لے ڈوبا اور ان کی پارٹی اقتدار میں ہونے کے باوجود ان کو وزیر اعظم کی کرسی چھوڑنا پڑی اور اب یہ عالم ہے کہ انھیں نجات کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات چل رہے ہیں اور وہ سیاست کی گندگی کے باعث مدینہ منورہ جیسی با برکت جگہ کے بجائے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں رمضان شریف گزار رہے ہیں۔
قوم نے فی الحال اپنے آپ کو عمران خان کے سپرد کر رکھا ہے اور ان سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد بدعنوان سیاستدانوں سے ان کے مال مسروقہ کا حساب لیں اور اسے وصول کر کے کھاتے میں جمع کریں تا کہ حکومتی خزانہ بھرے اور عوام کی مشکلات کم ہوں کیونکہ عوام کی مشکلات ختم تو ہو نہیں سکتیں اس لیے ان مشکلات کے کم ہونے کی دعا اور امید کی جا سکتی ہے۔ فارسی کا ایک پرانا شعر یاد آ رہا ہے جو اس صورت حال پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے کہ ہم نے اپنی جمع پونجی تمہارے سپرد کر دی ہے اب کم و بیش کا حساب تم خود ہی جانتے ہو۔۔
سپردم بہ تو مایۂ خویش را
تو دانی حسابِ کم و بیش را
ان دنوں جس سے بات کریں وہ یہی بات کرتا ہے کہ عمران خان نے جو وعدے کیے تھے وہ کس طرح پورے کریں گے۔ پوری قوم کی گفتگو کا یہی ایک موضوع ہے۔ امیدیں ہیں، اندیشے ہیں، خواہشیں ہیں، وسوسے ہیں بے اندازہ مشکلات کا شکار لوگوں نے طرح طرح کی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔ زبانی کلامی ہی سہی لیکن زندگی کی مدھم سی روشنی دکھائی دے رہی ہے۔ خدا کرے یہ روشنی شعلہ بن کر بھڑکنے لگے۔ دلگیر پاکستانی شدید پریشانی اور اضطراب کے عالم میں ہیں۔ بہر کیف عوام اپنے جذبات کسی نہ کسی طرح نئے حاکموں تک پہنچا رہے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کے اختیار میں کچھ نہیں۔ انٹرویو کرنے والوں نے ایک امیدوار سے سوال کیا کہ فرض کرو تم کسی جنگل میں اکیلے جا رہے ہو اور تمہارے سامنے شیر آ جاتا ہے تو بتائو تم کیا کرو گے ۔ امیدوار نے بڑی معصومیت سے جواب دیا جناب عالی میں کیا کروں گا جو کرے گا وہ شیر ہی کرے گا۔ تو اب جو کچھ کرنا ہے عمران خان نے ہی کرنا ہے اس لیے ہم صرف انتظار کر سکتے ہیں سو وہ ہم کر رہے ہیں۔
پکڑ دھکڑ کا زمانہ ہے ابتدائی طور پر بہت سے افسران سے پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع ہوا جو ان کی گرفتاری پر جا کر ختم ہوا، ان میں سے کئی ایک نے نیب کے ساتھ معاملات طے کر لیے اور لوٹی گئی دولت کا کچھ حصہ دے کر اپنی جان چھڑا لی لیکن جن افسران نے حکومتی نمائندوں کے ساتھ مل کر بدعنوانیوں کے ریکارڈ بنائے وہ ابھی تک نیب کی تحویل میں ہی ہیں۔ انتظامی افسران کے بعد سیاستدانوں کی باری بھی آگئی اور اپوزیشن سمیت حکومت کے اہم افراد بھی نیب کی تحویل میں اپنا کیس لڑ رہے ہیں۔ ایک باذوق افسر سے میں نے ان کا حال چال پوچھا تو انھوں نے صرف ایک شعر پڑھ دیا۔۔
گروہ عاشقاں پکڑا گیا ہے
جو نامہ بر تھے ڈرتے پھر رہے ہیں
میری تما م تر ہمدردیاں نامہ بروں کے ساتھ ہیں لیکن جنہوں نے عشق کیا وہ عشق کا مزا بھی چکھیں ۔
آخر میں ایک معمولی گزارش ہے کہ ملک کے اہم ترین عہدوں کے لیے جن حضرات کا انتخاب کیا جا رہا ہے، اس میں غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہے، پہلے ہی بہت وقت ضایع کیا جا چکا ہے جس میں ہم ماہر ہیں لیکن اگر کوئی معقول آدمی کسی اہم عہدے پر بیٹھ گیا تو پھر حالات بدل بھی سکتے ہیں ۔ فی الحال تو پاکستانی شناختی کارڈ بنائے جا رہے ہیں جس طرح سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو راتوں رات پاکستان کی شہریت دی گئی تھی لیکن ٹھہریئے مجھے کب سے یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ میری گزارشات کی بھی کوئی شنوائی ہوتی ہے اور میرے ذریعہ عوا م کی بات مانی جاتی ہے اگر مانی جاتی تو میاں نواز شریف آج بھی حکمران ہوتے۔