بڑھاپے کوبھی شاندارطریقے سے گزاراجاسکتاہے

شیخ صاحب کی عمر بیاسی برس ہے۔آنکھوں میں ہردم تجسس کی حرارت ہے


[email protected]

شیخ صاحب نے قہقہہ لگایا۔ہاتھ پرہاتھ مارکر پوچھا، ڈاکٹر!نئی فلم کونسی دیکھی ہے۔ہم دونوں ہفتے میں تین دن پارک میں سیرکرتے ہیں۔ایک گھنٹہ باتیں کرتے کرتے گزرجاتاہے، وقت کاپتہ ہی نہیں چلتا۔ جواب تھاکہ سینماگئے ہوئے مدت ہوگئی ہے۔مگرنیٹ فلیکس پرہیلن آف ٹرائے،کی چارپانچ قسطیں دیکھ چکا ہوں۔شیخ صاحب کہنے لگے۔وقت ہی ضایع کیا۔ گھر بیٹھ کرفلم دیکھی تو کیا فائدہ۔تیارہوکرسینما میں کیوں نہیں گئے۔اب تولاہورمیں ایک سے ایک بہترتھیٹر موجود ہے۔ گھر میں صوفے پرلیٹ کریابیٹھ کر فلم دیکھنے کاکیا فائدہ۔ جومزا سنیما ہال میں فلم دیکھنے کا آتاہے،وہی اصل لطف ہے۔

شیخ صاحب کی عمر بیاسی برس ہے۔آنکھوں میں ہردم تجسس کی حرارت ہے۔ ایسے لگتاہے کہ دیوارکے پیچھے بھی دیکھ سکتی ہیں۔ڈاکٹر،چلویہ بتاؤکہ فلم دیکھتے ہوئے کہیں مسکرائے،قہقہہ لگایا یاخاموش ہی رہے۔خاموشی سے فلم دیکھی ہے۔شیخ صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔ جو فلم، ہمارے جیسے غم زدہ معاشرے میں ہونٹوں پرمسکراہٹ نہ لاسکے،اسکودیکھنایانہ دیکھنا برابر ہے ۔ڈاکٹر،تم بھی ساٹھ سال کے ہورہے ہو۔ریٹائرمنٹ قریب ہے۔اگراسی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کرتے رہے،توبہت تھوڑے عرصے بعدسخت تنہائی اوراذیت میں آجاؤ گے۔ بڑھاپے میں آرہے ہوبلکہ آچکے ہو،تواس پکی عمرکوشاندارطریقے سے جیناسیکھو۔ہمارے ہاں،نوے فیصدبزرگ بڑھاپا گزارنے کافن نہیں جانتے۔لہذااپنے اوردوسروں کے لیے بھی باعث تکلیف بنے رہتے ہیں ۔ میں ہردوہفتے بعد،ایک شام عمدہ کپڑے پہنتاہوں ۔

لاہور کے بہترین سینمامیں وہ فلم تلاش کرتاہوں،جس میں بہت زیادہ سنجیدگی نہ ہو۔پوپ کارن خریدتاہوں اورہاں،منت کرکے اپنے ایک پرانے دوست کوساتھ لیتاہوں۔ جو امرتسرکے ہائی اسکول میں میرے ساتھ تھا۔باقی توسارے فوت ہوچکے ہیں۔شیخ صاحب، تقسیم برصغیرسے پہلے امرتسر میں رہتے تھے۔ 1947 سے لاہورمیں ہیں۔ مکمل لاہوری ہیں۔ وہ پھر بولے ،میں اور میرادوست فلم میں ہلکے سے مزاحیہ پن پرکھل کرہنستے ہیں۔پوپ کورن کھاتے ہیں ۔ ہاتھ پرہاتھ مارتے ہیں۔

باہرآکرمکالموں پربحث کرتے ہیں۔آپس میں ہروہ بات کرتے ہیں جوگھرمیں نہیں کرسکتے ۔یعنی بے معنی سی گفتگو۔ تین گھنٹے بعدمیں اپنے دوست کو واپس چھوڑتاہوں اور مزے سے اپنے گھرچلاجاتاہوں ۔ میراسوال تھا،کہ اس سے آپکوکیافائدہ۔جواب تھا۔ بڑھاپے میں فائدہ اور نقصان دیکھنابیوقوفی ہے۔ دیکھنا صرف یہ چاہیے کہ دلیخوشی کس چیزمیں ملتی ہے۔جوچیزبھی آپکودکھ دے،اسے فوراًترک کردیناچاہیے۔دراصل ہمارے ملک میں بوڑھے لوگوں کوجوانوں کی طرح زندگی گزارنے کافن نہیں آتا۔ باتیں کرتے کرتے ہم دونوں دوبارہ اُٹھے اورواکنگ ٹریک پر چلناشروع کردیا۔

شیخ صاحب سے میری بحث اکثرجاری رہتی ہے۔ بیاسی سال کی عمرمیں وہ ہردم تروتازہ ہیں۔ ہم پارک میں ایک ہفتہ میں تین بارضرورملتے ہیں۔اکٹھی واک کرتے ہیں۔ان کی باتیں غورسے سنتاہوںاور پھر سوچنے پرمجبور ہوجاتا ہوں۔شیخ صاحب پیشے کے لحاظ سے تاجرہیں۔ تقریباً ستر برس سے کاروبارسے منسلک ہیں۔امرتسرسے لاہورآکر کافی دیرمالی مشکلات کاشکاررہے۔سائیکل پرکپڑابیچنا شروع کیا۔ دس پندرہ برس بعد،کپڑابنانے کاچھوٹاساکارخانہ لگایا۔خدانے ان کابازوپکڑلیا۔ایک سے دو،دوسے تین اور پھردرجن بھرکے قریب فیکٹریاں ہوگئیں۔

آج سے ٹھیک پانچ برس پہلے،اپنے بچوں کوکاروبارحوالے کیااورصرف یہ کہاکہ میں ہیڈآفس میں روزانہ دوگھنٹے بیٹھ کرکاروبار پر نظر رکھوں گا۔ اب وہ روزانہ شادمان میں اپنے دفترجاتے ہیں۔دو گھنٹے بیٹھتے ہیں۔ ورکروں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی مکمل کوشش کرتے ہیں۔اگرکوئی بیٹاکاروباری مشورہ مانگے توکہتے ہیں کہ خودفیصلے کرنے سیکھو۔اگر نقصان ہوگا،تووہی تمہارابہترین استاد بنے گا۔شیخ صاحب کے خیالات عام لوگوں سے حددرجہ مختلف ہیں،منفرد ہیں۔ میری ان کی ملاقات کوصرف چندمہینے ہوئے ہیں۔مگر پرانے دوست لگتے ہیں۔انھیں دوست بنانے کاہنرخوب آتاہے بلکہ بہت خوب آتاہے۔

پچھلے ہفتے، سیرکرتے کرتے کہنے لگے کہ ڈاکٹر!تم نے کبھی نہیں پوچھاکہ اپنابڑھاپااتنااچھاکیسے گزار رہا ہوں۔ بغیرسوچے سمجھے جواب دیا۔شیخ صاحب،آپکے ماشاء اللہ بہت وسائل ہیں۔دولت کی فراوانی ہے۔کوئی مسئلہ نہیں۔ بچوں کی شادیاں کرچکے ہیں، لہذااب آپ اچھی زندگی گزاررہے ہیں۔شیخ صاحب نے میراہاتھ پکڑا اورہم پارک کی گھاس پربیٹھ گئے۔ سنجیدگی سے کہنے لگے۔ ڈاکٹر!تم نے ساری باتیںغلط کی ہیں۔عمرکے پختہ حصہ میں دولت بے معنی ہوجاتی ہے۔اس کی وہ اہمیت ہرگزہرگزنہیں رہتی جو ایک مخصوص عمرمیں ہوتی ہے۔

بڑھاپے کی اصل دولت سکون اورخوشی ہے۔اس کاتعلق انسان کے اپنے اندر ہوتا ہے۔مگراکثریت ان بے مثال جذبات کواپنے سے باہر تلاش کرتے کرتے حددرجہ تلخ ہوجاتی ہے۔یہ نہیں سمجھتے، کہ دراصل ان کااپناذہن ہی انھیں وہ ہرخوشی دے سکتا ہے، جسکی انھیں عرصے سے تلاش ہے۔ غورسے سن رہاتھا۔شیخ صاحب کہنے لگے کہ میراخیال تھاکہ بیس برس پہلے مرجاؤنگا۔ اس وقت میں ساٹھ سال سے اوپرتھا۔ہروقت پریشان رہتاتھا۔بیوی کے فوت ہونے کااَزحدصدمہ توتھاہی مگر جوان بیٹے نے توکمال دکھ دیا۔چالیس برس کی جوان عمری میں کینسرسے فوت ہوگیا۔

بیٹے کی جوان بیوہ اورچاربچوں کودیکھتاتھاتوکلیجہ منہ کوآتاتھا۔اس قدرڈ یپرس ہوگیاکہ ڈاکٹرکے پاس جاناپڑا۔مگرایک رات کو صرف یہ سوچاکہ زندگی موت توخداکے ہاتھ میں ہے۔ مگرزندگی کواچھے طریقے سے گزارناتومیرے ہاتھ میں ہے۔اس دن سے آج تک اپنی زندگی کوایک سواَسی کے زاویے سے تبدیل کرڈالا ہے۔بیٹے کی بیوہ کوکہاکہ بیٹاتم ابھی جوان ہو۔ شادی کرنا چاہتی ہو،تومیں بزرگ کی حیثیت سے تمہاری اپنی بیٹیوں سے بڑھ کرشادی کروںگا۔تمہارے چار بچے،یعنی میرے پوتے پوتیاںآج سے مکمل طورپرمیری ذمے داری ہیں۔ خاندان والوں نے مجھے بہت بُرابھلاکہا۔یہ بھی کہاکہ سٹھیا گیا ہوں۔ متوفی بیٹے کی بیوہ نے جواب دیاکہ وہ دوبارہ شادی نہیں کرنا چاہتی، کاروبارمیں مصروف کردیجئے۔اسے فیشن ڈیزائننگ کا شوق ہے۔اس کارابطہ ایک مشہوردکان سے کرادیا۔اب وہاں کپڑے بناکربیچ دیتی ہے۔اپناخرچہ بہترین طریقے سے خوداُٹھاتی ہے۔اس میں حددرجہ خود اعتمادی آچکی ہے۔اگراس نے کوئی مشورہ لیناہو تواپنے حقیقی والد سے نہیں بلکہ مجھ سے لیتی ہے۔

میرے قطعاًعلم میں نہیں تھاکہ شیخ صاحب نے اپنی اہلیہ اوراپنے بیٹے کے دنیاسے رخصت ہونے کاغم دیکھ رکھا ہے۔ان کی طبیعت سے معلوم ہی نہیں ہوتا۔شیخ صاحب نے کہاکہ ڈاکٹر!میں نے آج سے بیس برس پہلے چند فیصلے کیے تھے۔ان کے بعد،میری زندگی گُل وگلزاربن چکی ہے۔

شیخ صاحب گھاس پرلیٹ کرآسمان کودیکھنے لگے اور بولے، پہلا فیصلہ تویہ کہ میں اب کبھی کسی معاملے کی شکایت نہیں کروںگا۔اگرحل کرسکاتوٹھیک اوراگرمسئلہ بدستورقائم رہا توکوئی بات نہیں۔اسے مشیت الٰہی سمجھ کرمان لوں گا۔ اکثربوڑھے، ہروقت شکایت کرتے نظرآتے ہیں۔ انھیں کوئی بات اچھی لگتی ہی نہیں ہے۔اس عادت کومکمل طورپر ختم کرڈالا۔میری زندگی بیس فیصدتبدیل ہوگئیبلکہ بہتر ہوگئی۔دوسرافیصلہ یہ کہ کھاناکم کھاؤںگا۔یقین کرو۔اپنی غذاایک چوتھائی پرلے آیا۔وزن کم ہوناشروع ہوگیا۔ لوگ سمجھے کہ بیمارہوگیاہوں۔حالانکہ صحت مندہورہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ روزانہ ایک گھنٹہ پیدل چلناشروع کر دیا۔پہلے اندرون لاہورمیں رہتاتھا۔لارنس گارڈن قدرے نزدیک پڑتاتھا۔

پورا سال،ہرموسم میں،کسی تاخیرکے بغیر صبح صبح وہاں جاکر تیزتیزچلتاتھا۔ دوسرے فیصلے نے میری صحت کی کا یاپلٹ دی۔میرابلڈپریشر ٹھیک ہوگیا۔ بلڈپریشرکی دوائی چھوڑدی۔تیسرانئے دوست بنانے شروع کردیے ۔ فیس بُک استعمال کرناسیکھا۔بوڑھے لوگوں کاایک گروپ بنالیا۔ہم نے ہراتوارکوملناشروع کردیا۔ہم تقریباًبیس بابے تھے۔ مل کرفیصلہ کیاکہ کوئی نئی ہابی تلاش کرنی چاہیے۔سب نے اپنے لیے نئے شوق تلاش کرلیے۔میں نے پودے لگانے شروع کردیے۔ان فیصلوں سے میری زندگی اَسی فیصدبدل گئی۔میرے بیٹوں اوربیٹیوں نے کہنا شروع کردیاکہ آپ نوجوان ہورہے ہیں۔میری آٹھ سال کی پوتی نے اسکول میں بہترین دوست پرمضمون لکھا۔ اسے اس پراسکول کی طرف سے پرائزملا۔پتہ ہے،اس کا مضمون کس پرتھا؟ مجھ پر۔

ہاں،آخری بات جس نے اَسی فیصدکو سو فیصد کر دیا۔ میں نے چھوٹی چھوٹی خوشیاں محنت سے تلاش کرنی شروع کردیں۔ پرانے دوستوں کوگھروں سے اُٹھایا اور ان کے ساتھ بکواس قسم کی گفتگوشروع کردی۔وہی لایعنی باتیں جو ہم جوانی میں کرتے تھے۔میں بورلوگوں سے دوربھاگنے لگا۔جس شخص سے مل کرڈیپریس ہوجاؤں،اس سے ملنا چھوڑ دیا۔ڈاکٹر،تم یقین کرو۔ پانچ فیصلوں نے میری زندگی تبدیل کردی۔مجھے زندگی سے کوئی شکایت نہیں۔یہ تو خدا کاانعام ہے۔ہمارے بوڑھے لوگ،زندگی کو شکایت، دکھ،تکلیف اورعذاب میں بدل دیتے ہیں۔اولادانکے اگلے جہان جانے کی دعائیں مانگناشروع کردیتی ہے۔ مگروہ بوڑھے مرد اورخواتین اپنی زندگی کوتبدیل نہیں کرتے۔اسلیے کہ انھیں علم ہی نہیں ہوتاکہ بڑھاپے کوبھی شاندارطریقے سے گزاراجاسکتاہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں