بچہ قوم کا باپ۔اور قوم کون
اگر ہم سچ بولیں تو علم ودانش،فلسفوں اور نفسیات کی دکانیں سب کی سب جعلی مال بیچتی ہیں۔
پچھلے کسی کالم میں بچوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق فیشن ایبل دانش، فلسفوں اور علوم پر بات ہوئی تھی جو تھوڑی سی ادھوری رہ گئی بلکہ بہت ہی ادھوری کہیے۔کیونکہ اس وقت ہمارا دھیان ایک بہت ہی بیسٹ سیلر قول زریں کی طرف نہیں گیاتھا جس کے زریں ہونے بلکہ گوہریں جوہرین ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ انگریزی سے درآمد کردہ امپورٹڈ قول زریں ہے۔''دی چائلڈ ازدی فادر آف نیشن''یعنی بچہ قوم کا باپ ہوتاہے۔اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنا ایک ہوم میڈ قول خاکین بھی یاد آگیا جو ایک پشتو ٹپہ ہے۔
دپلار زانگو می زانگولہ
ناساپہ غگ شو چہ نیکہ دے پیدا شونہ
یعنی میں اپنے باب کا جھولا یا پالنا جھلارہاتھا کہ اتنے میں خبر آئی کہ خیر سے تمہارا دادا بھی''تولد'' ہوگیاہے۔اب کیوں،کیسے اور کہاں؟میں مت الجھیے۔ صرف یہ دیکھ کر لطف اٹھایئے کہ بچہ قوم کاباپ ہوتاہے اور پوتا جمع بیٹا اپنے باپ کا پالنا جھلاتاہے اور اسے دادا کی پیدائش کی خوش خبری ملتی ہے۔ یہ کچھ ویسا ہی معاملہ ہے کہ ساس بھی کبھی بہوتھی۔لیکن اس مغربی امپورٹڈ قول گولڈن اینڈ ڈائمنڈ میں ہمیں کچھ ادھورا لگتاہے، پہلے اسے پوری کردیتے ہیں۔بچہ قوم کا باپ ہوتاہے اور قوم بچے کی ماں ہوتی ہے، بات اگر نہیں جم رہی ہے تو نہ جمے ہمیں تو اس فیشن ایبل دانش،فلسفے اور نفسیات کی گردن توڑنا ہے۔ آپ سمجھ رہے ہیں ہم کیا کہناچاہ رہے ہیں۔
چلیے بات تھوڑی سی اور واضح کرتے ہیں، اگر بچہ قوم کا باپ ہے تو یہ کسی گملے یاکھیت میں سے تو نہیں اگا ہے یا چلئیے گملے یا کھیت میں سے اگا ہے تو اس گملے یا کھیت یا مٹی کی تاثیر تو اس میں لازمی طور پر آئے گی۔قوم کی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ مٹی کی تاثیر تو ایک ثابت شدہ حقیقت ہے، آب وہوا بھی ساتھ کرلیجیے۔ آخرافغانستان قندھار کا انار اور ترکستان کا خربوزہ یہاں کیوں نہیں پیدا ہوتا ہے۔ کھجوریں، زیتون اور انجیر ویسے ہی پاکستان میں کیوں پیدا نہیں ہوتے، ہندوستان کے مصالحے اور کا جو وغیرہ افغانستان میں کیوں نہیں ہوتے؟۔
ہمارے خیبرپختون خوا میں چارسدہ اور پشاور کے درمیان ایک علاقہ ہے جہاں کا گڑ نہایت ہی اعلیٰ درجے کا ہوتاہے، منڈی میں آتاہے تو ہاتھوں ہاتھ اور اونچی قیمت پرفوراً بک جاتاہے۔اس علاقے کے گڑ میں نہ تو کچھ خاص ڈالا جاتاہے نہ کسی اور طریقے سے بنتاہے، لوگوں نے آخرکار کھوج لگایا کہ یہ اس خاص قسم کی مٹی کی تاثیرہے۔جو کمہاروں کی مٹی کی طرح ریت یا کسی اور آمیزش سے پاک ہے۔ویسے لگے ہاتھوں یہ بھی سن لیجیے کہ لفظ آدم کے ایک معنی لغت عرب میں ایسی ہی مٹی کے بھی ہوتے ہیں۔جو ہر آمیزش سے پاک خالص مٹی ہو۔
پشتومیں اسے ''مٹہ''کہتے ہیں۔اب مٹی کی تاثیر، خون، ڈی این اے اور والدین کا اثر تو بچے میں لازماً ہوگا،اور وہ جس قوم کا بھی باپ بنے گا وہ ویسی ہوگی جیسے اس کی اپنی مٹی ہوگی۔آپ کسی کریلے اور کیکٹس کی آبیاری شہد سے بھی کریں، شربت اور دودھ میں بھی نہلایں لیکن پھل وہ ''اپنا''دے گا۔یہ طرح طرح کے ماڈل اسکول ، صحابہ اور مقدس بزرگوں کے نام کی درسگاہیں یہ سسٹم آف فلاں ایجوکیشن اور فلاں ایجوکیشن یہ اقوال زرین وگوہرین اور فیشن ایبل علم ودانش،کیا قوم کے اس ''باپ'' کو وہ بننے سے روک سکتے ہیں جو وہ ہے، اس کے والدین ہیں اس کا ماحول ہے، اس کا ملک اورنظام ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ کسی میں کتنے ہی ''گن'' کیوں نہ ہوں لیکن ''ماں'' کے گن اس میں ضرور ہوں گے۔ہمارا بچہ بے شک قوم کاباپ بنے گا۔لیکن تب جب بڑا ہوگا اور بڑا کہاں ہوگا، کس گود میں اور کس ماحول میں؟۔اس کے خون میں کیا کیا ''شامل''ہے، ڈی ایناے میں کیاہے اور کس آب وہوا میں سانس لے رہاہے۔آپ پاکستان میں صرف پاکستانی بچہ ہی پیدا کرسکتے ہیں۔ امریکی، چینی، جاپانی یاعرب وایرانی نہیں۔اور پھر وہ اپنے جیسی قوم کاباپ بھی بنے گا۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے یا تو یہ فیشن ایبل دانا دانشور پاگل ہیں یا انتہادرجے کے جھوٹے ہیں۔کہ وہاں ''وہ'' بننا چاہتے ہیں یابنانے کی منافقت کرتے ہیں جو ''وہاں'' بن نہیں سکتا۔آپ مٹی سے ''توپ'' بناسکتے ہیں ؟
لکڑی کا انجن بنا سکتے ہیں، کاغذ سے بندوق یا تلوار یا جہاز(اصلی) بناسکتے ہیں، پانی سے پتھر اور پتھر سے پانی بناسکتے ہیں ،گڑ سے کریلا اور کریلے سے گڑبناسکتے ہیں؟ بلکہ ہمارا تجربہ تو یہ ہے کہ آپ''آدمی سے آدمی'' بھی نہیں بناسکتے ہیں ورنہ یہ حال نہ ہوتا۔بچہ جب دیکھتاہے کہ اس کے والدین یہ یہ کچھ کھاتے پیتے پہنتے اوڑھتے ہیں، ایسے ایسے چلتے ہیں اور ایسا ایسا بولتے ہیں تو وہ بھی وہی کرے گا۔
جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کے ماں باپ حرام کھاتے ہیں تو وہ بھی کھائے گا۔وہ جب باہر نکلتاہے اور طرح طرح کی دکانوں میں ''بکتا'ُ'ہوا مال دیکھے گا، نمازیں، تسابیح ،حج، داڑھیاں بکتے ہوئے دیکھے گا، ڈاکٹروں طبیبوں اور مسیحاوں کو بے تحاشا قتل وقتال کرتے دیکھے گا،چینی جاپانی اور امریکی چیزوں پر مکہ مدینے کی مہریں لگتے ہوئے دیکھے گا۔تو کیاوہ پاگل ہے جویہ سب سیکھ کر کچھ اور سیکھے۔اور آسان کمائی چھوڑ کر خون پسینہ بہائے۔اور علم کا تو کہنا ہی کیا کہ کس کس رنگ، کس کس پیک اور کس ٹریڈ نام سے بک رہا ہے۔تو کیاوہ اپنا ''علم''بیچے گانھیں۔
بچہ یقیناً باپ بنے گا لیکن اپنے جیسی قوم کا۔کیونکہ وہ خود بھی تو کسی قوم کسی درخت اور کسی کھیت کابچہ تھا اور ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج ہم یہ کیابکواس کرنے لگے ہیں تو وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم نے اب جھوٹ بولنا چھوڑدیاہے۔ کسی نیک خیال یا ارادے سے نہیں بلکہ اس مارکیٹ میں اب اتنے بڑے بڑے جھوٹ آگئے ہیں جن کے مقابلے میں ہم بولنے لگے ہیں، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم کسی بڑے اسٹور کے سامنے اسی سامان کی چھابڑی لگائے ہوئے ہیں یاکسی عظیم الشان ہوٹل کے آگے ''چھولے'' بیچ رہے ہوں تو پھر اچھا ہے کہ اپنی چھابڑی لپیٹ ہی لیں اور اسے زیادہ بہتر یہ ہے کہ ''سچ''ہی بولا جائے۔بکے یا نہ بکے۔وہ اور بات ہے لیکن سامان تو نیاہوگا۔
چنانچہ اگر ہم سچ بولیں تو علم ودانش،فلسفوں اور نفسیات کی دکانیں سب کی سب جعلی مال بیچتی ہیں۔بلکہ احمق بھی ہیں کہ پاکستان میں کسی اور جگہ کے بچے پیداکرنا چاہتے ہیں ''چائلڈازدی فادر آف نیشن''ظالموں نے معصوم بچے کو بھی نہیں چھوڑا۔ وہ دینی، سیاسی، اخلاقی اورخدمت کی خرید وفروخت تو جاری تھی، بچارے بچے کو بھی بیچ ڈالا اور بیچ رہے ہیں۔گدھے کو ضرورت کے لیے باپ بنانے کاسناتھا، معصوم بچے کوباپ بلکہ قوم کاباپ بناتے بھی دیکھ لیا اور باپ بھی کس کا؟
نہ پوچھ نسخہ مرہم جراحت دل کا
کہ اس میں ''ریزہ الماس''جزو اعظم ہے