باتوں کا بتنگڑ عرف تجزیہ
’’تجزیہ‘‘ یا بتنگڑ بنانے کے سلسلے میں ’’عمر‘‘ کو خرچ کرنا اتنی بڑی بات نہیں بلکہ بڑی بات ’’تجربہ‘‘ حاصل کرنا ہے
یوں تو خدا کے فضل و کرم، امریکا کے دم قدم، آئی ایم ایف کے دام و درہم اور لیڈروں کے ہنگام سے پاکستان کی بہت ساری چیزیں اور صنعتیں خاص ہیں، مشہور عوام الناس ہیں اور دنیا بھر کو راس ہیں۔ مثلاً اُلو کے پٹھے بلکہ بالغ اُلو بنانے کی صنعت، کمیٹیاں قائم کرنے کی صنعت، میٹنگ میٹنگ کھیلنے کی صنعت، بیاں جاری کرنے کی صنعت اور بہت ساری اور صنعتیں بلکہ حرفتیں بھی لیکن باتیں بنانے کی صنعت میں جس طرح پاکستانیوں کو ید طولیٰ بلکہ زبان طولیٰ حاصل ہے، اتنا جاپانیوں کو گڑیاں بنانے، سوئیس کو گھڑیاں بنانے اور عربوں کو حرم بنانے میں بھی حاصل نہیں ہے۔
اس بات پر باتیں ہم پہلے کر چکے ہیں کہ ہم بھی پاکستانی اور کسی میں ہزار برائیاں اور ہوں ایک خوبی ''ماں'' کی ضرور ہوتی ہے۔ لیکن ایک مرتبہ پھر باتوں پر باتیں کرنے کی بات اس لیے آ گئی ہے کہ بات اب باتوں سے گزر کر بتنگڑ بنانے کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، گویا ہم اپ گریڈ یا سپر سپر کے مرحلے کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔
الحمدﷲ۔ ایں سعادت بہ زور بازو نیست۔ بلکہ بزور زباں است۔ یقینا آپ ان ''بتنگڑوں''کے بارے میں نہیں جانتے ہوں گے کیوںکہ جتنا آپ کو اپنی ''سمجھ '' پر بھروسہ ہے اتنا ہی ہمیں بھی آپ کی سمجھ پر ''بھروسہ''ہے کیوںکہ ان ''بتنگڑوں'' کا ایک دوسرا نام بہت زیادہ مشہور ہے بلکہ یوں کہیے کہ اس کا کمرشل نام زیادہ رسوائے عالم ہے اور وہ ہے ''تجزیہ''۔ یہ کوئی ایسی ویسی پراڈکٹ نہیں ہے کہ ہر کوئی اسے بنانے بیٹھ جائے بلکہ اس کی مہارت حاصل کرنے میں ''عمر'' کا ایک بڑا حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن عمر خرچ کرنا تو کوئی خاص بات نہیں ہے وہ تو ہر کوئی حتیٰ کہ شوہر لوگ بھی خرچ کر سکتے ہیں اور کوئی کرے یا نہ کرے ''عمر'' میں خود اتنی صلاحیت ہے کہ خود بخود خرچ ہوتی رہتی ہے، رحمان بابا نے بھی اس پر حسرت کا اظہار کیا ہے کہ میں نہ کہیں جاتا ہوں نہ آتا ہوں لیکن بغیر سفر کے بھی میری زندگی کا سفر کٹتا جا رہا ہے۔
چنانچہ ''تجزیہ'' یا بتنگڑ بنانے کے سلسلے میں ''عمر'' کو خرچ کرنا اتنی بڑی بات نہیں بلکہ بڑی بات ''تجربہ'' حاصل کرنا ہے اور یہ تجربہ ہی ہے جو ''میچور'' ہونے پر ''تجزیہ'' کہلاتا ہے، ظاہر ہے کہ تجربے کے لیے ایک تجربہ گاہ بھی ضروری ہے اور وہ ''سرکاری نوکری''سے زیادہ اچھی اور کیا ہو سکتی ہے جس میں تجربے کے لیے کیڑے مکوڑے، مینڈک اور چوہے بے حساب دستیاب ہوتے ہیں ۔ سو عمر کا ایک خاص حصہ اس تجربہ گاہ میں تجرباتی آئٹموں کی چیر پھاڑ کے بعد ''تجزیہ'' کرنا آتا ہے۔ اور ان لوگوں کو تجزیہ کار یا نگار کہا جاتا ہے جو قطرے میں دجلہ اور جزو میں کلُ ڈال کر ایک اینٹ پر تاج محل،لال قلعہ یا قطب مینار یہاں تک کہ نیا پاکستان بھی تعمیر کر دیتے ہیں۔
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کلُ
کھیل لڑکوں کا ہوا یہ تو ''تجزیا'' نہ ہوا
ایسے ہی ''ماہرین'' میں ہمارے قہر خداوندی چشم گل چشم عرف سوائن فلو بھی ہے۔ اور ڈاکٹر امرود مردود بھی۔ قہر خداوندی نے جب گاؤں میں سب سے پہلے قائم ہونے والا پرائیویٹ اسکول جوائن کیا تو اس کی تعلیم صبح آٹھ بجے سے دوپہر کے بارہ بجے تک تھی کہ آٹھ بجے اس کا باپ اسے اسکول میں چھوڑ گیا اور بارہ بجے اسکول کے استاد نے چار لڑکوں کا پروٹوکول دے کر ''ڈانڈا ڈولی''کی شکل میں واپس گھر پہنچا دیا کہ اسے تعلیم دلانے کے لیے کم از کم تیس اساتذہ کی ضرورت ہے جو اسکول کو میسر نہیں ہیں۔
لیکن پرائیویٹ اسکول والوں کو بے مہار بچوں کو سنبھالنے کے لیے جب اس کی خدمات حاصل کیں تو اس کا شمار بھی ٹیچروں میں ہو گیا۔ بارہ سال مختلف پرائیویٹ اسکولوں میں یہی کام کرتے کرتے اس نے سوچا کہ کوئی مشکل کام تو ہے نہیں بچوں کو بگاڑنا بلکہ بگڑے ہووں کو مزید بگاڑنا ہی تو ہے جو بڑھتے بڑھتے ''گروپ'' آف اسکولز میں تبدیل ہو گیا اور قہرخداوندی کو ''ماہر تعلیم'' کا رتبہ مل گیا۔ چنانچہ آج کل وہ چینل ''ہیاں سے ہواں تک''کا مستقل ''تجزیہ کار''ہے۔
ایسا ہی ڈاکٹر امرود کا قصہ ہے جو ایک بڑے اسپتال کے گیٹ پر امرود بیچتے بیچتے ڈاکٹر ہو گیا ہے اور آج گاؤں میں ایک پوری گروپ آف کمپنیز کا مالک ہے، اس کی دکان کے اردگرد اس نے اپنے بھائیوں کے لیے بھی دکانیں کھلوا دی ہیں، ایک بھائی امرود بیچتا ہے جو ڈاکٹر امرود مردود ہر مریض کو تجویز کرتا ہے، دوسرا بھائی تجہیز و تکفین کی دکان اور تیسرا تابوتوں اور تیار قبروں کا ڈیلر ہے۔ اس اعتبار سے وہ تمام سرکاری اور غیر سرکاری ''ماہرین''تجزیہ کار بننے کے اہل بن جاتے ہیں جو اپنے محکمے یا ادارے یا کمپنی میں ''تجربات''کے حامل ہوتے ہیں۔
اور طرح طرح کے تجزیے کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں اخبار کے ایک کالم میں ایک تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ اگر چندے کا دھندہ پھیلا کر ہر شعبہ زندگی تک پھیلایا جائے تو پاکستان صرف ایک دو صدیوں میں اپنے ''پیروں'' پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس ماہر تجزیہ نگار نے بوند بوند دریا کی مثال دیتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کے ہر مسئلے کا حل صرف اور صرف ''چندے'' میں ہے، بس تھوڑا سا عوام کو نچوڑنے، توڑنے، دوہنے اور ککھوڑنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ اس نے تو اعداد و شمار دے کر ثابت کیا ہے کہ اگر چندے کے دھندے کو صحیح طریقے پر چلایا گیا تو پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بجائے قرضہ دینے والا بھی بن سکتا ہے۔