رویت ہلال کا مسئلہ اور اُس کا حل

ہماری مشکل یہ ہے کہ اِن دونوں طبقات کی حوصلہ افزائی کرنے اور پیٹھ تھپکنے والے بھی ہمارے یہاں کچھ کم نہیں ہیں۔


Dr Mansoor Norani May 15, 2019
[email protected]

GENEVA: رمضان اور شوال کے چاند کی رویت کا مسئلہ کوئی حالیہ سالوں کا پیدا کردہ نہیں ہے یہ پچاس ساٹھ سال سے ہمارے یہاں اِن مبارک موقعوں پر سامنے آتا رہا ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان کرہ ارض کے ایسے حصہ پر موجود ہے جہاں دو مختلف تاریخوں پر چاند کے دیکھے جانے سے قطعی طور پر انکار کیا جاسکتا۔ سب سے پہلے 1958ء میں یہ مسئلہ ابھر کر سامنے آیا جب پاکستان کے شمالی علاقوں میں باقی پاکستان سے ایک روز قبل عید منائی گئی۔ پھر یہ تقریباً ہرسال ہونے لگا۔

جنرل ایوب خان نے اِس مسئلہ کو سرکاری سطح پر حل کرنے کی بہت کوششیں کی۔اُس زمانے میں چونکہ ملک کے اندر کوئی رویت ہلال کمیٹی موجود نہیں تھی لہذا حکومت اپنے طور پرچاند کی رویت کا سرکاری اعلان کردیا کرتی تھی۔اِس مقصد کے لیے ہوائی جہازوں کا بھی استعمال کیا جانے لگا، مگر رفتہ رفتہ سیاسی مخالفت کی وجہ سے حکومتی اعلان کی مخالفت زور پکڑنے لگی اور یہ خیال کیا جانے لگا کہ حکمراں جمعہ کی عید سے بچنے کے لیے چاند کی حقیقی رویت میں ردوبدل کردیاکرتے ہیں ۔ اُس زمانے میں جمعہ کی عید کو حکومت وقت کے لیے اچھا تصورنہیں کیا جاتا تھا۔

مارچ 1961ء میں پہلی بار مولانا احتشام الحق کی قیادت میں کراچی کے لوگوں نے وفاقی حکومت کے فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے 18مارچ کو عید منانے سے انکارکیا اور اُس دن روزہ بھی رکھا، جب کہ پشاورکے لوگوں نے تو اُس سے بھی ایک روز قبل یعنی 17مارچ کو عید منا ڈالی۔ اِس طرح 1961ء وہ پہلا سال تھا جب دنیا کے ایک ملک یعنی ہمارے وطن پاکستان میں تین تین عیدالفطر منائی گئیں ۔ یہ مسئلہ دن بدن شدت اختیارکرتا گیا اور ایک موقعے پر ایوب خان نے حکومتی فیصلے سے انکارکرنے پر تین بڑے جید علماء جناب سید ابوالاعلی مودودی ، مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا حسین نعیمی کوگرفتار کرکے تین تین ماہ کے لیے جیل بھی بھیج دیا ۔

پھر ایوب خان کے زوال کے بعد بھٹو حکومت نے 1974ء میں اِس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے قومی اسمبلی سے ایک قانون پاس کروا کے حکومتی سطح پر ایک رویت ہلال کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جو ایک مرکزی اور چار زونل کمیٹیوں پر مبنی تھی اور جو آج تک قائم ہے۔ حکومتی پیسوں پربنائی گئیں یہ کمیٹیاں بھی چاند کی رویت کے اختلاف کوہمارے یہاں ختم نہیں کر پائیں اور اِس ضمن میں کوئی خاطر خواہ کارگر ثابت نہیں ہوئیں ۔ اب مسئلہ سیاست سے زیادہ مذہبی اورعلاقائی بن چکا ہے۔

مرکزی کمیٹی کے سربراہ کا تعلق بریلوی مکتبہ فکر سے ہے جبکی پشاورمیں قائم زونل کمیٹی میں زیادہ تر لوگ دیوبندی فرقہ سے جڑے ہوئے ہیں۔اِس طرح دونوں ایک دوسرے کے فیصلے کو نہیں مانتے۔ ہمارے یہاں محکمہ موسمیات اور محکمہ فلکیات نے بھی اپنے طور پر سائنسی مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں چاند کی رویت سے متعلق معلومات گاہے بگاہے فراہم کرکے اِس مسئلہ کو حتی المقدور حل کرنے کی کوشش بھی کی جوسب کی سب رائیگاں ثابت ہوئیں۔

مفتی منیب الرحمن کی قیادت میں قائم مرکزی رویت ہلال کمیٹی ویسے تو سائنس کے جدید طریقوں کو مذہبی طریقہ کار پر ترجیح دینے کی سخت مخالف ہے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ اُس کے زیادہ تر فیصلے ہمارے محکمہ فلکیات کی پہلے سے فراہم کردہ معلومات کے عین مطابق ہی ہواکرتے ہیں۔لیکن قاسم علی مسجد پشاور میں مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی قیادت میں قائم رویت ہلال کمیٹی کسی ایسی معلومات پر یقین نہیں رکھتی اوردیکھا یہ گیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے سعودی عرب میں دیکھے جانے والے چاند کی روشنی میں کرتی ہے۔

سعودی عرب میں جس روز چاند دکھائی دیدے مفتی شہاب الدین اُسی روز پشاور میں بھی چاند کا اعلان کر دیا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 29 ویں کے چاند کی رویت کا فیصلہ وہ اکثر تاخیر سے یعنی تقریباً 9بجے کے بعد کیاکرتے ہیں ۔ کیونکہ سعودی عرب میں مغرب ہمارے وقت سے دوگھنٹے بعد میں ہوتی ہے اور چاند کی رویت کا اعلان ہوتے ہوتے ہمارے یہاں ساڑھے نو بج چکے ہوتے ہیں۔ مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ مستند شہادتیں ملتے ملتے دیر ہوجاتی ہے اور جب ہم رویت کا اعلان کرتے ہیں تو مرکزی کمیٹی اپنا فیصلہ صادر کرچکی ہوتی ہے ۔وہ ہماری شہادتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی اوربادی النظر میں یہی اختلاف کی ایک بڑی وجہ ہے۔

اب ہماری اِس نئی حکومت کے ایک وزیر فواد چوہدری نے اِس مسئلہ کا حل تلاش کرتے ہوئے سائنسی کیلنڈر لانے کی بات کی ہے جو شاید اتنی غلط بھی نہیں ہے۔ مگر مفتی منیب الرحمن اور بہت سے مذہبی رہنماؤں کی نظر میں چاند کا ذاتی طور پر دیکھاجانا اسلامی اصولوں اورطریقہ کار کے مطابق ایک ضروری امر ہے۔ خود سعودی عرب میں ایک اسلامی کیلنڈر رائج ہے جوسائنس کے مجوزہ طریقہ پر ہی مبنی ہے اور جو سارا سال نافذالعمل بھی رہتا ہے۔ اِسی کے مطابق سعودی عرب میں مہینوں اور نمازوں کے ا وقات کا تعین کیاجاتا ہے۔

ہاں البتہ رمضان اور شوال کے چاند کے لیے اُس کی رویت کاخیال بھی بہت رکھاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھار اِس سائنٹفک کیلنڈر اور رمضان اور شوال کی تاریخوں میں کچھ فرق ہو جاتا ہے جو آگے چل کر پھر یکساں ہو جاتا ہے۔ہم بھی چاہیں تو اپنے یہاں اِسی طریقہ کار کو اپنا سکتے ہیں۔اِس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ویسے بھی ہماری مسجدوں میں پانچوں وقت کی نمازوں کے علاوہ اشراق ، چاشت اور زوال کے اوقات کا تعین اگر دیکھاجائے تو اِسی سائنسی اُصول کے عین مطابق ہے۔

ہمارے مؤذن حضرات سارا سال اِسی کیلنڈر کے مطابق نمازوں اور اُس کی اذانوںکے اوقات تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ یہ کیلنڈر کی خوبی یہ ہے کہ یہ صرف چند سالوں کے لیے نہیں بلکہ سیکڑوں اورہزاروں سالوں کے لیے بھی ایک ساتھ بنایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے گئے نظام کائنات کی خوبی بھی یہی ہے کہ اِس میں موجود سارے سیارے اپنے اپنے مدار میں اپنی ایک متعین کردہ رفتار سے ہمیشہ گھومتے رہتے ہیں۔ یہ کبھی آگے پیچھے نہیں ہوتے ۔اگر ایسا ہوتو سارا نظام ہی تتر بتر ہو جائے۔

لہذا اِن کی معلومات کی روشنی میں اسلامک یا سائنٹفک کیلنڈر بنانا کوئی غیر اسلامی فعل نہیں ہوگا۔ ہاں البتہ مذہبی ضرورت کے تحت رمضان اورشوال کے چاندوں کی رویت کو سعودی طریقہ کارکے مطابق ذاتی طور پرآنکھوں سے مشاہدہ بہرحال ضروری قرار دیاجاسکتاہے۔ لیکن جس طرح جغرافیائی فرق کی وجہ سے ہم اپنے یہاں کی نمازوں کے اوقات سعودی نظام کے ساتھ جوڑ نہیں سکتے اِسی طرح اسلامی مہینوں کی تاریخوں کو بھی ایک ساتھ جوڑ نہیں سکتے۔ یہ فرق ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔اِس لیے اِس خیال کو اپنے ذہن سے نکال دیا جائے کہ ساری اسلامی دنیا میں ایک ساتھ عیدمنائی جاسکتی ہے۔ یہ کسی طور ممکن نہیں ہے۔ جب نمازیں ایک ساتھ ایک وقت میں نہیں ہوسکتیں تو پھر عید بھی ایک ساتھ نہیں ہوسکتی۔

فواد چوہدری نے ویسے تو ایک صائب مشورہ دیا ہے لیکن ہمارے یہاں کے سیاسی، علاقائی ، مذہبی اورفروعی اختلافات کی وجہ سے اُن کایہ اقدام شاید کامیاب نہ ہو پائے۔ ہمیں اُن کے سائنٹفک کیلنڈر سے انکار نہیں لیکن اُس کے مطابق رویت ہلال کا مسئلہ وہ پھر بھی حل نہیں کر پائیں گے۔ جب تک پشاور میں بیٹھے مفتی شہاب الدین اور اُن کے خیالات سے متفق افراد اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے درمیان کوئی صلح نہیں ہوجاتی یہ مسئلہ حل نہیں ہو پائے گا۔

ہماری مشکل یہ ہے کہ اِن دونوں طبقات کی حوصلہ افزائی کرنے اور پیٹھ تھپکنے والے بھی ہمارے یہاں کچھ کم نہیں ہیں۔ وہ اِن دونوں کے درمیان کبھی صلح ہونے ہی نہیں دینگے۔ ویسے بھی خود اِن کے درمیان نظریات اور اختلاف اورمنافرت کی اتنی بڑی خلیج حائل ہے کہ وہ شاید ہی کبھی مل بیٹھ کر اِس مسئلہ کو حل کر پائیں۔ ایسا لگتا ہے یہ مسئلہ اور تنازع یونہی چلتا رہے گا اور کبھی حل نہیں ہوپائے گا اور قوم اِن کے اختلافات کی سزا دو عیدوں کی صورت میں ہمیشہ بھگتتی رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں