ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
پاکستان میں ایڈز کے حوالے سے حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں جو ایک اسلامی مملکت کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں۔
آج دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی بیماریوں میں ایڈز سرفہرست ہے۔ یہ ایک خطرناک مرض ہے، جو لاعلمی کے باعث انسان کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔
رب العزت کی جانب سے انسانی خون میں مدافعتی نظام موجود ہے جو خون میں شامل ہونے والی بیماریوں کے جراثیم سے جنگ کرتا ہے یہ خاص قسم کے ذرات ہوتے ہیں جن کی خون میں ایک خاص مقدار شامل ہوتی ہے یہ ذرات ان خطرناک بیماریوں جن میں کینسر جیسے مہلک امراض بھی شامل ہیں ، پوری جدوجہد کے ساتھ اسے انسانی جسم سے نکالتے ہیں ، قدرتی طور پر مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ایڈز ایسا خطرناک انفیکشن ہے جس کی وجہ وہ وائرس ہیں جو دراصل ان قیمتی اور حفاظتی خلیات پر وارد ہوکر انھیں تباہ کرتے ہیں اور اس طرح جسم کا وہ قدرتی مدافعتی نظام تباہ ہوجاتا ہے جسے کئی بار انسان اپنے رب کی ناپسندیدہ حرکات کے باعث برباد کردیتا ہے۔
ایچ آئی وی پازیٹیو سے مراد ہوتی ہے کہ مذکورہ شخص میں ایڈز ہونے کے امکانات ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ جس شخص میں یہ ٹیسٹ مثبت آئے اسے ایڈز ہی ہوجائے دراصل ایڈز ایک ایسا انفیکشن ہے جو ایچ آئی وی کی آخری اسٹیج ہے۔ گو ابھی تک کی تحقیق کے مطابق اس بیماری کو ختم کرنے کی کوئی دوا ایجاد نہیں ہوئی ہے لیکن پھر بھی ایسی ادویات موجود ہیں جو ایچ آئی وی کے مریضوں کے لیے کارگر ثابت ہوئی ہیں، جسے استعمال کرنے سے اس مرض کے پھیلنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں اور مریض زیادہ لمبے عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس مرض سے شفایاب ہوا جاسکتا ہے۔ علاج نہ کرانے کی صورت میں ایچ آئی وی پوزیٹیو کے مریض ایڈز کا شکار ہوجاتے ہیں جو اس مرض کی آخری اسٹیج ہے۔ لیکن اس کے علاج کی صورت میں ادویات کے علاوہ احتیاط اور نفسیاتی طور پر مریض کی دیکھ بھال ضروری ہے۔
یہ مرض خون کی منتقلی سرنجوں کا استعمال، ماں سے بچے میں منتقلی کے باعث سرائیت کرتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2015 کے اختتام تک 1,122,900 لوگوں میں ایچ آئی وی مثبت پایا گیا تھا جبکہ 2016 میں ڈاکٹرز نے 18,160 لوگوں میں ایڈز کے مرض کی تشخیص کی تھی۔
پاکستان میں ایڈز کے حوالے سے حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں جو ایک اسلامی مملکت کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں، قدرتی انداز اور اخلاقیات اسلامی طرز زندگی میں انسانوں کو ایک صحت مند معاشرے کی جانب گامزن کرتے ہیں لیکن اس کے برخلاف گویا فطرت کے اصولوں کے خلاف انسان کو شرمناک عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں کم علمیت کے باعث ایک شخص اس مرض کا شکار بن کر پورے خاندان کو متاثر کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے کی صحت کے حوالے سے جو رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس کے مطابق ملک بھر میں اس مرض سے متاثرہ افراد کی خاصی تعداد ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 1,32000 ہزار لوگوں میں اس مرض کی تشخیص کی گئی ہے، جس کے مطابق ساٹھ ہزار پنجاب میں، باون ہزار سندھ میں اور سترہ ہزار کے پی کے اور اسلام آباد میں شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہر تین منٹ بعد پندرہ سے انیس سال کی عمر کی لڑکیاں اس مرض کا شکار بن رہی ہیں جبکہ 2010 سے 1.2 ملین جن میں تمام عمروں کے لوگ شامل ہیں۔ اس مرض سے متعلق اموات کا شکار بنے، سندھ کی صورتحال جو حالیہ چند دنوں میں سامنے آئی ہے خاصی توجہ طلب ہے، سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت 4700 لوگوں کے اسکریننگ ٹیسٹ کے بعد جو نتائج سامنے آئے ، ان کے مطابق ایک سو پچاس سے ایک سو ستاون بچوں میں ایچ آئی وی پوزیٹیو پایا گیا۔
اس مہم کے ذریعے لاڑکانہ اور اس سے ملحق رتو ڈیرو، اللہ ڈنو سلیرو، تھنڈ بزدار اور اس سے ملحق گاؤں میں کیمپ لگائے گئے جہاں لوگوں سے ان کے خون کے نمونے حاصل کیے گئے۔ لیبارٹری میں خون کے ٹیسٹ کے بعد اس بات کے انکشاف نے اس امر کو ناگزیر بنا دیا جس کے تحت لوگوں میں اس مرض سے متعلق ضروری معلومات، جس میں اس مرض کی منتقلی کے اسباب، روک تھام اور ہدایات شامل ہونی ضروری ہے۔
امید ہے کہ حکومت اس سلسلے میں جلد ہی ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کرے گی تاکہ معصوم لوگوں کو اس شرمناک بیماری کے بارے میں آگاہی حاصل ہو، جو دنیا و آخرت میں بدنامی کا باعث بنے، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح تھر اور اس سے ملحق علاقوں میں معصوم بچے غذائی قلت کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں یہ سلسلہ ہنوز برقرار ہے اور اسی وجہ سے وہاں بہت سی ایسی بظاہر خدمت گار انجمنیں لوگوں کی مدد کر رہی ہیں لیکن درحقیقت یہ خدمت گار کسی اور ہی پیروکار کے فروغ میں شامل عمل ہیں رمضان المبارک کے اس بابرکت مہینے میں ذرا تحمل اور توجہ سے سوچیے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کو تباہی کے کس دہانے پر ڈال رہے ہیں ،کیا اس کے ذمے داروں میں آخرت میں ہم سے نہیں سوال کیا جائے گا؟