سیاسی ہیجان ہمیشہ خطرناک ثابت ہوا ہے
پی ٹی آئی کی حکومت نے بالکل غلطیاں کی ہیں۔ غلطیاں کرکے ہی انسان اپنے آپکی تصیحح کرسکتا ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹوسے قدآورلیڈر قومی سیاست میں پہلے آیااورنہ بعدمیں آسکا۔بھٹوپاکستان کو لبرل، پروگریسیو اورطاقتورملک بنانے کی جدوجہدکررہاتھا۔دیکھاجائے تو تمام مسلمان رہنماؤں کے لیے اُستادکی حیثیت رکھتا تھا۔ بھٹو کے خیالات مہذب اورجدیددنیاکے عین مطابق تھے۔
ملک میں ناقابل یقین حدتک نئی قانون سازی کی۔چھوٹے اور بڑے ادارے بنائے۔مغربی پاکستان کوایک ملک بنانے کی سرتوڑکوشش کی۔نوے ہزارقیدی انڈیاسے واپس لے کر آیا جو کہ ایک تاریخی کارنامہ ہے۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مغربی پاکستان کاکافی علاقہ،ہندوستانی فوج کے قبضہ میں تھا۔اس پورے علاقے کوبھٹومذاکرات کے ذریعے واگزار کروالایا۔ساتھ ساتھ آج کے پاکستان کی حفاظت کے ضامن، ایٹم بم کی بنیادبھی اسی نے رکھی۔دوسراپہلوبھی درست ہے کہ بھٹوکے ذاتی طرزِعمل نے اس کے حددرجہ مضبوط دشمن بنا ڈالے جوآخری دم تک پیچھاکرتے رہے۔
یہ تمہیداس لیے ضروری ہے کہ بھٹواسٹیٹس کوکا لیڈرنہیں تھا۔1977کاالیکشن میرٹ پرجیت چکاتھا۔مگراس کے مسلمہ نتائج کوانتہائی عیار طریقے سے متنازع بنادیاگیا۔قومی اتحادنے ملک میں حددرجہ جذباتی کیفیت پیداکردی۔جاننے والوں کے علم میں تھاکہ بھٹو کوالیکشن میں ہرایانھیں جاسکتا۔
ایک بین الاقوامی سازش کے تحت قومی اتحادکوسرمایہ فراہم کیاگیا۔پیسے دینے میں مقامی تاجربھی شامل تھے۔بڑی طاقتوں کویقین تھاکہ اگربھٹوپانچ سال کے لیے مزیدوزیراعظم بن گیاتوپاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے گا۔ایک عظیم ملک بن جائے گا۔ چنانچہ ''نظام مصطفیٰ''کی آڑ لے کربھٹوکوحکومت سے علیحدہ کردیا گیا۔1977ء کے ہیجان کے نتیجہ میں ملک گرداب کی زد میں آگیااوربے یقینی میں غوطے کھانے لگا۔اس کے بعد جو کچھ ہوااس سے ملک جزوی نہیں مکمل طورپربرباد ہوگیا۔
یہ سب کچھ ہرایک کومعلوم ہے۔کسی کے علم یا معلومات میں اضافہ نہیں کررہا۔مگرمرکزی نکتہ انتہائی اہم ہے۔پاکستان میں کوئی بھی سیاسی عدم استحکام بین الاقوامی طاقتوں کے اشارے اورپلاننگ کے بغیرنہیں ہوتا۔صرف مثال کے طورپرعرض کرونگاکہ1977میں اصغرخان جیسا ایمانداراورمحب الوطن شخص بھی بھٹوکے خلاف بلکہ ملکی استحکام کے خلاف استعمال ہوگیا۔بعدمیں پوری زندگی اصغرخان متعددباراپنی غلطی پرپچھتاتارہا۔مگروقت گزرگیا۔قومی اتحاد نے فضاپیداکی تھی کہ بھٹوچلاگیاتوملک ٹھیک ہوجائیگا۔ بربادی سے بچ جائیگا۔مگران کے تمام دعوے مکمل جھوٹ نکلے۔ملک کی ہرطریقے سے اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔جاننے والے سمجھتے ہیں کہ کیاعرض کررہاہوں۔
دوسری مثال دے کراپنے مرکزی نکتہ کووضاحت سے پیش کرناچاہتاہوں۔چوہدری پرویزالٰہی کی وزارت اعلیٰ، پنجاب کی حقیقی ترقی اورتعمیرکادورتھا۔ پرویزالٰہی سے سیاسی طورپر اختلاف ہوسکتاہے۔مگرپنجاب کودیکھاجائے تواس میں بے مثال ترقی ہوئی تھی۔ریسکیو1122،ٹریفک وارڈن،دیہی سڑکوں کاجال،تمام سرکاری اسپتالوں کی فری ایمرجنسی، مضافاتی پولیس،چوکیاں اوراس کے علاوہ لاتعدادکام اس شخص نے کیے۔ اس کے ساتھ انتہائی ذہین اورکام کرنے والے افسران کی ٹیم موجودتھی۔جس میں سلمان صدیق،نجیب اللہ ملک،سلمان غنی اوردیگرانتہائی قابل افسران شامل تھے۔یہ سب کچھ اپنی طرف سے عرض نہیں کررہا۔آپ ریکارڈچیک کرسکتے ہیں۔ پنجاب صوبے کے محصولات،اخراجات سے بڑھ گئے۔ پنجاب کے استحکام سے ملک میں استحکام بڑھتاہے۔یہ ایک حقیقت ہے۔
بین الاقوامی طاقتوں کویہ استحکام قطعاًپسندنہیں آیا۔انھیں معلوم تھاکہ جب تک جنرل پرویزمشرف اورانکی ٹیم کی کارکردگی کومشکوک نہیں بنایاجاتا،اس وقت تک پاکستان کوخوشحالی پرچلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔آپکویادہوگا،ایک کہرام برپاکردیاگیاکہ جنرل مشرف کووردی اُتاردینی چاہیے۔ صرف یہی نہیں جسٹس افتخارکو معطل کیاگیا۔یہ فیصلہ ہر طریقے سے درست تھا۔مگریہی وہ موقعہ تھاجس نے تمام اپوزیشن کوملک میں مکمل انارکی پھیلانے کاموقعہ دیدیا ۔ حددرجہ قابل عزت وکیل، اعتزاز احسن،جسٹس چوہدری کوبحال کروانے کی تحریک کے سرخیل بن گئے۔ملک میں ایک خاص منصوبہ بندی سے ہرطرف گرداُڑنی شروع ہو گئی ۔ لوگوں کوبتایاگیاکہ اگرملک میں چیف جسٹس افتخارچوہدری بحال ہوجاتاہے توہرشخص کو انصاف مہیا ہوناشروع ہوجائیگا ۔ ملک کے مسائل حل ہوجائینگے۔
لاہورہائیکورٹ کے ایک سابق صدرنے بتایاکہ ہڑتالوں اورجلوسوں کے لیے تمام وسائل ن لیگ مہیاکرتی تھی۔یادرہے کہ آل شریف کے دونوں بھائی،ملک سے باہرتھے۔عدم استحکام کابنیادی نتیجہ کیا نکلا۔افتخارچوہدری دوبارہ، مسند پر براجمان ہوگئے۔انھوں نے چن چن کرذاتی بدلے لیے۔ جزئیات انتہائی تکلیف دہ ہیں۔مگرانصاف نہ پہلے دستیاب تھااورنہ ہی افتحارچوہدری کی بحالی کے بعدمیسر ہوا۔ اعتزاز احسن نے بعدمیں کئی جگہ اپنی اس غلطی پرندامت کا اظہار کیا۔ملک کے ہیجان کودوبارہ کس لیے استعمال کیاگیا۔ نواز شریف اورشہبازشریف کوالیکشن میں کامیابی دلوائی گئی اورتحفہ میں پنجاب کی حکومت آل شریف کے حوالے کردی گئی۔ ایک سیاسی فارمولے کے تحت مرکزمیں زرداری کوخوش کیا گیااوراسی کے تحت آل شریف کو ساٹھ فیصدپاکستان کی بادشاہت دے دی گئی۔
پرویز مشرف کوہٹانے کا مقصد پاکستان میں عدم استحکام کو بڑھا وادیناتھا۔سب کومعلوم ہے کہ پرویزالٰہی نے جس وقت حکومت چھوڑی،پنجاب مالی طورپرخوشحال تھا۔مگرمحترم شہباز شریف نے انتہائی متنازع ترقیاتی منصوبے شروع کرکے پورے صوبہ کادیوالیہ نکال دیا۔سستی روٹی اسکیم،مکینیکل تندوراسکیم،ماہانہ گزارہ اسکیم اور ایسی ایسی حرکات کی گئیں،کہ پوراصوبہ خاک چاٹنے لگا۔ مگر ان لوگوں کوایک چیزپرعبور تھا اور آج بھی ہے۔وہ ہے پروپیگنڈا۔چنانچہ صرف اورصرف پروپیگنڈاکے زور پر، اشتہارات کی مالی طاقت اورطاقتور افراد کوخوشحال کرکے ایسے ثابت کیاگیاکہ پنجاب،واقعی برطانیہ بننے میں کامیاب ہوچکاہے۔
شہبازاسپیڈ ، کاڈھنڈوراپیٹا گیا جس کاکوئی سر پیر نہیں تھا۔ہاں،سرکاری ملازمین کے ایک گروہ کواپنے ساتھ ملایا گیاجنہوں نے بے ضابطگی میں حددرجہ مہارت حاصل کیں۔ اپنی ٹیم کے تمام گناہ شہباز شریف کے بقول نیکیاں تھیں۔ دس برس کے طویل دورانیہ میں جس طرح پنجاب کواُجاڑا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔آج پنجاب مکمل طورپردیوالیہ ہو چکا ہے۔ثابت کرسکتاہوں کہ آل شریف کے قریبی افسروں اور سیاسی رہنماؤں نے دولت کے گنگاجل میں خوب اشنان کیا۔
زرداری صاحب کے دورمیں جومالی بے ضابطگیاں ہوئیں،آج تک ان کامکمل ادراک نہیں ہوسکا۔صرف یہ بتانا چاہ رہاہوں،کہ گزشتہ دس برس میں ہربے ضابطگی،بے اُصولی اورجرم کو مکمل تحفظ دیاگیا۔یہ بات درست ہے کہ سیاسی اکابرین اپنی دولت کاحساب نہیں دے سکتے ۔ اسحاق ڈار صاحب کے بیٹے نے دبئی میں رولزرائس گاڑیاں کرائے پردینی شروع کردیں۔چینی کمپنیاں تمام معاملات دبئی میں مکمل کرتی تھیں اوران کااعلان پاکستان میں کیاجاتا تھا۔ ہر ایک کوبھرپوررقم مل رہی تھی۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ رولزرائس گاڑی کی قیمت کیاہے۔
رولزرائس گاڑی پاکستانی اٹھارہ کروڑروپے مالیت کی ہے۔موصوف کے صاحبزادے کے پاس اس طرح کی قیمتی گاڑیوں کابیڑہ ہے۔کہنے کا مقصدیہ ہے کہ آل شریف اورمحترم زرداری صاحب کویقین تھاکہ ایک تو ان کا اقتدارختم نہیں ہوگا۔دوسراان پرہاتھ ڈالنے کی جرات کوئی نہیں کرسکے گا۔ان کے دونوں اندازے مکمل طورپرغلط نکلے۔ پی ٹی آئی،احتساب کانعرہ لگاکرحکومت میں آگئی۔جیسے ہی ان مضبوط خاندانوں کوادراک ہواکہ پانسہ پلٹ گیاہے اور انھیں گرم ہوالگنی شروع ہوگئی ہے۔
انھوں نے مربوط حکمتِ عملی سے پاکستان میں وہی عدم استحکام پیدا کرنا شروع کر دیا،جو1971میں بھٹوکی حکومت کے خلاف پیداکیا گیا تھا۔ اوروہی ہیجان جوپرویزمشرف اور پرویزالٰہی کے خلاف استعمال ہواتھا۔مجھے تحریک انصاف سے کوئی لینا دینا نہیں۔ عمران خان کوکبھی نہیں ملااورنہ ملناچاہتاہوں۔مگرموجودہ گرد اُڑانے کے پیچھے محرکات صاف نظرآرہے ہیں اوروضاحت سے ہرطرح کے اشارے مل رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ عمران خان کوذاتی طورپر گورننس کاکوئی تجربہ نہیں۔پہلی باروزیراعظم بنے ہیں۔وہ غلطیاں کررہے ہیں اوران سے سیکھ رہے ہیں۔ مگر کیا محترمہ بینظیر بھٹو اور جناب نوازشریف کووزارت عظمیٰ کاطویل تجربہ تھا۔ ہرگز نہیں۔ دونوں کو اداروں نے پہلی باروزارت عظمیٰ پلیٹ میں رکھ کر دی تھی اور حددرجہ کرپشن، اقربا پروری اوربے ضابطگیوں کی بدولت اسی طرح واپس بھی لے لی تھی۔
کیامجھے کوئی اس سوال کاجواب دے سکتاہے کہ محترم نوازشریف نے چار سال وزارتِ خارجہ اپنے پاس کیوں رکھی۔ کیاواقعی ان کا سفارت کاری میں حددرجہ تجربہ تھا؟ ان لوگوں کی جمہوریت پسندی کا عالم دیکھیے۔ایم این اے اوروزراء،محترم نواز شریف سے ملاقات نہیں کر سکتے تھے۔کئی ایم این اے تو ان کے پورے دورِاقتدار میں ان سے ون ٹوون ملاقات سے مکمل محروم رہے۔یہی حال برادرخورد کا تھا۔ایم پی اے تو ان کے نزدیک نہیں پھٹک سکتاتھا۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے بالکل غلطیاں کی ہیں۔ غلطیاں کرکے ہی انسان اپنے آپکی تصیحح کرسکتا ہے۔ اور تو کوئی طریقہ نہیں کہ کوئی بھی حکمران ہرطریقے سے بے عیب حکومت کرپائے۔اگرایمنسٹی اسکیم پیپلزپارٹی اورن کے دور میں آئے توجائز۔اوراگرپی ٹی آئی لے کر آئے توحددرجہ غلط۔ اگرہندوستان آج ہرفورم پر پاکستان سے کنی کتراتاہے، گھبراتا ہے، تو غلط۔ مگر ماضی کے دورمیں بھارت،ہمارے ملک میں دہشت گردی جاری رکھے تومذمت توکیا،اس کانام لینابھی گوارا نہ کرنا بھی صحیح۔
بہت سی مثالیں ہیں۔یہاں یہ بھی عرض کرونگاکہ مہنگائی کے طوفان اورپنجاب میں کھینچاتانی سے لوگ عذاب میں آچکے ہیں۔مگریہ تووہ وقت ہے جوہم گزشتہ دس سالوں کے تاوان کے طور پر اداکررہے ہیں۔آج پھرسیاسی جادوگر عدم استحکام اور بے یقینی کی فضاپیداکررہے ہیں۔اسکے نتائج پہلے کی طرح جان لیواہوسکتے ہیں؟