مٹھہ ٹوانہ کے مزار
مٹھہ ٹوانہ ایک مشہور خاندان کاآبائی گھرہے جو سیاست اور ریاست دونوں میں نامورہے لیکن یہ شہراس درگاہ کی وجہ سے معروف ہے
سب سے پہلے تو میں اپنی غیر حاضری کی معذرت چاہتا ہوں جس کی وجہ ایک عزیز ترین ہستی کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے باعث طویل عرصے کے بعد گاؤں میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے ۔ اس دنیا کے رشتے میری ذات تک بہت محدود ہیں اور میں شدید ضرورت اور قریبی تعلقات کے واسطے سے ہی کسی سے ملتا جلتا ہوں ۔ مجھے اپنی اس تنہائی پر تعجب ہوتا ہے کہ پوری زندگی جو عملی صحافت میں گزری جس میں تعلقات کی کثرت لازم سمجھی جاتی ہے کہ تعلقات جس قدر زیادہ ہوں گے خبریں بھی اتنی زیادہ ملیں گی۔
اخبار میں تو اداریہ نویس بھی باخبر اور اہم رپورٹروں سے بڑے شوق کے ساتھ ملتے ہیں کہ صحافت کی دنیا ان باخبر لوگوں سے ہی آباد رہتی ہے۔ اخباری رپورٹر تو عام لوگوں سے ملتے ہی ہیں کہ ان کا خبروں کا ذخیرہ عوام کے پاس ہی ہوتا ہے لیکن اداریہ نویس تک بھی بظاہر منشی بن کر کرسی نشین ہو جاتے ہیں لیکن بار بار رپورٹروں کو تنگ کرتے ہیں اور ان سے خبریں حاصل کرتے ہیں ۔ اداریہ انھی خبروں پر ہی لکھا جاتا ہے اور باہر کی دنیا کی خبر رپورٹر ہی لاتے ہیں۔
اس طرح اخبار کا اہم ترین کالم یعنی اداریہ رپورٹروں کے اختیار میں ہوتا ہے وہ جو خبر اداریہ نویس کو دیں گے وہی کسی اداریئے کا موضوع بنے گی، اس طرح گلی کوچوں میں گھومنے پھرنے والا رپورٹر اخبار کے سنجیدہ ترین کالم یعنی ادارئیے کا سورس بن جاتا ہے اور یہی سورس کسی اخبار کے اداریوں اور تبصروں کا ذریعہ بن جاتا ہے، یوں کہیں کہ اداریہ لکھتا تو ایڈیٹر ہے لیکن اس کا قلم کسی رپورٹر کی معلومات اور اشاروں پر چلتا ہے۔
اخبارعوام کی رائے کا نام ہے اور رائے عامہ ایک رپورٹر لے کر آتا ہے جس پر اخبار کا اہم ترین صفحہ یعنی ادارتی صفحہ مرتب ہوتا ہے۔ یہ اخبار کی پالیسی ہوتا ہے اور قارئین اپنے اخبار کو اس صفحے کے مندرجات سے پہچانتے ہیں کیونکہ خبریں تو کوئی رپورٹر ہی فراہم کرتا ہے مگر ان خبروں کی روشنی میں اخبار کی پالیسی اداریہ نویس ہی بناتا ہے گویا یہی عوامی خبریں کسی اخبار کا مرکزی حصہ ہوتا ہے جو اخبار نویس نہیں عوام لکھتے ہیں یعنی عوام کی گپ شپ ہی اخبار ہوتا ہے اور جو رپورٹر دانشمندی اور سلیقے کے ساتھ یہ مواد مرتب صورت میں ایڈیٹر کو پیش کرتا ہے وہ گویا اخبار کی پالیسی بنانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح ایک رپورٹر بھی اخبار کے مرکزی کارکنوں میں شمار ہوتا ہے اور ایک صورت میں بہت بہتر بھی کہ اس کے پاس عوام کی رائے ہوتی ہے ۔
میری غیر حاضری سے بات شروع ہوئی اور اخبار نویسی کی طرف نکل گئی عمر بھر کی عملی صحافت اس موضوع سے نکلنے ہی نہیں دیتی۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ایک مدت کے بعد گاؤں کا چکر لگا ہے لیکن جب وادیٔ سون کے ٹھنڈے پہاڑوں سے اتر کر میدان میں داخل ہوتے ہیں اور میدان کے ختم ہونے کے بعد تھل کا ریگستان شروع ہو جاتا ہے اسی تھل کے ریگستان میں ہی میرے بزرگوں کے مزار ہیں۔ بزرگوں کے مزار پر حاضری دی اور ان کے مرقد کے وسیع و عریض احاطے میں دعائیں کیں اور ان بزرگوں سے مغفرت اور نوازش کی درخواست کی جو اس احاطے میں مدفون ہیں اور نہ جانے کتنے ہی لوگوں کے لیے مغفرت کا ذریعہ اور واسطہ بن چکے ہیں۔ میں گنہگار بھی انھی مغفرت طلب لوگوں میں شامل ہوں نتیجہ خدا ہی جانتا ہے۔
یہ جگہ ایک مشہور ومعروف شہر کا حصہ ہے جس کا نام مٹھہ ٹوانہ ہے اسی شہر میں مدتوں پہلے میرے بزرگوں نے ٹھکانہ کیا ،گھر بسائے اور اس شہر میں موجود لاتعداد لوگوں نے ان کو اپنا مرشد مانا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان کی خانقاہ اب بھی مرجع خلائق ہے جسے ان کی اولاد اور مریدوں نے زندہ اور آباد رکھا۔ یہ خانقاہ آج کل کی روایتی خانقاہوں سے بالکل مختلف ہے یہاں کوئی سجادہ نشین سج دھج کے نہیں بیٹھا ہوتا اور نہ ہی مریدین اس پر نوٹوں کی بارش کر رہے ہوتے ہیں بلکہ اس پروقار خانقاہ میں داخل ہوتے ہی ایک سکون کا احساس ہوتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ پر رحمتوں کی بارش ہو رہی ہے۔
میں بھی ان کی اولاد میں سے ہوں لیکن میں اپنے خاندان کے ساتھ مٹھہ ٹوانہ سے دور ایک گاؤں میں آباد ہوں اور مٹھہ ٹوانہ میں اپنے مدفون بزرگوں کے مزاروں پر فاتحہ خوانی کے لیے کبھی کبھار ہی حاضر ہوتا ہوں ۔ بزرگوں کی خانقاہ ایک طویل وعریض احاطہ ہے جس میں درویشوں اور مریدوں کے قیام کا بندوبست بھی ہے اور ایک خادم دن رات یہاں مقیم ہے۔
مٹھہ ٹوانہ میں مدفون ہمارے بزرگ درویش لوگ تھے اور فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے لیکن بعد میں ان کے مریدوں نے کئی رئیسانہ سلسلے شروع کر دیئے اورخانقاہ کو بھی مزید وسعت دے دی۔ اگرچہ مٹھہ ٹوانہ ایک مشہور خاندان کا آبائی گھر ہے جو سیاست اور ریاست دونوں میں نامور ہے لیکن یہ شہر اس درگاہ کی وجہ سے معروف ہے جس کی نسل کے ساتھ تعلق کا مجھے بھی واسطہ ہے لیکن ہمارے لیے ہمارے بزرگوں کے مزار اور وسیع وعریض احاطہ ہی سب کچھ ہے جہاں ہم ابدی سکون پاتے ہیں اور اس احاطے میں گھوم پھر کر زندگی کا لطف لیتے ہیں اور اپنے آپ کو میاں اطہر سلطان اور ان کی اولاد کے مرید اور خادم سمجھتے ہیں جن کا مزاراب تک دور دور سے ان عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔ بہر کیف یہ بزرگ اپنی برکات اپنے ترکے کے طور پر چھوڑ گئے۔ ہمارے ان سے تعلق کا فخر اور عقیدت کا سرمایہ باقی ہے جو ان کے دوسرے مریدوں کے ساتھ ہمیں بھی نصیب ہے۔