سندھ کے شہروں اور دیہات میں سولر انرجی کی مقبولیت

جہاں بجلی ہے وہاں فراہمی مکمل نہیں، سولر پینلز نے 90 فیصد علاقوں کو متبادل آپشن دے دیا


حفیظ تنیو May 18, 2019
مختلف شہروں اور دیہات کے لوگ خوش،جس نے بھی یہ ٹیکنالوجی ایجاد کی اس کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں، لوگوں کے تاثرات۔ فوٹو: فائل

توانائی کے بحران کے منفی اثرات سے بچنے کیلیے سندھ میں شمسی توانائی (سولر انرجی) کا استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق صورتحال ایسی ہے کہ جہاں بجلی ہے وہاں فراہمی مکمل نہیں جبکہ بہت سے علاقے تاحال بجلی سے محروم ہیں، یہی مسئلہ لوگوں کو سولر انرجی کی طرف لانے کا سبب بنا اور اس وقت سولر پینلز نے سندھ کے تقریباً 90 فیصد علاقوں کو متبادل آپشن دیدیا ہے۔ مختلف شہروں اور دیہات کے لوگ سولر انرجی کے آنے اور اسے استعمال کرنے پر خوش ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جس نے بھی یہ ٹیکنالوجی ایجاد کی اس کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف گائوں یا دیہات ہی نہیں بلکہ اسپتال، اسکول، کالج اور دیگر ادارے بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھارہے ہیں جن میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) سکھر قابل ذکر ہے جس نے واپڈا کی بجلی کے بجائے اپنا ادارہ سولر پینلز پر منتقل کردیا ہے اور اب اُن کا واپڈ اکی بجلی کا بل صفر ہوگیا ہے۔

صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے سولر انرجی کے فروغ کے لیے مختلف اداروں اور تنظیموں کی معاونت کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج سندھ میں ایک طرح سے انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ، دادو، سانگھڑ، جامشورو، کشمور، خیرپور، ٹھٹھہ، جیکب آباد، شکارپور، سکھر اور ان کے مضافاتی علاقوں میں سولر پینلز کا استعمال اور اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔

سولر انرجی کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جہاں آئی بی اے سکھر نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا وہیں وہ ایک معاہدے کے تحت سکھر الیکٹرک پاور کمپنی کو اضافی بجلی بھی فراہم کرے گی۔ آئی بی اے سکھر کی طرح 133بستروں کے جیکب آباد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (JIMS) بھی مکمل طور پر سولر انرجی پر منتقل ہوچکا ہے۔

امتیاز شیخ کا اس حوالے سے مزید کہنا ہے کہ رواں مالی سال میں ہم نے محکمہ صحت کے تحت چلنے والے صحت مراکزکو سولر انرجی پر منتقل کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔ اس کے علاوہ شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلز اور واٹر پمپس کیلیے بھی کام کا آغاز ہوچکا ہے۔

سولر انرجی کی وجہ سے دور دراز کے گائوں اور دیہات میں میلے کا سماں نظر آتا ہے۔ جہاں پہلے بجلی کے انتظار میںلوگ گھنٹوں پریشان رہتے تھے وہاں اب گرمی کے موسم میں دن رات پنکھا چلتا ہے اور رات کے اندھیرے میں برقی قمقمے، بلب اور دیگر لائٹس گھروں، گلیوں کو روشن رکھتی ہیں۔ رات کو دیہات میں سولر پینلز کی وجہ سے روشن بلب دور سے جگمگاتے نظر آجاتتے ہیں۔

لاڑکانہ سے 78کلومیٹر مغرب میں واقع دیہہ وانڈھ بھی سندھ کا وہ علاقہ ہے جو برسوں سے حکام کی جانب سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ، اب وہ اپنی بجلی کی ضروریات سولر انرجی کے ذریعے پورا کررہا ہے۔

80 سالہ غلام فرید جعفرانی بھی اسی گائوں کا باسی ہے، اس نے بتایا کہ کبھی کبھی ہم سوچتے تھے کہ ہم لوگ شاید زندگی بھر دن میں شدید گرمی اور رات کو گھپ اندھیرا ہی دیکھیں گے لیکن اب سولر انرجی نے ہماری زندگیاں بدل دی ہیں۔ پہلے ہم ہاتھ کا پنکھا لے کے دن رات جھلتے تھے تاکہ گرمی کم ہو مگر اب سولر پینلز نے بڑی کرامت دکھادی ہے جس نے بھی اسے ایجاد کیا اُس کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ دیہہ وانڈھ اور اس کے قریبی علاقوں کے مکینوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود پیسے خرچ کرکے سولر انرجی اپنائی ہے۔

قریبی گائوں ٹھوڑہی بجار کے مکین علی بخش توتانی نے بتایا کہ میں نے اپنی بکری بیچ کر ساڑھے 5ہزار میں سولر پینل اور 9ہزار میں بیٹری خریدی، اس کے علاوہ ساڑھے 4 ہزار روپے میں سولر والا پنکھا لیا۔ بیٹری مکمل چارجنگ کے بعد ایک پنکھا اور 2 لائٹس 24 گھنٹے کے لیے کارآمد ہوتے ہیں جو میری 4 افراد پر مشتمل فیملی کے لیے کافی ہے۔ اب مجھے بل کی فکر ہوتی ہے کیونکہ اس کا کوئی بل نہیں اور نہ ہی مجھے گھنٹوں طویل لوڈشیڈنگ کی اذیت اٹھانی پڑتی ہے۔

دیہہ وانڈھ اور ٹھوڑہی بجار تحصیل قمبر میں واقع ہیں جہاں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1970 میں بجلی کی لائنیں ڈالی گئی تھیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ تحصیل کے بہت کم علاقوں اور گھروں کو بجلی کے میٹر نصیب ہوئے، دیگر تو ابھی بجلی آنے کے انتظار میں ہی ہیں۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا قریبی علاقوں اور دیگر شہروں اور دیہات میں گذشتہ 30 سال سے ہے۔

مقامی زمنیدار عبدالمالک نے بتایا کہ ہمیں روزانہ 15 سے 18گھنٹے لوڈشیڈنگ کا سامنا کرتے ہیں، کبھی کبھی تو کئی کئی دن بجلی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پورا گائوں اور دیگر علاقے سولر انرجی پر منتقل ہورہے ہیں۔ میں نے 11ہزار 600روپے کے 2 سولر پینلز ، 13ہزار 800کی ایک میڈیم سائز بیٹری خریدی ، اس کے علاوہ چارجر، کیبل اور کنورٹر کی مد میں مزید 7ہزار روپے لگے۔ اب میں سولر پینلز کے ذریعے 4پنکھے چلاتا ہوں اور 4بلب جلتے ہیں ۔ اب میں مزید 2 سولر پینل خریدوں گا جس کے بعد میں ریفریجریٹر بھی استعمال کرسکوں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں