کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی
انھیں راجواڑوں، سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے نظام کو ختم کرکے ایک ایسا نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے ...
انھیں راجواڑوں، سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے نظام کو ختم کرکے ایک ایسا نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جہاں گنگو تیلی اور راجہ بھوج الگ الگ محلوں، جھگیوں میں رہنے اور دسترخوانوں پہ کھانے کے بجائے ایک ہی دسترخوان پر گنگو اور بھوج ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ سب نسل انسانی کا حصہ بن کر پوری دنیا کے کارکنان پوری دنیا کے مالک ہوں۔ اخبارات میں خبر چھپی کہ ایک حکومتی سیاستدان کی کلائی پہ جو گھڑی بندھی ہوئی ہے وہ 84 لاکھ ڈالر یعنی 4 کروڑ 60 لاکھ روپے کی ہے، ایک اور خبر چھپی ہے کہ اعلی سرکاری عہدوں پر فائز افراد کو 5 ہزار روپے روزانہ الاؤنس ملاکرے گا اور دو گاڑیاں رکھ سکتے ہیں جب کہ دوسری جانب یہ بھی خبر چھپی ہے کہ ایک ماں بھوک سے تنگ آکر اپنی سات ماہ کی بچی کو گود میں لے کر کنویں میں کود گئی۔ دوسرے دن ایک اور خبر آئی کہ پنجاب میں ایک باپ نے بے روزگاری سے تنگ آکر اپنے دو بچوں کو چاقو سے قتل کرکے خودکشی کرلی۔
سرکاری اعداد و شمار کے لحاظ سے پاکستان میں ایک کروڑ 70 لاکھ 4 ہزار بیروزگار اور 70 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ تقریباً 3 ہزار افراد ہر روز بھوک اور عدم علاج کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب 10 لاکھ سے زیادہ افراد ماہانہ 10 لاکھ روپے سے زیادہ کماتے ہیں۔ پاکستان کا ایک امیر ترین شخص 2 ارب ڈالر کا مالک ہے۔ پاکستان میں ایسے سیکڑوں امیر آدمی ہیں جو ماہانہ 4 کروڑ سے زیادہ کماتے ہیں تو دوسری جانب ٹیکسٹائل ملز، پاورلومز، گارمنٹ فیکٹریز، صابن، تیل، گھی، شیشے اور پلاسٹک بنانے کی فیکٹریوں ، ملوں اور کارخانوں، کھیت میں کام کرنے والے مزدور، دکانوں، ڈاکٹروں اور وکیلوں کے پاس کام کرنے والے مزدور، چپراسی، کھیت مزدور اور منشی 4ہزار روپے سے 6ہزار روپے کی تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
آخر یہ خلیج کیوں؟ اسے سمجھنے کے لیے کوئی فلسفہ، کوئی مشکل ریاضی یا اعداد و شمار کی ضرورت نہیں۔ اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ دور وحشت میں جب امداد باہمی کا معاشرہ تھا اور مل کر کام کرتے اور مل کر کھاتے تھے۔ مگر جب کچھ بلوانوں نے زمین کے کسی ٹکڑے پر قبضہ کرکے کہا کہ یہ میرا ہے، اسی دن سے طبقاتی تقسیم شروع ہوئی۔ ان طبقاتی تقسیموں نے کارکنوں کا جینا دوبھر کردیا۔ غلامانہ نظام کے دور کی بات ہے کہ تین پانی کے جہازوں میں ایشیا اور افریقہ سے غلاموں کو بھر کر یورپ اور امریکا لے جایا جارہا تھا۔ ان جہازوں میں ایک لاکھ 30 ہزار غلام تھے۔ انھیں اس طرح سے لے جایا جارہا تھا جیسے پنجرے میں مرغیاں لے جائی جاتی ہیں۔ کھانے کے لیے راستے میں روٹی اور آلو دیے نہیں، پھینکے جاتے تھے۔ اجابت وہیں کرنی ہوتی تھی جہاں انھیں پنجروں میں رکھا جاتا تھا۔ سفر کے دوران 25000 غلام مرگئے جنھیں سمندر برد کردیاگیا۔
(حوالہ ورلڈلی ویلتھ ہیبرو مین، امریکی مصنف) دوسری جانب روم کا بادشاہ پنجروں میں شیر اور غلاموں میں دست بدست لڑائی کرواتا تھا، آخرکار شیر ہی غلاموں کو چیر پھاڑ کر کھالیتا تھا۔ بادشاہ اس کس بل کی نمائش کو دیکھ کر قہقہے لگاتا اور لطف اندوز ہوتا تھا۔ تاج محل بنوانے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ہزاروں مزدور غذائی قلت اور قحط سے مرگئے۔ صرف چند ہنر مند مزدوروں کے لیے کچھ غذاؤں کا ذخیرہ کرلیا تھا۔ شاہ جہاں بادشاہ کا خزانہ خالی ہوگیا تھا۔ بعد ازاں انھی کے بیٹے اورنگ زیب عالمگیر نے تین سگے بھائیوں اور ایک بھانجے کو قتل کیا اور ایک سگی بہن کو ہاتھی کے پاؤں کے ساتھ باندھ کر گھسیٹا گیا اور پھر اقتدار پر قبضہ کیا گیا۔ جب کہ انھیں بھی بعض سادہ لوگ جنرل ضیاء الحق کی طرح پارسا، پرہیزگار اور نیک سمجھتے ہیں۔
اسی جبر و ظلم کے خلاف دنیا کے ہر خطے امریکا، یورپ، افریقہ اور ایشیا میں عوام نے تاریخی لڑائیاں لڑیں، کہیں غلامی کو ختم کیا تو کہیں جاگیرداری کو تو کہیں سرمایہ داری کو۔ فرانس، جرمنی، امریکا، چین، ہندوستان اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ جرمنی میں صرف ایک معرکے میں 30 ہزار کسان مارے گئے۔ ان کے رہنما رمز ملک سے باہر تھے جنھیں دھوکا دے کر بلایا گیا اور قتل کردیاگیا۔ فرانس میں 50 ہزار سے زیادہ لوگ لقمہ اجل ہوئے، چین اور ہندوستان میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام ہوا۔ صرف دیوار چین کی تعمیر کے دوران چینی بادشاہ نے ہزاروں غلاموں کو قتل کرکے ان کے خون سے دیوار چین کی بھیت کو مضبوط کیا۔
ابراہام لنکن کی قیادت میں امریکا کو متحد رکھنے اور برطانوی سامراج سے آزادی کے لیے ہزاروں امریکیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ قصہ خوانی بازار پشاور اور جلیانوالہ باغ پنجاب میں انگریزوں کی بمباری اور گولیوں سے دسیوں ہزار ہندوستانی جان سے جاتے رہے۔ صرف زمین اور دولت کی خاطر اور ملک کے تصور نے یہ سب کچھ کروایا۔ آج بھی دنیاکے 186ملکوں میں امریکی سامراج کے فوجی اڈے ہیں۔ ملکیت میں اضافے کرنے کی غرض سے ہر سال 9 ممالک (امریکا، روس، چین، فرانس، پاکستان، بھارت ، اسرائیل، برطانیہ اور شمالی کوریا) سالانہ 105 بلین ڈالر ایٹمی سرگرمیوں پر خرچ کرتے ہیں، اگر ان اخراجات کو ختم کردیں تو اس دنیا سے دوبارہ غربت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
جب تک دنیا میں طبقاتی نظام ختم نہیں ہوتا اس وقت تک سرمایہ داری میں رہنے کے دوران لکھ پتیوں، کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کے لیے اشیائے خور و نوش کی قیمت ہزار، لاکھ اور کروڑ روپے میں ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر ایک غریب آدمی جس کی تنخواہ 10,000 روپے ہے اگر وہ آٹا 50 روپے کلو خریدتا ہے تو لکھ پتی کو 100روپے کلو ، کروڑ پتی کو 1000روپے کلو اور ارب پتی کو 10,000 روپے فی کلو میں بیچا جائے۔ جن کی تنخواہیں 25000 روپے تک ہے انھیں علاج، رہائش، تعلیم، پانی، بجلی، گیس اور ٹرانسپورٹ مفت فراہم کیا جائے اور جو بیروزگار ہیں انھیں کم از کم 15000 روپے بے روزگاری الاؤنس دیا جائے مگر اس کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ بتایا جائے کہ اس طبقاتی تقسیم کو دنیا بھر کے محنت کش ایک روز ضرور ختم کرکے امداد باہمی کا عوامی معاشرہ قائم کریں گے۔
کوئی ریاست، کوئی فوج ، کرنسی نوٹس، عدالت، صحافت، وکالت اور نہ کوئی پولیس اور رینجرز ہوگی۔ صرف ٹریفک کا ایک مربوط اور مرکزی نظام ضرور ہوگا۔ تعلیم ہر فرد دوسرے کو خود دے گا۔ ہر محلے، گلی اور گاؤں میں اجتماعی دھوبی گھاٹ اور باورچی خانے ہوں گے۔ خواتین کو باورچی خانے، دھوبی گھاٹ اور جھاڑو پوچے سے نجات دلاکر تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف کیا جائے گا۔ اس کے لیے اجتماعی ملازمین ہوں گے جن کو ضروریات زندگی سماج مہیا کرے گا۔ ونی، غیرت، کاروکاری، ولور اور نکاح کی جبری غلامی ختم کردی جائے گی۔
مذہبی جنونیت، فرقہ واریت، مذہب کے نام پر ذریعہ معاش کو اپنانے اور نسل پرستی کو جرم قرار دیا جائے گا۔ ایک دوسرے کی مدد نہ کرنے پر سزا ہوگی۔ سزائے موت، اسلحے کا استعمال، قتل اور ذاتی ملکیت کے وجود کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ملکوں کی سرحدوں کو ختم کردیا جائے گا۔ جہاں جو چاہے کام کرسکے گا اور جاسکے گا۔ خوشی ، خوشحالی، لطف اندوزی اور زندگی کے جواہرات کو نمایاں کرکے تخلیقی صلاحیتوں کو کام میں لانے کے مکمل مواقع ہوں گے، ہر شخص کو آدھے گھنٹے سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ ہم اس وقت چھ گھنٹے سرمایہ داروں کی عیاشیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ آزاد معاشرے میں ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہوگا۔