ڈاکٹر خالد ندیم سے ایک ملاقات
ڈاکٹر خالد ندیم کے بارے میں چند وہ باتیں جوکہ اس انٹرویو میں نہیں سما سکیں گی۔
گزشتہ دنوں مرزا غالب کی ایک سو پچاسویں برسی کے موقعے پر سرگودھا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر (شعبہ اردو) ڈاکٹر خالد ندیم کراچی تشریف لائے تھے، انھیں ایک روزہ قومی کانفرنس مرزا اسد اللہ خان ادبی وفکری جہات میں شرکت کرنا تھی۔انھوں نے کئی روزکراچی میں قیام کیا، ہم نے اس موقع پر فائدہ اٹھایا اور جھٹ پٹ انٹرویو لینے کا اہتمام کر ڈالا۔
اس سے پہلے کہ سوال وجواب کا سلسلہ شروع کریں، ڈاکٹر خالد ندیم کے بارے میں چند وہ باتیں جوکہ اس انٹرویو میں نہیں سما سکیں گی، وہ اعلیٰ فکر رکھتے ہیں، اسی مثبت سوچ اور افکار عالیہ کی بدولت ان کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے تحقیق وتنقید اور تراجم کے حوالے سے اتنا کام کیا ہے کہ 23, 22 کتابیں شایع ہوچکی ہیں اور آپ کی نگرانی میں طلبا ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ کی تیاری کرتے ہیں۔
ہمارا پہلا سوال تھا تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کے بارے میں۔ انھوں نے شگفتہ مزاجی سے جواب دیا کہ میں 9 فروری 1963 میں شیخو پورہ کے محلے قادر آباد میں پیدا ہوا، میرے والد محترم کا نام حاجی عنایت اللہ اور والدہ صاحبہ کا نام حمیدہ خاتون۔ ڈاکٹر صاحب اپنے قارئین کو اس بات سے آگاہ کریں کہ آپ کے بچپن کا دورکیسا گزرا اورکیا گھریلو ماحول آپ کوکامیابی سے ہمکنار کرنے میں سازگار تھا؟
میرے والد صاحب بے حد شفیق انسان تھے علم و ادب کا ذوق رکھتے تھے، عشق رسولؐ کی محبت سے سرشار تھے، یہی عقیدت اور محبت نعتیں لکھنے کا سبب بنی، ہوسکتا ہے ان کا نعتیہ کلام علم عروض پر پورا نہ اترتا ہو، وہ اکثر سلطان باہوؒ کا کلام گنگنایا کرتے تھے، میری والدہ اگرچہ زیادہ پڑھی ہوئی نہیں تھیں، لیکن قائدانہ صلاحیتوں کی مالک تھیں مجھے اپنے والدین کی طرف سے شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں بے حد مدد ملی، نہ عسرت کے دنوں میں شکایت اور نہ آسودگی اور نہ خوشحالی میں نمائش۔ واہ! ڈاکٹر صاحب کیا بات کہی ہے، اعلیٰ ظرفی کی بہترین مثال۔ ہم نے لقمہ دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرے والدین نے مجھ سے پوزیشن لانے کا کبھی مطالبہ نہیں کیا ،کبھی نمبرکم آتے تو سرزنش توکجا کبھی اشارۃً بھی ذکر نہیں کیا بلکہ میری دیگر صلاحیتوں کا تذکرہ کرکے میرا حوصلہ بڑھایا، جب میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا، ان دنوں پرویز اقبال نامی میرا ایک دوست تھا ، اسے میں خط لکھا کرتا اس کے جوابات آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔چوتھی جماعت میں آیا توکاپی کے دو اوراق پر خبریں لکھتا اور والدہ کو سنایا کرتا، پانچویں جماعت میں گیت لکھنے کا شوق اس قدر بڑھا کہ ایک کاپی ہی بھر دی، اس وقت مجھے فن عروض کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا لیکن فلمی گیت سنتے سنتے تک بندی کرنی شروع کردی تھی، درجہ ہشتم میں کہانیاں لکھنے کی طرف مائل ہوا اور اس دور کے رسائل ''آداب عرض، جواب عرض'' اور سلام عرض میں شایع ہونے لگیں جب نویں دسویں جماعت میں تھا۔
رائل پارک لاہور میں فلمی دفاتر میں جانے کا چسکا پڑا اور میں گیت لکھ کر وہاں لے جاتا اس کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان لاہورکے بعض ادبی پروگراموں میں خط لکھنے لگا۔ بعد میں ریڈیو بیجنگ، ڈاؤچ ویلے کولون، ایران، زاہدان ریڈیو، ماسکو ریڈیو تاشقند اور نہ جانے کہاں کہاں خط وکتابت شروع ہوگئی۔ میرے والدین نے میری سرگرمیوں پرکبھی پابندی نہیں لگائی، وقت کے ساتھ ساتھ ان سرگرمیوں کی طرف توجہ کم ہوگئی اور مطالعے کا شوق بڑھ گیا۔ آج میں سمجھتا ہوں کہ اس دورکی بظاہر غیرادبی و غیرعلمی سرگرمیوں سے مجھے ایک راہ مل گئی اور میں شعر وادب کی طرف نکل آیا۔ یہ بات تو طے ہے کہ بچے کی تعلیم و تربیت میں والدین اور اساتذہ کا نمایاں کردار نظر آتا ہے، شخصیت کی تعمیر و تشکیل انھی محترم ہستیوں کی مرہون منت ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر صاحب نے کچھ توقف کے بعد کہا۔ مجھے 1970 میں ایم سی مڈل اسکول وارث روڈ شیخوپورہ میں داخل کرایا گیا، وہاں پہلی جماعت میں میرے ایک استاد محمد انورخان شروانی تھے وہ بعد میں ایل ایل بی کرکے وکیل بن گئے اور اسکول چھوڑ گئے ۔ ان کی شخصیت کے اثرات آج تک مجھے محسوس ہوتے ہیں۔ پرائمری کے ایک اور استاد محمد رمضان داؤد اور مڈل کلاسوں میں سر عزیز احمد تھے، ان کی شفقت کو میں کبھی بھلا نہیں سکتا، میرے والدین کا مثبت رویہ ہمیشہ میرے ساتھ رہا، آج جوکچھ بھی ہوں ، اپنے والدین اور اساتذہ کی محبت اور توجہ کی بدولت ہوں۔
ڈاکٹر صاحب اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب دوران تعلیم معاشی مسائل زیادہ اور وسائل کم ہوجاتے ہیں تو ان حالات میں آگے پڑھنے اور منزل کو پانے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑتی ہے ،کیا آپ بھی اس قسم کے حالات سے دوچار ہوئے، دھوپ بڑھتی گئی اور سایہ کم ہوتا گیا؟
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مزاج کی سنجیدگی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا، آپ نے درست فرمایا۔ پھر وہ گہری سوچ کی وادی میں اتر گئے۔ چند لمحوں بعد دھیمے لہجے میں بولے زمانے کے سرد وگرم کا مقابلہ کرنا زندگی کا حصہ ہے۔ ہوا یوں کہ میں نے میٹرک کے داخلے کے بعد گورنمنٹ لیاقت میموریل ہائی اسکول شیخوپورہ میں قدم رکھا لیکن تھوڑے عرصے بعد ہی معاشی حالات نے تعلیم مکمل کرنے کی اجازت نہ دی، لہٰذا دو سل تک گھر کے قریب ایک جنرل اسٹور چلایا اور تیسرے سال نومبر 1979 میں تیاری شروع کی اور مارچ 1980 میں امتحان دے دیا اور سیکنڈ ڈویژن سے پاس ہوگیا پھر تعلیمی سلسلہ چل نکلا اور گورنمنٹ کالج شیخوپورہ سے 1982 میں فرسٹ ڈویژن میں ڈی کام میں کامیابی کے بعد 1985 میں گورنمنٹ کالج شیخوپورہ سے بی اے اور 1991 میں بطور پرائیویٹ امیدوار پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی سند حاصل کی۔ 2005 میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی نگرانی میں ''ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری احوال وآثار'' کے عنوان سے پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ مکمل کیا، البتہ زبانی امتحان 2007 میں ہوا۔
ڈاکٹر صاحب وہ کیا عوامل تھے جن کے تحت شعروادب اور تنقید کی راہوں کا انتخاب کیا؟
شعر و ادب کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو آپ نے کس صنف پر طبع آزمائی کی؟ ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ مجھے شاعری اور آزاد نظم زیادہ پسند ہے اور فکشن میں افسانہ میرے مطالعے میں رہا ہے جب کہ ناول چیدہ چیدہ پڑھے ہیں، لیکن ہر انسان میں فطری صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں، چنانچہ میں شعوری طور پر نہیں بلکہ نرم روی اور غیر محسوس طور پر تحقیق کی طرف نکل آیا اور اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہی میرا میلان تھا اور اسی میں مجھے محنت کرنی چاہیے تھی۔ تحقیقی سرگرمیوں سے قبل کا دور ریاضت اور مجاہدے کا دور تھا اس سے گزرے بغیر میں آج کچھ بھی نہ ہوتا۔
ڈاکٹر صاحب آپ کی پہلی کتاب؟ میری اولین کتاب ''میر سے فیض تک'' تھی۔
ڈاکٹر صاحب آپ کی تحقیق و تنقید کے حوالے سے کتنی کتابیں قارئین کے ہاتھوں تک پہنچ چکی ہیں؟ جواب تھا کہ ''میرے متعدد کتابیں شایع ہوئیں لیکن میں کسی ایسی تصنیف کی طرف گامزن ہونا چاہتا ہوں جو مجھے دنیائے ادب میں زندہ رکھ سکے۔ ''
آپ کے علمی و ادبی کاموں میں کون کون سی شخصیات مددگار ثابت ہوئیں؟
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں جواب دیا کہ علمی دنیا میں مجھے استاد رفیع الدین ہاشمی کی سرپرستی حاصل رہی، پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم، ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی (علی گڑھ) ڈاکٹر عبدالحق (دہلی) اس کے علاوہ کراچی سے ڈاکٹر معین الدین عقیل، رؤف پاریکھ، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک (لاہور) قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کوئی ایسا واقعہ جس سے آپ کو بہت زیادہ خوشی یا غم کا سامنا کرنا پڑا ہو؟ مجھے ایک ملال عمر بھر رہے گا میں نے اور میرے بھائیوں نے والدہ کے بیمار ہونے پر علاج و معالجے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی لیکن افسوس ہم ان کی تکلیف کو کم نہ کرسکے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے سوال کے جواب میں اپنی خانگی زندگی کے بارے میں کہا کہ ماشا اللہ چاروں بچے تعلیم یافتہ ہیں اور بیگم میرے ادبی کاموں پر نہ صرف یہ کہ خوش ہوتی ہیں بلکہ وہ دکھ سکھ میں برابر کی شریک ہیں۔ بے شک جو دوسروں کو خوشیاں تقسیم کرتے ہیں وہ خود کبھی محروم نہیں رہتے ہیں۔