رتو ڈیرو
آج کل رتو ڈیروکا چرچا عام ہے۔ یہاں جو ہونا تھا، وہ بات شاید ہم نے کبھی یہاں کی ہوگی۔
نئوں ڈیرو ہو، رتو ڈیرو ہو یا گڑھی خدا بخش، ایک دوسرے سے کچھ ہی فاصلے پر ہیں بلکہ ایک ہی ساخت کے، چاہے وہاں کے مکین ہوں ،اسکول ہوں یا اسپتال ہوں سب بے پرسان حال۔ زبوں حال دیواریں، اکھڑی ہوئی، پھیکے سے رنگ ۔کھلی ہوئی نالیاں۔گدھا گاڑیوں کی بھرمار، یہ ہیں وہ لوگ اور مٹی جہاں سے اس دیس کی جمہوری تحریک کو وہ لیڈر ملے تھے جو جان کا نذرانہ دے کر چلے گئے۔آج بھی اگر اس ملک میں نہ سہی اس صوبے میں دس سال سے اور پھر پانچ سال ان کی حکومت ہے۔ یہ سب وڈیرے ہیں جن کی یہ حکومت رواں ہے اور رواں رہے گی جب کہ لوگ یوں ہی اجڑتے رہیں گے۔
آج کل رتو ڈیروکا چرچا عام ہے۔ یہاں جو ہونا تھا، وہ بات شاید ہم نے کبھی یہاں کی ہوگی۔ جب سے اسکول بند ہوئے، لوگوں نے بچے مدرسے بھیجنا شروع کیے اور اسپتال جو بند ہوئے، تو ان کی جگہ اتائی ڈاکٹروں نے لے لی۔
آج یہ خبر ہر زبان پر ہے کہ یہاں سیکڑوں بچوں کو ایڈز لگ چکا ہے، ان میں کچھ بچے تو ابھی نومولود ہیں۔یہ سب اتائیوں کا کیا دھرا ہے۔ یہاںاس بیماری کے لیے موثر ذریعہ علاج انجکشن ہے اور وہ انجکشن recycle ہوتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے مریض پر استعمال ہوتے ہیں اور پھر خون کی بوتل بھی بغیر scanning کے لگائی جاتی ہے کہ آیا خون کا عطیہ دینے والا ایڈز یا ہیپاٹائٹس کا مریض تونہیں ۔
یہ سب انھی دس سالوں کا اجر ہے جو ان لوگوں نے اس پارٹی کو ووٹ دیکر اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے۔ادارے تو پہلے سے ہی اجڑ رہے تھے مگر ان کی حکومت کے زیرسایہ تو مرگئے۔ یہاں نام کے ڈاکٹر ہیں،استاد ہیں تو ٹیوشن پر توجہ زیادہ، اور ڈاکٹر ہیں تو اپنے پرائیوٹ اسپتال کو وقت زیادہ دیتے ہیں اور سرکاری تنخواہ الگ سے لیتے ہیں۔سندھ حکومت کے بجٹ کاچالیس فیصد حصہ، صحت اور تعلیم پر صرف ہوتا مگر یہ سارے کا سارا بجٹ اب تو جاہل کو مزید جاہل کرنے میں اور صحت مند کو غیر صحت مند کرنے میں چلاجاتا ہے۔
یہ اتائی ڈاکٹر اب موت کے فرشتے ہیں، اسکول کا غیر حاضر استاد صرف تنخواہ لیتا ہے اور مدرسے جانے والے بچے کو ہم کیا بناتے ہیں۔ اسکول بہتر طریقے سے کام کرتے تو لوگ اپنے بچوں کو مدرسے کیوں بھیجتے۔ کیوں جاتے یہ اتائیوں کے پاس اگر سرکاری اسپتال فنکشنل ہوتے۔ ان لوگوں میں سے جو تھوڑی بہت قوت خرید رکھتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجتے ہیں لیکن ان کی اگرکوئی حالت دیکھے جن کی فیس پانچ سو روپے ماہانہ ہے توآپ کو حیرت ہوگی یہ ان چھوٹے چھوٹے گھروں میں بنے ہوئے، جہاں کھیلنے کا گرائونڈ تک نہیں۔
ایک مفلوج نظام ہے۔ یہاں چھوٹی چھوٹی یونین کونسل اور ٹائون کمیٹیاں ہیں۔ان کے اندر جو سوئیپر ہیں وہ بھی گھوسٹ سوئیپر ہیں ۔ مہینوں گٹرصاف نہیں ہوتے، نہ راستوں،گلی محلوں کی صفائی ہوتی ہے۔ اب سندھ جیسے ایک ماتم کدہ ہے۔گلی،گلی اتائی ہیں اور یہ موت کے فرشتے، علاج کے بہانے موت کا کاروبارکرتے ہیں۔ یہ رتو ڈیرو ہے یا غربت کا ڈیرہ ہے۔ ایڈز، ہیپاٹائٹس بی اور سی،کم غذا کی وجہ سے پیدا ہونے والے ذہنی معذور بچے، جس میں سندھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے اور ہپاٹائٹس کے اس مرض کی کثرت میں یہ ہمارا ملک دنیا میں بھی پہلے نمبر پر ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم جس کو ان کا نعم البدل سمجھتے تھے، انھوں نے اس ملک کو اپنی ناسمجھی کی وجہ سے مہنگائی کے ایک بڑ ے دلدل میں پھینک دیا ہے ۔ بھوک اور افلاس کا ڈیرہ اب سارے ملک میں ہے۔ رتو ڈیرو ایک نہیں ہے کئی ہیں۔یہ وہی رتوڈیرو ہے جہاں سندھ کے قوم پرست لیڈر بشیر قریشی کی آخری آرام گاہ ہے۔ جی ایم سید کے بعد دوسرا بڑا قوم پرست لیڈر ۔ پورے سندھ میں سب سے بڑی عظیم الشان اگرکوئی عمارت ہے تو وہ گڑھی خدا بخش میں ہے جہاں شہیدوں کے مزارعات ہیں، صرف بھٹو خاندان کے لوگوں کی تدفین ہوسکتی ہے ۔
ایک طرف نئوں ڈیرو ہے اور دوسری طرف رتو ڈیرو۔ یہاں کے مکین گزشتہ پچاس سال سے ان ہی بھٹوئوں کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔ لیکن یہ پارٹی ٹکٹ صرف وڈیروں کو دیتی ہے عام غریب ہاری کو نہیں۔اس لیے کہ وہ بیچارہ جیت نہیں سکتا تو پھر اس طرح یہاں یہ راز کھلتا ہے کہ سندھ میں ووٹ پیپلزپارٹی کو ملتا تو ہے لیکن وسیلہ وڈیرہ ہی ہے ہاں مگر 1988 کا الیکشن ایک الگ مثال ہے۔ جب جنرل ضیاء الحق کی نفرت میں سندھ ڈوبا ہوا تھا اور اب سندھ میں دو ڈر یہ خود بیچتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم نہ بن جائے اور یہ سندھ دو حصوں میں نہ تقسیم ہوجائے اگر ووٹ آپ نے ہمیں نہیں دیا۔ اب یہ اشرافیہ ہے پارٹی نہیں۔ یہ حکومت بنائے یا کوئی اور حکومت بنائے۔ یہاں کے شہروں پر جن کی حکومت رہی انھوں نے ان شہروں کوکیا دیا۔ یہ لوگ ہماری ایکسپورٹ نہیں بڑھاسکتے ،کیونکہ ایکسپورٹ value add سے بڑھے گی اور اس کے لیے ہنر چاہیے۔ ہنرکے لیے علم چاہیے اور علم کے لیے بہتر سسٹم چاہیے۔ پورا پاکستان بدلا نہ تبدیلی آئی۔72 سالا تاریخ میں سندھیوں نے ایک بھی ایسی قومی یا صوبائی اسمبلی کی سیٹ نہیں بنائی، جہاں مڈل کلاس کا بندہ جیت کر آیا ہو ۔ باقی سب نے یہ کام کردیے۔
یہ سندھی کالی کالی پراڈو سے بہت ڈرتے ہیں۔کہاں تھی کل کے وڈیرے میں اتنی بساط۔ اتنے خرچے اس کے ڈیرے کے کب تھے جو اب ہیں۔ چھوٹی سی ایک willys جیپ ہوتی تھی ۔کمشنروں کے دفترکے دھکے کھاتے تھے مگر اب سب کچھ ان کے انڈر ہے ۔ پولیس ہو یا پٹواری ہو ان کے تبادلے بھی کروا سکتے ہیں اور یہ جو اے ڈی خواجہ والا معاملہ تھا جو پنجاب چھ مہینوں میں تین آئی جی تبدیل کرنے والا معاملہ کیا تھا۔ شہباز شریف کی حکومت بھی پٹواریوں کے بغیر نامکمل تھی تو پھرکیوں نہ آمریت ہو، ان کا بھی ایس ایچ اوکے بغیر چلنا ممکن نہیں۔
ایک تو محصولات کم اور دوسرا جو ان محصولات میں ان لوگوں کی زندگی بہترکرنے کے لیے چھوٹا موٹا مختص کیا جاتا ہے اس پر کرپشن کے ڈیرے ہوں تو پھر یہ حالات ایک ایسی بدتری کے طرف ہم کو لے جائینگے جہاں سے واپس لوٹنا مشکل ہے۔
بات اگر اتائی تک محدود ہوتی تو بھی کچھ نہ کچھ کیا جاسکتا تھا ، لیکن جو ان کے اوپر بیٹھے ہیں وہ بھی اگر اتائی ہوں اور جمہوریت خود اتائی ہو تو پھر رتو ڈیروکیا پورے ملک میں یہ وباء پھیل جائے گا۔
سندھ کے اندر ایک بہت بڑا بحران آرہا ہے۔ لوگ آپ کو راستوں پر دم توڑتے ملیں گے کیونکہ اسپتال نہیں ہیں اور بیماریاں ہیں کہ پھیلتی جا رہی ہیں۔ مضرصحت پانی کے استعمال سے سب سے زیادہ بیماریاں دیہی سندھ میں پیدا ہوتی ہیں ، اگرآپ کو اس موجودہ بے روزگاری میں بھلے کہیں کوئی کام نہ ملے آپ میرے گائوں آجائیے آپ اتائی ڈاکٹر بہ آسانی لگ جائینگے کوئی زیادہ سرمایہ بھی درکار نہیں۔ بس صرف پانچ ہزار دکان کا کرایہ اور بڑے اسپتالوں کے گندے ڈھیر سے استعمال شدہ syringes لے کر آئیں اور ان لوگوں کو لگائیں وہ آپ کی ہر بات پر یقین کرینگے جس طرح چالیس سال سے وہ ایک ہی پارٹی پر یقین کرتے آئے ہیں۔ کبھی کبھی غلامیاں ہماری ڈی این اے میں رچ بس جاتی ہیں جو صورتحال اب رتو ڈیرو میں بنی ہے، یہ اسی کا تسلسل ہے۔