وسائل کی بالٹی
کڑواترین سچ یہ ہے کہ منصوبہ بندی اوراس پرعمل درآمدکافی حد تک حکومت کاکام ہے
قوموں پرکڑے وقت آتے رہتے ہیں۔مصائب کی بھٹی سے ملک فولاد بن کر نکلتے ہیں۔ تاریخ کا غیرجانبدار مطالعہ یہ سبق سکھاتاہے کہ وقت کی مناسبت سے اچھی حکمتِ عملی، اسے نافذکرنے کے لیے سرکاری یاغیرسرکاری مشینری اور عام لوگوں کااعتماد وہ عناصرہیں، جن کی بدولت مشکل وقت کٹ جاتے ہیں۔قومیں اپنے پیروں پردوبارہ کھڑی ہوجاتی ہیں۔ملک میں موجودہ خراب معاشی صورتحال نئی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے مالی بے ضابطگیوں کی ایک المناک بلکہ شرمناک تاریخ موجودہے۔مگراس وقت ہرمسئلے کوماضی میں ڈھونڈنے کے بجائے،ٹھنڈے دماغ سے نئی معاشی حکمتِ عملی ترتیب دینے کی اَشدضرورت ہے۔
کڑواترین سچ یہ ہے کہ منصوبہ بندی اوراس پرعمل درآمدکافی حد تک حکومت کاکام ہے۔اسی بنیادپرلوگ کسی بھی شخص کوووٹ کی طاقت سے وزیراعظم، صدر،وزیر،وزراء اعلیٰ بناتے ہیں۔ یہ فیصلے ساری قوم کی اجتماعی امانت ہیں جس کا احساس ہی کسی لیڈرکا ایمان ہوتا ہے۔اس میں کسی مذہبی رجحان کاعمل دخل نہیں۔ صاحبِ اختیارلوگوں کوعام آدمی کی بہتری کے سوا کچھ نہیں سوچنا چاہیے۔ موجودہ صورتحال سے گھبرانے کے بجائے اس کا مقابلہ کرنا اصل امتحان ہے۔صاحب اقتدارلوگوں کابھی اورشائد عوام کابھی۔ویسے عوام توکڑے امتحان دے دیکرنڈھال ہوچکے ہیں۔پھربھی اُمیدلگاکربیٹھ جاتے ہیں۔یہی انسانی فطرت ہے۔
پاکستان بلکہ کسی بھی خطے کی معیشت کودرست کرنا مشکل کام ضرورہے مگرناممکن نہیں ہے۔ اس میں اقتصادی ماہرہونے کی بھی ضرورت نہیں۔صاحب فہم اورزمینی حقائق کاعلم ہونا مسئلے کے حل کی تدبیرکی طرف لیجاسکتا ہے۔ جزئیات کوماہرین پرچھوڑاجاسکتاہے۔ڈنگ ژیاؤپنگ کی مثال سامنے رکھیے۔چین کو جس لیڈرنے دنیاکے لیے کھولا،وہ ڈنگ ہی تھا۔اس کے بغیرآج کاچین وجودمیں نہیں آسکتاتھا۔ وہ اقتصادی ماہرنہیں تھا لیکن اس کی اقتصادی منصوبہ بندی نے چینی قوم کی قسمت بدل ڈالی۔سنگاپورکی اقتصادی ترقی کی پوری دنیامیں مثال دی جاتی ہے۔
جس لیڈرنے اس کی کایا پلٹ دی،وہ ایک وکیل تھا۔لی کوان یو،کیمرج سے قانون کی ڈگری لے کرواپس آیاتھا۔اقتصادیات سے دوردورتک تعلق نہیں تھا۔ملائیشیا کی ترقی مہاتیرکے سرہے۔وہ میڈیکل ڈاکٹرہے اوراقتصادیات سے اس کاکوئی تعلق نہیں تھا۔ان تین ممالک کی حیرت انگیزترقی ان سیاسی رہنماؤں کی بدولت عمل میں آئی،جو معاشی ماہرنہیں تھے۔یہ نکتہ انتہائی اہم ہے۔ ہمارے ہاں،ایک تاثرموجودہے کہ ملک کی اقتصادی صورتحال صرف معاشی ماہرین ٹھیک کرسکتے ہیں۔جومثالیں دی ہیں،وہ اس بنیادی نکتے کے خلاف ہیں۔ابھی تک کوئی شواہد موجود نہیں ہیں کہ ملکی معیشت کوبڑھانے،چلانے کے لیے صرف اقتصادی جادوگرہی ہونے چاہیے۔اس تاثرکوجڑسے اُکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔
ہاں،باریکیوں میں جانے کے لیے ماہرین کی خدمات مستعارلینے میں کوئی حرج نہیں۔ پاکستان کی شرح نموپرغورکیجیے۔ ایوب خان کے دور میں بے مثال ترقی ہوئی تھی۔وہ معاشی ماہرنہیں تھا۔ایک معاملہ شناس حکمران ملک کی تقدیربدل سکتاہے۔ہماری بنیادی غلطی یہ ہے کہ ہم معیشت کوٹھیک کرنے کاکام ان لوگوں کے حوالے کردیتے ہیں،جنکی تعلیم وتربیت اقتصادیات میں ہوئی ہو۔دوسرے زاویے سے بھی پرکھیے۔جن تاجران نے گزشتہ پانچ سے چھ دہائیوں میں کارخانے لگائے،مشینوںکاجال بچھایا، کیا ان میں کوئی اقتصادی ماہرتھا۔ہرگزنہیں۔آج تک کوئی بھی معاشی ماہر،اچھاکاروباری نہیں بن سکا۔ہمیں اس مخصوص بیانیے سے باہرنکلناچاہیے ۔
اب فیصلہ یہ کرناہے کہ آگے کیسے چلاجائے۔سادا سا مسئلہ ہے کہ ہمارے اخراجات، محصولات سے زیادہ ہیں۔ بیشترحکومتیں صرف اورصرف ٹیکس کلچرکوڈنڈے سے بڑھانے کی دلدل میں غائب ہوجاتی ہیں۔الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیاپرمباحثوں پرغورکیجیے۔ہرتان اس پرٹوٹتی ہے کہ ٹیکس کوئی نہیں دے رہا۔یہ صرف آدھاسچ ہے۔ویسے اس پربھی بحث ہونی چاہیے کہ ہماری تیس پنتیس سال کے حکمران، عوامی ٹیکس کوکس بے دردی بلکہ شاہانہ طریقے سے خرچتے رہے۔درست ہے کہ ٹیکس کلچرکوفروغ ملناچاہیے۔مگرکیاہم دوسرامشکل کام کرنے کے لیے تیارہیں۔حکومتی اورذاتی سطح پر اخراجات کوحددرجہ کم کرناچاہتے ہیں۔کیاکوئی بھی حکومت، ادارہ،امیرآدمی اخراجات کونصف حدتک کم کرنے کے لیے تیار ہے۔
بالکل نہیں۔ سرکار سے شروع کرتے ہیں۔کیاکوئی مقتدر شخص چھوٹی گاڑی میں سفرکرناچاہے گا۔مرسیڈیز اور قیمتی گاڑیوں کوترک کریگا۔کوئی اعلان کریگاکہ سرکاری ہوائی جہاز،ہیلی کاپٹراستعمال نہیں کریگا۔پانچ ایکڑکے سرکاری گھرکوترک کرکے پانچ مرلے کے گھرمیں شفٹ ہوگا۔رہن سہن کی سادگی کی طرف آئیے۔کیاکوئی وزیراعلیٰ، وزیراعظم، صدر یا کوئی بھی بڑاحکومتی شخص،اعلان کریگاکہ آج سے سرکاری خزانے سے مہمان داری نہیں کریگا۔اپنے کچن کوخود چلائیگا۔ اپناکام خودکریگا۔ہوسکتاہے،آپ پوچھیں،کہ یہ کس ملک میں ہوتاہے۔
اس کی موجودہ مثال ناروے، سویڈن، ڈنمارک، آئس لینڈاورکئی مغربی ممالک کی قیادت کے رہن سہن میں ہے۔ہالینڈکاایک وزیراعظم اوراس کاپرنسپل سیکریٹری گھرسے دفتراورواپسی کے لیے سائیکل کااستعمال کرتاتھا۔ہالینڈکایہ وزیراعظم ہمارے جیسے ملک کے رہنماؤں کے لیے سبق تو ضرور ہے،مگراس طرح کے سبق یہاں کوئی پسندنہیں کرتا۔عرض کرنے کامقصدیہ کہ اگرنیلسن مینڈیلا،دوسے تین مرلے کے گھرمیں زندگی کابیشترحصہ گزارسکتاہے توہمارے مقتدر طبقے کو شاہانہ زندگی گزارنے کوفی الفورترک کردینا چاہیے۔ اگرکوئی بھی وزیراعظم سادگی کی مثال بن جائے،تویقین مائیے۔ قوم فصیل کی طرح اس کے فیصلوں کے اردگردکھڑی ہوجائیگی۔ سوچیے۔کیاواقعی ہماری جیسی فقیرقوم کواتنے عالیشان، قصر ِصدارت،گورنرہاؤس،وزیراعلیٰ ہاؤس،جی اوآرکی ضرورت ہے۔جواب آپ خوددیجئے۔
سرکار کے بعد اب امراء کے اخراجات کاتجزیہ کیجیے۔ ہماراامیرطبقہ سادگی پسندنہیں کرتا۔ہرایک کو بی ایم ڈبلیو، آووڈی، مرسیڈیزیالینڈکروزرچاہیے۔لاہور،کراچی،اسلام آباد،پشاور،کوئٹہ یاکسی بھی بڑے شہرکے سُپراسٹورپرچلے جائیے۔ قیمتی ترین استعمال کی اشیاء قطاراندرقطاربکتی ہوئی نظر آئیں گی۔غیرملکی پنیرکے وہ وہ برینڈنظرآئیںگے جوواشنگٹن تک میں موجودنہیں ہیں۔غیرملکی،مہنگاترین دودھ،خوردنی تیل، شیمو،پرفیوم آپ کوہرجگہ نظرآئیںگے۔کتوں،بلیوں اور مچھلیوں کی غیرملکی خوراک بھی عام ملے گی۔کیایہ تمام مہنگی ترین غیر ملکی اشیاء واقعی ہماری ضرورت ہیں؟ جواب نفی میں ہے۔نہ حکومت ان کی امپورٹ بندکرنے میں سنجیدہ ہے اورنہ امراء اپنا طرزِزندگی بدلنے کے خواہاں ہیں۔کیایہ عجیب سی بات نہیں ہے کہ بڑے اورچھوٹے شہروں میں اب امیرلوگوں کے گھروں میں غیرملکی نوکراورنوکرانیاں موجودہیں۔لاہور کی پوش ایریاز میں غیرملکی نوکرعام نظرآئیںگے۔
بچوں کے لیے فلپائنی نوکرانیاں ہرطرف گھومتی نظرآئیںگی۔کیاواقعی یہ سب کچھ جائزہے؟جب تک ملک میں معاشی بحران ہے،اس طرح کے اللے تللوں کوسختی سے بندکرناچاہیے۔امراء کوچھوڑکر عوامی سطح پرزندگی کودیکھیے۔لاہور،اسلام آباد،کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں بڑے بڑے ہوٹل اورریستوران موجود ہیں۔کسی جگہ چلے جائیے۔ ریستوران بھرے نظرآتے ہیں۔ اگر آپ پہلے نشست مختص نہ کراوائیں توبیس منٹ سے لے کر چالیس منٹ تک انتظارکرناپڑتاہے۔کسی بڑے ہوٹل میں کمرہ بُک کراناچاہیں توپتہ چلتاہے کہ اگلے دس بارہ دن، کوئی بھی کمرہ خالی نہیں ہے۔
لاہورکھانے پینے کاگڑھ ہے۔کسی بھی ریستوران میں کھانا،پندرہ سوسے لے کر اٹھائیس سوسے قطعاًکم نہیں ہے۔معاف کیجیے۔یہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔اس کاکیامطلب ہے۔ایک تویہ کہ ہمارے عام طبقے کوبھی اپناطرزِزندگی بدلنے کی کوئی فکرنہیں ہے۔ہرطرف گاڑیوں اورموٹرسائیکلوں کاسیلاب ہے۔ پٹرول کے مہنگے ہونے سے کیا لوگوں نے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کااستعمال بندکردیاہے یاکم کردیاہے۔کم ازکم مجھے توایساکچھ نظرنہیں آتا۔کیاآپ نے عوامی سطح پرکبھی یہ سنا۔کہ آج سے ہم سائیکل استعمال کرینگے یاپبلک ٹرانسپورٹ۔
اخبارات اورٹی وی پردیکھیے تولگتاہے کہ ملک دیوالیہ ہوگیا۔عزتِ نفس کوگروی رکھ کربین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھیک مانگتے نظرآئینگے۔تمام عمائدین بھی آئی ایم ایف اورورلڈبینک کے سامنے مجبور نظر آتے ہیں۔مگرکیایہ بالکل عجیب بات نہیں کہ ہم حکومتی اورغیرحکومتی سطح پرکسی طریقے سے بھی سدھرنے کوتیار نہیں۔اخراجات کوکم کرناتودورکی بات۔ اخراجات کو معقولیت کی حدودمیں لانے کے لیے بھی رضا مند نہیں۔ ان چیزوں کی امپورٹ پرپابندی لگانا بھی گوارا نہیں، جن کے بغیربڑے آرام سے گزارا ہو سکتاہے۔
دراصل ہم قوانین قدرت کی نفی کررہے ہیں۔ اپنے عظیم دین کی انقلابی تعلیمات کو اپنانے کے لیے تیارنہیں۔ کوئی طبقہ بھی اپنے شاہانہ طرز ِزندگی کوتبدیل کرنانہیں چاہتا۔ اس طرح کی صورتحال میں اگرہم مزیدکئی بلین ڈالرقرض لے لیں، تب بھی معیشت اورمسائل جوں کے توں رہیں گے ۔ ہمارے وسائل کی بالٹی میں اتنے سوراخ ہیں کہ پوری دنیابھی ہماری امدادکوآجائے،پھر بھی ہمارے وسائل لایعنی معاملات پر خرچ ہوتے رہیں گے۔اصل مشکل ترین فیصلے ان چھیدوں کو بند کرنا ہے۔اس کے لیے ہمیں اقتصادی ماہرنہیں، بلکہ معمولی سوجھ بوجھ والے لوگ چاہییں۔مگریہ بازار میں نہیں ملتے انھیں کیونکر ڈھونڈاجائے۔اس کاکوئی فارمولا دنیا میں موجود نہیں۔ ہمارے حالات ایسے کے ایسے ہی رہیںگے!