ہم منگتے ہیں

دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں یہ صنعت پھل پھول رہی ہے



رمضان کی آمد سے چند روز قبل ملک کے دوسرے علاقوں سے پیشہ ورگدا گروں کی بھر پورکھیپ کی آمد شہرکراچی میں ایسے ہوئی جیسے ہر سال عید قرباں کے موقعے پر ملک کے گاؤں ، دیہاتوں سے قربانی کے جانور بڑے بڑے ٹرکوں اور ٹرالرزکے ذریعے فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے ان گدا گروں کی آمد کا سلسلہ جاری وساری ہے۔

گدا گروں کی آمد کا استقبال ہمارے مستند اخبارات شہ سرخیوں کی صورت میں حسب معمول کیا کرتے ہیں۔ یہ ایک منافع بخش کاروباری صنعت ہے۔ یہ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جس میں پیشگی سرمائے کی قطعا ضرورت نہیں پڑتی اور ساتھ ہی ساتھ ریاستی اداروں کے ملازمین کی بھی چاندی ہوجاتی ہے۔کسی بھی ریاستی اور جگا ٹیکسوں سے بھی مستثنٰی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب توکراچی کے علاوہ ملک کے دوسرے بڑے بڑے شہر بھی ہیں، جہاں مسلمانوں کی ہی آبادیاں ہیں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں صدقہ وخیرات ان کے بھی ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ یہ گدا گر ان شہروں کو نظر انداز کرکے کراچی کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ ہاں ذرا سوچنے کی بات ہے۔ ویسے تو ملک کے کونے کونے میں ایسے گدا گر مختلف روپ میں بازاروں، ٹریفک سگنلز، شاپنگ کے مراکز پر بھیک مانگتے ہوئے نظر آئیں گے۔

گدا گری ایک مخصوص ہنر ہے، اس کے بے شمار فنی طریقے اور مختلف روپ ہیں ، جس کو ہر عام آدمی سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس ضمن میں ایک گدا گرکاکہنا ہے کہ ہم دوسرے کے ایمان اور ذہانت سے کھیلتے ہیں اور جب تک اس دنیا میں دینے والے موجود ہیں، ہم اسی طرح سے ترقی کرتے رہیں گے۔ برخلاف اس حقیقت کے '' محنت میں عظمت و برکت ہے'' ، محنت کا معاوضہ کی ادائیگی میں لوگ حیل وحجت سے کام لیتے ہیں اور محنت کار سے پائی پائی کا حساب کرتے ہیں۔اسی تصورکو منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے لیبر پالیسی تشکیل دی تھی اور ملک میں تمام صنعتی اداروں کو سرکاری تحویل میں لے کر ان اداروں کی آمدنی کا حق مزدورں کو دیا تھا ، مگر افسوس کہ ان اداروں کو یونین بازی نے تباہ وبرباد کردیا۔ یہی طریقہ بعد میں آنے والی سلیکٹیڈ حکومتوں نے بھی اپنایا۔ ہر حکومت آتی ہے، خزانہ خالی ہے کا راگ الاپ کر بیرونی دنیا سے بھیک مانگ لی جاتی ہے اور اپنی خوب عیاشانہ زندگی بسرکرتے ہیں ۔ دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں یہ صنعت پھل پھول رہی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ یہاں کے لوگ خوشحال ہیں اور ہر شخص اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ اللہ کی راہ میں اپنے غریب بندوں کو بانٹ دیتے ہیں۔کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سرمائے کا حصول جیسی صنعت دنیا میں کہیں نہیں ملے گی۔ ترقی یافتہ دنیا نے شاید ابھی یہ مخفی راز نہیں جانا ہے۔اب آپ دیکھیے کہ ہماری سیلیکٹیڈ (selected) انٹرنیشنل بھکاری مقتدر حکومتیں ملکی سرمایہ خرچ کرنے کی بجائے بیرونی دنیا سے ڈالرکی بھیک قرضہ کی شکل میں مانگتے ہیں کیونکہ مانگنا ہماری فطرت وخون میں شامل ہے اور ہم کاروباری اور دولت کی ہوس کے پجاری ہیں۔ ہم مانگے بغیر دنیا میں survive نہیں کر سکتے۔ جب کہ اللہ نے ہمیں بے شمار قدرتی وسائل اور بے بہا دولت سے ہمکنارکیا ہوا ہے۔ان سب خداداد نعمتوں کے ہوتے ہوئے ہماری نظر دوسرے کی دولت پر رہتی ہے۔یعنی ہم دوسرے کا حصہ بھی اپنا حق سمجھ کرکھا جائیں، جب کہ اللہ پاک نے کسی کو بھی دنیا میں غریب پیدا نہیں کیا ہے۔ غریب ہیں تو ہم اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہیں۔

محنت میں عظمت و برکت ہے۔اللہ دے بند ہ نہ لے۔ہم خود کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ ہماری عادت ہے کہ ہائے ہائے کرتے رہیں اور جوکچھ بھی تھوڑا بہت دیا ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے صبرو قناعت سے کام لیں۔ حالانکہ دنیا میں سب سے بڑی دولت انسان کی صحت ہے۔ یہاں ہم نے جسمانی طور پر خوب صحت مند گداگروں کو بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ ہمارے کھانے کا انداز دیکھ لیں۔ ایسا معلوم ہوگا کہ ہم دنیا میں صرف نت نئے لگژری کھانے کے لیے ہی دنیا میں آئے ہیں۔ خوب رج کر بسیار خوری بھی کریں گے اور اشیائے خوردنی کو مال مفت، دل بے رحم کے مصداق دل بھرکر ضایع بھی کریں گے۔کھانا کھا کر اٹھیں گے ایسا معلوم ہوگا کہ ناجانے کونسی جنگلی اورحیوانی غیبی مخلوق کھانا کھاکرگئی ہے۔

حقیقت میں مسئلہ IMF سے قرضہ لینے کا نہیں ، یہ تو صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے بہترین ہتھکنڈے ہیں۔ ڈالرزکے سحر میں مبتلا ملک وقوم کی قسمت کے مالک، صاحبان مسند اقتدار اور اشرافیہ کی زندگی کا اصل معیار اور شناخت ہی''ڈالر'' ہے۔ ملکی کرنسی تو بیچارے ملک کے غریب محب وطن عوام کے استعمال کے لیے ہے، وہ بھی ریزگاری کی صورت میں۔ آپ کا معاشی زندگی کا معیارکس سطح کا ہے ؟ اس کی پیمائش کا موثر پیمانہ یا آلہ ''ڈالر'' ہی تو ہے۔ یاد رکھیے اگر آپ خوشحال زندگی کا خواب دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو دو چیزیں اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا ہوں گی ، بشرطیکہ آپ میں اس کے حصول کی جرات ہو۔آپ انگریزی فرفر بولنا جانتے ہوں ، بھلے لکھنے میں آپ بالکل ناکارہ ہوں اور دوسرا آپ کے جیب میں مقامی کرنسی کی بجائے ڈالرز ہوں۔

ہم نے اپنے ملک کے تمام وسائل اسی ڈالرزکے حصول ہی میں تو جھونک دیے ہیں۔ دوسری طرف ملک میں اسلام کا پرچارکرکے غریب عوام سے صدقہ وخیرات کی مد میں وصول ہونے والی خطیر رقوم کا اہم ذریعہ زکوہ وعشر، مزارات سے حاصل ہونے والے چندے اور عطیات جن کا کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ یہ رقوم کہاں جاتی ہیں؟ صوبائی اور وفاقی سطح پر قائم محکمہ مذہبی امور اور اوقاف سے پوچھا تو جائے کہ ان رقوم کا مصرف کیا ہے؟ ملک میں بے شمار مالیاتی فلاحی ادارے NGO کے تحت کام کررہے ہیں، ان کی آمدنی کا کیا حساب کتاب ہے؟ مختلف ٹرسٹ کے تحت مدارس اورگلی محلوںمیں عالیشان مساجد تعمیر ہو رہی ہیں۔ ان کے جمع شدہ فنڈزکا کیا مصرف ہے؟ جنرل ضیاالحق کے گیارہ سالہ دور اقتدار میں سیاستدانوں کو اقتدار میں حصہ دار بنا کرکاروباری مملکت کی بنیاد رکھی اور یوں مانگنے کے کاروبارکا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اب ماشااللہ اس مانگنے کی صعنت دن دگنی رات چوگنی ترقی کرچکی ہے۔ اللہ تعالی کی پاک ذات نے اس وطن کو ایسی ایسی اشیائے خوردنی سے نوازا ہے کہ پوری دنیا میں اس کی بے انتہا طلب ہے۔ صاحبان مسند اقتدار اور اشرافیہ

ان اشیائے خوردنی کو بیرون ممالک مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں اور ڈالرزکی کھیپ وصول کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہی اشیا جو ہمارے ہی ملک میں پیدا ہوتی ہے وہ ہم ڈالرکے بھاؤ خریدتے ہیں اور سہانے پر سہاگہ یہ کہ ہمیں کام کا معاوضہ یا کام کی اجرت یا تنخواہیں بھی ڈالرزکے مساوی ملنے کی بجائے پاکستانی ریزگاری میں ملتی ہے۔اسی قسم کی معاشرتی و معاشی نامطابقت انسان کو غلط کام کرنے پر لامحالہ اکساتی ہے جو مجموعی طور پرکرپشن کی زمرے میں آجاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں