خلیج فارس میں امریکی مداخلت
امریکی صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ کا سب سے معروف اور باوقار انسان نیتین یاہوکو قرار دیتا ہے۔
ایران کا شہر شیراز،ایتھینز آف ایشیا کہلاتا ہے۔ جہاں عمرخیام کو چھوڑکر سارے ادیب ، شاعر، محقق، ترجمہ نگار اور مصنف یعنی حافظ، سعدی،طاہر سمیت بے شمار عظیم انسان پیدا ہوئے۔ اسی ایران میں کبھی ابن رشدکو پناہ ملی توکبھی نشا پور سے عمرخیام کو بے دخل کیا گیا۔ان کی کتابیں مدارس میں پڑھانے پر پابندی لگائی گئی۔ قمری اور شمسی کیلنڈر عمر خیام کی ہی دریافت تھی ۔ انھوں نے یہ بتایا کہ سال میں 365 دن 5 گھنٹے اور 59 سیکنڈ ہوتے ہیں ۔
جسے آج بھی درست مانا جاتا ہے جب کہ اس وقت جدید سائنسی آلات بھی میسر نہ تھے۔ اسی ایران میں جب ڈاکٹر مصدق کی حکومت قائم ہوئی تو امریکی سی آئی اے نے مذموم سازشوں کے ذریعے انھیں اقتدار سے بے دخل کیا اور بادشاہ کو بلوا کر پھر سے مسند نشین کیا اور تیل کی پیداوار جسے ڈاکٹر مصدق نے قومیا لیا تھا کو ازسر نو نجکاری کی گئی۔ پھر جب ڈھائی ہزار سالہ انتہائی جبر واستحصال کی بادشاہت کے خلاف تودہ کمیونسٹ پارٹی نے بادشاہت کا تختہ الٹا تونئی حکومت نے منشیات فروشی کے الزام کے تحت پچاس ہزار افراد کو سزائیں دیں ۔
جس میں بیشتر رہنما اورکارکنان اسلامی مارکسسٹ پارٹی کے تھے جب کہ ساڑھے چار ہزار تودہ کمیونسٹ پارٹی کے عظیم رہنمااورکارکنان تھے۔اس عمل کو خودکمیو نسٹ پارٹی نے جزوی طور پر حکومت کی حمایت کرکے انھیں کمیونسٹوں کو قتل کرنے کا موقع فراہم کیا، جسے پارٹی نے بعد میں اپنی غلطی کو تسلیم کیا۔ شروع میں حکومت نے عوامی دباؤکی وجہ سے کچھ اداروں کو قومی ملکیت میں لیا ۔ لیکن بعد میں ان کی نجکاری کی گئی ۔ چند برس پہلے تہران کی تین بجلی کی سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کی گئی ۔اب بھی ایران میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی ہے۔
امریکی سامراج کے چونکہ مشرق وسطیٰ میں تیل کے مفادات ہیں۔اس لیے سعودی عرب ، عرب امارات ، قطر، اردن ، کویت، بحرین اور مصر میں تقریبا پانچ لاکھ سے زیادہ امریکی فوج موجود ہیں، یہاں مسلسل امریکی فوجی اڈے قائم ہیں۔ عرب بادشاہتیں اپنی بادشاہتوں کو طول دینے اور عوام پر جبرواستحصال قائم رکھنے کے لیے امریکی سامراج سے اربوں ڈالرکا ہتھیار خرید کر اپنی بادشاہت کو تحفظ دیتے ہیں۔اس لیے وہ مشرق وسطیٰ میں کسی بھی صورت میں اپنی بادشاہت کے خاتمے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ہیں۔ امریکا سے سب سے زیادہ اسلحہ اسرائیل ، سعودی عرب، عرب امارات ، بحرین ، مصر، اردن اورکو یت خریدتا ہے اور آج کل اسرائیل ، سعودی عرب کا اتحادی ہے۔ بقول پروفیسر نوم چومسکی کے امریکا نے اب تک 88 ملکوں میں براہ راست اور بالواسطہ طور پر مداخلت کرچکا ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران اور سعودی عرب نے مشرق وسطیٰ میں اپنی حکومتوں کے تحفظ کے لیے پروکسی وار شروع کر رکھی ہے ، لیکن امریکا کو ہزاروں میل دور سے آکر اسرا ئیل اور سعودی عرب کی حمایت کی کیا ضرورت پڑگئی۔ صرف تیل مفادات کے لیے بادشاہت کو دوام دے رہا ہے جب کہ وینزویلا،کیو با، بولیویا، شمالی کوریا ، چیچنیا، شام ، یوکرائن ، افغانستان اورعراق میں مداخلت کر رہا ہے۔ امریکی سامراج حال ہی میں خلیج فارس میں ایئرکرافٹ بردار بحری بیڑے کو لنگر اندازکرکے ایران کو تباہ کرنے کی دھونس دے رہا ہے۔ شمالی کوریا ، چین ، روس ، بیلا روس ، اٹلی نے ایران کے حق میں موقف اختیارکیا ہے ۔ یورپ کے چند ممالک چونکہ ایران سے تیل لیتے ہیں، اس لیے انھوں نے بھی ایران میں مداخلت کرنے کی مخالفت کی ہے۔
جاپان نے صلح صفائی کر نے کی بات کی ہے ۔ادھر حوثی باغیوں نے سعودی تنصیبات پر سات میزائل داغنے کا دعویٰ کیا ہے جب کہ بعض ممالک امریکا کوکہہ رہے ہیں کہ وہ ایران پر حملہ کردے۔ امریکا اب تک یہ کہتا آ رہا ہے کہ ہم ایران پر حملہ نہیں کررہے ہیں اگر ایران نے ہمارے مفادات کو نقصان پہنچایا تو ہم مناسب جواب دیں گے۔ اس وقت امریکا کے 68 بحری بیڑے سات سمندر میں گشت کر رہے ہیں جب کہ چین کے 12ہیں ۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ امریکا کے پاس اس وقت بیس ہزار سے زیادہ ایٹمی وار ہیڈ موجود ہیں جب کہ شمالی کوریا (سوشلسٹ) کے پاس صرف نو ایٹم بم ہیں۔ ایران کے پاس تو ایٹم بم ہے ہی نہیں ۔ جس طرح عراق میں مہلک ہتھیار رکھنے کے الزام میں صدر صدام حسین کو شہید کیا گیا تھا اسی طرح آج بھی ایران پر امریکا یہ الزام لگا رہا ہے کہ وہ عراق اور شام میں مدا خلت کررہا ہے ۔
جب کہ امریکا نے 1962میں انڈونیشیا میں 15لاکھ کمیونسٹوں ، انارکسٹوں ، سوشلسٹوں ، جمہوریت پسندوں اور سامراج مخالف عوام کا قتل عام کیا۔ چلی ، مشرقی یورپ، افریقہ، مشرق وسطیٰ لاطینی امریکا ، جنوبی افریقہ اور ہند و چین میں کروڑوں معصوم اور بے گناہ انسانوں کا قتل کیا۔ آج بھی افغانستان ، یمن ، پاکستان ، بحرین اور عرب بادشاہتوں میں براہ راست اور بالواسطہ وبلاوجہ امریکا بھیڑ اور بھیڑیا کے قصے کی طرح ایران ،کوریا،کیوبا، بولیویا اور وینیزویلا میں مداخلت کررہا ہے۔ سعودی عرب نے جو اسلامی اتحاد بنا رکھا ہے یہ اسلامی اتحاد نہیں بلکہ سعودی امریکی اتحاد ہے ۔امریکا نے بحرین میں بھی اپنا بحری بیڑا مستقل لنگر اندازکیا ہوا ہے۔ ایران میں امریکا براہ راست بمباری بھی کرچکا ہے جس طرح لیبیا میں کیا تھا ۔ شام میں امریکا نے برملا ڈیموکریٹک الائنس اور النصرۃ کو اسد حکومت کے خلاف رسد اور مالی امداد دے رہا ہے، عراق میں ایک عرصے تک داعش کی پرورش کی جیسا کہ پاکستان میں طالبان کی آبیاری کی گئی۔
اب وہ متعرض ہے کہ ایران، عراق اور شام میں مداخلت کررہا ہے۔ امریکا یہ تو بتائے کہ سات سمندر میں اس کے 68بحری بیڑے کیا کررہے ہیں؟ امریکی صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ کا سب سے معروف اور باوقار انسان نیتین یاہوکو قرار دیتا ہے جب کہ سارا یورپ بھی اس موقف سے اتفاق نہیں کرتا۔ پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ ایران کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کر کے تیل اور گیس کی پائپ لائن کو مکمل کرے ، بجائے اس کے کہ ایرانی سرحد پہ باڑ بنائے ۔ایرانی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایران میں موجود بائیں بازوکی تمام سامراج مخالف جماعتوں بشمول تودہ کمیونسٹ پارٹی، اسلا می مارکسسٹ پارٹی ، فدا ایں خلق اکثریت واقلیت اورصبح اسٹار پر سے پابندی ختم کرکے امریکی سامراج سے بھرپور مقابلہ کر ے اور جس طرح حزب اللہ نے جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوج کو مار بھگا یا تھا اسی طرح سے امریکیوں کو بھی مار بھگائے ۔ پاکستان کی تمام بڑی بڑی جماعتوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ خلیج فارس میں امریکی بیڑے کو دور رکھنے کا مطالبہ کریں اور ایران کی حمایت کا اعلان کریں۔