اپوزیشن کا مجوزہ اسلام آباد مارچ
اس متحدہ اپوزیشن کی اسلام آباد چڑھائی یا کسی دھرنے کو عمران خان کے دھرنے یا چڑھائی سے مماثلت نہیں دی جا سکتی۔
عام انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن اس بات کے حق میں تھے کہ متحدہ اپوزیشن مل کر نئے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیکر اسمبلیوں میں حلف لینے سے انکار کر دے۔ تا ہم پی پی پی نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ اس سے ملک میں جمہوریت کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے اور تیسرے فریق کو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا موقع مل جائے گا، بری سے بری جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے کے مصداق ان اسمبلیوں میں بیٹھ جانا چاہیے۔ دھاندلی کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر آواز اٹھانی چاہیے۔
پارلیمانی کمیشن بنوانے کے لیے دباؤ بڑھانا چاہیے۔ لیکن دس ماہ میں سوچ بدل گئی ہے۔ اب اپوزیشن حکومت گرانے کے لیے متحد ہو گئی ہے۔ لڑائی پارلیمنٹ سے باہر لڑنے پر اتفاق ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اسلام آباد پر چڑھائی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ رمضان کے بعد متحدہ اپوزیشن کی اے پی سی میں یہ فیصلہ ہو گا کہ حکومت کو گرانا ہے یا نئے انتخابات کا مطالبہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کان جدھر سے مرضی پکڑ لیں، پکڑنا تو کان ہی ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس متحدہ اپوزیشن کی اسلام آباد چڑھائی یا کسی دھرنے کو عمران خان کے دھرنے یا چڑھائی سے مماثلت نہیں دی جا سکتی۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ عمران خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مل کر 126دن تک اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ وہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ مانگتے رہے۔ وزیر اعظم ہاؤس پر چڑھائی کی۔ لیکن ملک میں جمہوریت کی گاڑی چلتی رہی۔ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہوا تو پھر موجودہ اپوزیشن کی اسلام آباد چڑھائی سے جمہوریت کو کیوں خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔ یہ منطق کیوں دی جا رہی ہے کہ اگر موجودہ متحدہ اپوزیشن نے اسلام آباد پر چڑھائی کی تو جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کے واضح خطرات موجود ہیں۔
اس ضمن میں ایک واضح فرق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب عمران خان نے نواز شریف کی حکومت کے خلاف اسلام آباد پر چڑھائی کی تھی تو وہ پارلیمنٹ میں سیاسی تنہائی کا شکار تھے۔ پارلیمنٹ میں موجود دیگر بڑی سیاسی قوتیں ان کے ساتھ نہیں تھیں۔ پی پی پی اپوزیشن میں ہونے کے باوجود اس دھرنے کے خلاف تھی۔جماعت اسلامی اپوزیشن میں دھرنے کے ساتھ نہیں تھی۔
ایم کیو ایم سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی عمران خان کے ساتھ نہیں تھیں۔ اس لیے عمران خان کو اپنے دھرنے کی حمایت کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری کی مدد لینی پڑی۔ جو نہ تو پارلیمنٹ میں موجود تھے اور نہ ہی پاکستان کی سیاست میں کسی بھی قسم کے اسٹیک ہولڈر تھے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے ان کی اہمیت بن گئی تھی اور وہیں تک محدود رہی۔ اس سے آگے نہ کچھ تھا اور نہ کچھ ہوا۔ اس لیے عمران خان کے 126دنوں کے دھرنے کی ناکامی کی بڑی وجہ عمران خان کی سیاسی تنہائی تھی۔ تب جمہوریت کے بچ جانے کی بڑی وجہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن اور حکومت کا اتحاد تھا۔
لیکن اس وقت اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر اسلام آباد پر چڑھائی کی منصوبہ بند ی کر رہی ہیں۔ عمران خان سیاسی تنہا ئی کا شکار ہیں۔ کل وہ پارلیمنٹ کے باہر سیاسی تنہائی کی وجہ سے پارلیمنٹ کو گرانے میں ناکام ہو گئے تھے۔ آج بھی وہ پارلیمنٹ میں سیاسی تنہائی کا شکار ہیں۔ ملک کی ایک بھی اپوزیشن جماعت پارلیمنٹ کے تحفظ میں عمران خان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لیے عمران خان کی سیاسی تنہائی ملک کے جمہوری نظام کو خطرات سے دوچار کرتی ہے۔
اپوزیشن کی مجوزہ اسلام آباد چڑھائی عمران خان اور طاہر القادری کی چڑھائی سے مختلف اور خطرناک بھی ہوگی۔ آپ دیکھیں اس میں مولانا فضل الرحمٰن شامل ہوںگے۔ سب جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی قوت میں مدارس اور مذہبی رحجانات کے حامل لوگ شامل ہیں۔ ان کے کارکن اور عام سیاسی جماعت کے کارکن میں بہت فرق ہے۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اسلام آباد کو لمبے عرصہ تک بند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے اس اسلام آباد مارچ میں مولانا فضل الرحمٰن اگلی صف میں ہوں گے۔ وہ کافی عرصہ سے اس اسلام آباد مارچ کی تیاری کر رہے تھے۔ انھیں ایک سیاسی حمایت کی ضرورت تھی۔ جو بلاول کے افطار ڈنر اور عید کے بعد ہونے والی اے پی سی سے مل جائے گی۔ اس لیے مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔
اس تناظر میں متحدہ اپوزیشن کے اس مجوزہ اسلام آباد مارچ کو کے پی سے بہت بڑی سپورٹ حاصل ہوگی۔ مولانا فضل الرحمٰن کو بھی بڑی حمایت کے پی سے حاصل ہے۔ یہ درست ہے کہ پورے پاکستان کے مدارس ان کے سیاسی بیس کیمپ ہیں۔ لیکن کے پی میں حمایت زیادہ ہے۔ اوپر سے اے این پی بھی اس میں شامل ہونے جا رہی ہے۔ آفتاب شیرپاؤ کی حمایت بھی ہے۔وہ بھی کے پی میں ہی ہیں۔اس تناظر میں کے پی سے آنے والے لوگ اس ممکنہ یا مجوزہ اسلام آباد مارچ میں کلیدی حیثیت رکھیں گے۔ ایک دفعہ آنے کے بعد انھیں واپس بھیجنا شائد اتنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ عمران خان کے حامیوں کی طرح نہیں ہوں گے۔ ان کا موڈ اور تربیت مختلف ہے۔
یہ درست ہے کہ ن لیگ اور پی پی بھی اس مارچ میں شامل ہوںگی۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں سیاسی طور پر بڑی جماعتیں ہونے کے باوجود اس دھرنے اور مارچ میں چھوٹی ہوںگی۔ ان کی سیاسی حیثیت بڑی ہوگی لیکن عددی طاقت کم ہوگی۔ یہ درست ہے کہ اگر متحدہ اپوزیشن نے اسمبلیوں سے استعفوں کا فیصلہ کیا تو ن لیگ اور پی پی پی کی حمایت ہوگی۔ کیونکہ پارلیمنٹ میں ان کے ارکان کی تعداد زیادہ ہوگی۔ پی پی پی کے لیے سندھ سے بہت زیادہ لوگ لانا ایک مسئلہ ہوگا۔ لیکن پھر بھی پی پی پی دو تین ہزار لوگ لے آئے گی۔ جب کہ ن لیگ کے لیے ایسے لوگ لانا ایک مسئلہ ہوگا جو اسلام آباد آکر بیٹھ جائیں۔ تا ہم ان کے ایسے لوگ زیادہ ہیں جن کی گونج زیادہ ہوگی۔ وہ شو کو سجا دیں گے۔
اگر یہ شو لگ گیا تو عمران خان پارلیمنٹ میں اکیلے رہ جائیں گے۔ اپوزیشن کی ایک بھی جماعت ان کے ساتھ نہیں ہوگی۔ اکیلی حکومت کیا پارلیمنٹ کو چلائے گی۔ پھر خدشہ ہے کہ اتحادی بھی ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ ساتھ نہیں چھوڑیں گے تو لڑائی میں نیوٹرل ہو جائیں گے۔ اگر اپوزیشن کے ساتھ استعفیٰ نہیں دیں گے تو گھر تو بیٹھ جائیں گے۔ ایسے ماحول میں عمران خان کی سیاسی تنہائی ملک کی جمہوریت کے لیے زہر قاتل بن جائے گی۔ ایسے میں ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔ اس لیے اپوزیشن کو کنٹینر اور پانی فراہم کرنے کی باتیں کرنے کے بجائے حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج حکومت کی معاشی اور سیاسی ناکامیوں میں اس کی اپنی غلطیاں ہیں۔ ورنہ انھیں بہت اچھی گیم بنا کر دے دی گئی تھی۔ اب ان سے گیم سنبھل نہیں رہی تو کسی کا کیا قصور ہے۔