تین کردار ایک کہانی
عدنان میندرس، ڈاکٹر مصدق اور مصر کے مرسی ایک ہی کہا نی کے مختلف کردار ہیں۔
ISLAMABAD:
عدنان میندرس، ڈاکٹر مصدق اور مصر کے مرسی ایک ہی کہا نی کے مختلف کردار ہیں۔ مسلمانوں کے پس ماندہ دنیا میں ایک ہی کہانی گزشتہ ایک صدی سے مختلف انداز میں دہرائی جا رہی ہے۔ کردار اور ملک بدل جاتے ہیں لیکن کہانی نہیں بدلتی۔۔۔ المناک داستان تاریخ اور جغرافیہ کی قید سے ما ورا، دنیا کے مختلف خطوں اور براعظموں میں دہرائی جاتی رہی ہے اور اب تک دہرائی جا رہی ہے۔
یہ داستان ہے مسلم اقوام کے دکھوں کی، آزادی اظہار کو سلب کرنے کی، روشن خیال اور جمہوری اقدار کا پرچار کرنے والی مٖغربی اقوام کے استحصال اور ظلم و جبر کی ... جو کبھی یورپ کے قلب، بوسنیا میں نمودار ہو جاتی ہے، کبھی افریقہ میں الجزائر کے جمہوریت پسند مسلمانوں پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑتی ہے اور اب تہذیب و تمدن کے سب سے بڑے مر کز افریقہ اور ایشیاء کے سنگم پر فراعنہ مصر کی سر زمین پر اس کہانی کا کلائمیکس ہونے جا رہا ہے۔ جہاں بہار عرب کے خوش رنگ لبادے میں جمہوریت کا کارواں اترا تھا جس نے عوامی طاقت کے بل بوتے پر حسنی مبارک کو ایوان اقتدار سے نکال کر پنجر ے کا قید ی بنا دیا تھا۔
بعد ازاں مصری فوج کے سربراہ جنرل عبد الفتاح السیسی نے عالمی طاقتوں کے آشیرباد سے منتخب صدر اعتدال پسند مرسی کو طاقت کے بل بوتے پر چلتا کیا اور اب مصر خانہ جنگی کے شعلوں کی نذر ہوا چاہتا ہے، اب تک سیکڑوں جمہوریت پسند مارے جا چکے ہیں۔ ہزاروں زخمی ہیں۔ مصری جیلوں کو سیاسی کارکنوں سے بھرا جا رہا ہے۔ جنرل عبدالفتا ح السیسی نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تیل اور اشیائے خورد و نوش کی قلت پیدا کی اور پھر مادر پدر آزاد افراد کے ذریعے تحریر چوک میں تین روزہ دھرنا دیا۔
مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کو جمہوریت پسند اور روشن خیال مغرب اور امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ عالمی ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے دکھاوے کی پاپندیاں لگا رہے ہیں لیکن درپردہ باغی مصری جنرل کی پشت بانی کی جا رہی ہے۔ کیونکہ مغرب اور اس کے سر پرست امریکا کے لیے جمہوریت اور جمہوری اقدار ٹشو پیپر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں، اپنے ادنیٰ مفادات کے لیے اعلیٰ جمہوری اقدار اور جمہوریت کو ایک چشم زدن میں مصلحتوں کی قربان گاہ پر ذبح کر دیا جاتا ہے۔
آج کل یہ کھیل قاہرہ میں ہو رہا ہے اور گئے سالوں میں یہی داستان تہران میں دہرائی گئی تھی۔ ایران کے منتخب وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق کی کہانی صدر مرسی سے بڑی مماثلت رکھتی ہے۔ وہاں پر برطانوی تیل تلاش کر نے والی کمپنی مدتوں سے بروئے کار تھی جو تیل کی پیداوار کا صرف 20فیصد حصہ ایران کو دینے کی پابند تھی، ڈاکٹر مصدق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد برطانوی کمپنی سے حساب کتاب کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ معاہدہ کے مطابق 20فیصد تیل کا حصہ دینے میں بھی بے ایمانی کی جا رہی ہے۔ جس پر قوم پرست مصدق نے تیل کی صنعت کو قومیانے کا اعلان کر دیا۔ جس کو ایران کی پارلیمان نے متفقہ قرارداد کے ذریعے منظور کر لیا جس کے بعد برطانوی خفیہ ادارے (M16) نے سی آئی اے کی مدد سے سازشیں کر کے ڈاکٹر مصدق کا تختہ الٹ دیا۔ جس کی تفصیلا ت 21 اگست 2013 کو سی آئی اے نے جاری کر دی ہیں۔ جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ برطانیہ کی درخواست پر سی آئی اے نے مصدق کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کامیاب سازش پر عملدرآمد کیا تھا۔ جس کے بعد ڈاکٹر مصدق کو تاحیات اپنے گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا اور انتقال کے بعد 1967میں اپنے ہی گھر میں انھیں خاموشی سے دفن کر دیا گیا کہ ان کا مزار مرجع خلائق بن سکتا تھا۔
1953 تک رضا شاہ پہلوی کی آئینی بادشاہت کی حیثیت علامتی تھی لیکن مصدق کا تختہ الٹنے کے بعد وہی رضا شاہ پہلوی 26 سال کے لیے مطلق العنان بادشاہ بن گئے۔ مصدق کی جمہوری حکومت کے خلاف ان سازشوں کے بارے میں 93 سالہ بوڑھی شہزادی اشرف پہلوی نے باضابطہ اشتہار دے کر اعتراف جرم کیا ہے۔ 19 اگست 1953کو تیل کے کھیل اور مفادات کے گھنائونے دور کا 26سال بعد 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کے عوامی انقلاب کے سا تھ ختم ہو گیا۔ جس کی صدائے بازگشت اب سی آئی اے کی دستاویزات میں سنائی دے رہی ہے جو جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی نیشنل سیکیورٹی آرکائیوز پر جاری کر دی گئی ہیں۔
اس طرح کا ڈراما انقرہ اور استنبول کے گلی کوچوں میں بھی ہوا تھا۔ پہلے منتخب ترک وزیر اعظم عدنان میندرس جمہوریت کے خلا ف ہونے والی بین الاقوامی سازشوں کا دوسرا شکار تھے، وہ 22 مئی 1950 سے 27 مئی 1960 تک ... دس برس وزیر اعظم رہے، اس دوران انھوں نے تین مرتبہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ان انتخابات پر بدترین دشمن بھی انگلی نہیں اٹھا سکے۔ انھوں نے اپنے انقلابی اقدامات کے ذریعے اندرون و بیرون ملک جشن برپا کر دیا۔ اتا ترک کے صنعتی انقلاب اور شہری سماج کے زنگ آلودہ منصوبوں کو شان و شوکت سے آگے بڑھایا کہ صنعتی پیداوار میں سالانہ 9فیصد اضافہ کیا۔ یہ ایسا ریکارڈ ہے جس کو آج تک نہیں چھوا جا سکا۔ خوشحالی کا یہ دور دورہ عالمی سامراجیوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ ان کے سیاسی حریفوں نے یہ الزام لگایا کہ میندرس اور استنبول ہنگامے پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ جس کا مقصد یونانی النسل باشندوں کو ہدف بنانا ہے۔
عدنان میندرس کو پہلے لندن میں ہوائی جہاز کے حادثے کے ذریعے ہٹا نے کی سازش کی گئی لیکن اس کریش میں عدنان میندرس معجزانہ طو ر پر محفوظ رہے جس میں 9مسافر اور عملے کے 5 ارکان مارے گئے تھے۔ اعتدال پسند میندرس کا جرم یہ تھا کہ اس نے اتاترک کے دور میں بند کی جانے والی مساجد کو کھولا، اذان پر لگا ئی گئی پابندی کو ختم کیا، غیر استعمال شدہ زمین کسانوں میں تقسیم کی، اس نے سیاستدانوں کی نوٹوں پر تصاویر چھپا نے کی روایت ختم کی پھر فوج نے ان کا تختہ الٹا دیا۔ عالمی سطح پر منصوعی شور شرابے کے باوجود انھیں دو سا تھیوں سمیت پھانسی دے دی گئی ۔
مسلم دنیا میں جمہو ریت کے خلا ف مختلف ادوار میں ہو نے والی سازشوں کا پلاٹ ایک ہی ہے۔ چند روز شور شرابا پھر دارالحکو مت پر ''عوامی قبضہ''گلی کوچوں میں غنڈہ گرد سماج دشمن عناصر کا قتل عام اور امن کی بحالی کے لیے فوجی مداخلت ایک ہی کہانی مختلف انداز اور پیرائے میں بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ اب تو ایک صدی بیت چلی لیکن ہمیں اس کھیل کی سمجھ نہیں آ رہی۔