کب تک آخر…
میاں صاحب نے بالآخر یہ کہہ ہی دیا کہ ہمیں بھارت پر تنقید کرنے سے گریز کرنی چاہیے.
ISLAMABAD:
ہماری مخصوص بھاشا میں اس وقت ایک بڑی تبدیلی کے آثار نمایاں ہوئے، جب میاں صاحب نے بالآخر یہ کہہ ہی دیا کہ ہمیں بھارت پر تنقید کرنے سے گریز کرنی چاہیے۔ ماضی قریب کے یہ شاید اس ملک کے پہلے سربراہ ہوں جنہوں نے جنگی جنون و بھارت دشمنی سوچ میں پہلا شگاف ڈالا ہو۔ اس سے قبل ایسی بات کرنا ناقابل معافی جرم تھا۔ خیر یہ بات زرداری صاحب کرتے تو ان پر غداری کے الزاموں کی بوچھاڑ ہوتی، چلو اُنھوں نے نہ کی، اِنھوں نے کی۔ دیر آید درست آید۔ یہ کسی بھی طرح بہت بڑی جرأت سے کم نہیں۔ تو گویا میاں صاحب اتنی بڑی بات کہنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ کم از کم اس حوالے سے ان کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی اور اس طرح اب یہ شواہد ملنے لگے ہیں کہ ہم اس بھنور سے نکلنے کے لیے صحیح سمت کی طرف بڑھنے کی سوچ و دور اندیش نظر رکھتے ہیں کہ ہم سوویت یونین کی طرح بکھرنا نہیں چاہتے، وہ کتنی ہی بڑی ایٹمی طاقت کیوں نہ تھا مگر اس کی معیشت وہ بوجھ اٹھا نہ سکی۔
اور تو اور جنہوں نے یہاں یہ دعویٰ کیا کہ ہم نے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دی، سچ تو یہ ہے کہ شکست تو خود سوویت یونین کو اپنی سوچ نے دی جس سے وہ اپنی نظریاتی ریاست کا تحفظ اور اپنے پڑوسی (Narrative) ممالک میں کٹھ پتلی حکومتیں قائم کرنا چاہتے تھے۔تو کیا میاں صاحب اپنے تیسرے دور حکومت میں وہی کام کرنا چاہتے ہیں جو گورباچوف نے گلاسونست و پیریسترویکا جیسی پالیسیاں متعارف کرا کے کیا تھا؟ دراصل ہوبہو یوں نہیں ہے اور نہ کبھی ہو بہو یوں ہوتا ہے۔ ہم اکثر اس مظہر کو ''تاریخ کا دہرانا'' کہتے ہیں۔ میاں صاحب ایسی جرأت رکھنے کی وجہ سے اپنا پچھلا دور آدھا بھی پورا نہ کر سکے تھے۔ مگر وہ اس اصول سے ہٹے نہیں۔ میاں صاحب یہ بات اکیلے سر کر بھی نہیں سکتے اور کریں گے بھی نہیں، یہ دراصل سب کو آن بورڈ لے کے کہی ہوئی بات لگتی ہے۔ کیونکہ ہمارے چیلنجز اب کچھ اور نوعیت کے ہیں جس پر اب تمام اسٹیک ہولڈرز متفق ہیں۔
کتنا اچھا ہو اگر یہ بات وہاں منموہن صاحب بھی کر دیں کہ انھیں بھی پاکستان پر تنقید کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ خیر وہ اگر ایسے نہیں بھی کہتے تو اتنے برے بھی نہیں۔ ہمارے میاں صاحب نے جب انھیں ان کے یوم آزادی پر مبارکباد بھیجی تو انھوں نے بھی فوراً انھیں بھی ہمارے یوم آزادی پر مبارکباد بھیج ڈالی، اور اس طرح کنٹرول لائن پر تازہ کشیدگی کی وجہ سے جو برف جم گئی تھی کسی قدر پگھلنے لگی۔ دونوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس کی مصروفیت سے ہٹ کر ملنے کا ارادہ بھی دکھایا۔ خود اس حوالے سے امریکا کے وزیر خارجہ کا شکریہ کہ جنہوں نے اس کشیدگی کو کم کرنے کے حوالے سے میاں صاحب کو فون بھی کیا تو ساتھ ساتھ بان کی مون کا بھی شکریہ کہ جو کشیدگی کے دنوں میں یہاں پر تھے۔ اور پھر کچھ ایسے عناصر بھی ہیں جو ہمارے اندر رہتے ہیں اور جب یہ دیکھتے ہیں کہ برف پگھل رہی ہے تو کبھی ممبئی اٹیک جیسے واقعے ہوتے ہیں تو کبھی کچھ اور ہو جاتا ہے۔ اب تو یہ بھانڈا بھی پھوٹ گیا کہ کس طرح ان کی ایجنسیوں نے اپنی پارلیمنٹ پر خود حملے کا ڈھونگ رچایا تھا۔ ان کا افغانستان میں پھیلا ہوا ایمبیسی کا طویل جال کس طرح پاکستان کے خلاف کام کرتا ہے، یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔
مگر ہندوستان میں ایک گاندھی جی بھی ہوا کرتے تھے۔ جب بٹوارے کے تحت ہمارے اثاثے دینے کا وقت آیا تو ولبھ بھائی پٹیل مکر گئے، تو خود نہرو جی خاموشی سے یہ تماشا دیکھتے رہے۔ گاندھی جی سے رہا نہ گیا انھوں نے اپنا احتجاج رقم کرانے کے لیے مرنے کی گھڑی تک روزہ رکھ ڈالا۔ ولبھ بھائی پٹیل اشتعال میں آ گئے اور بھری محفل میں یہ کہہ بیٹھے کہ ''اس بوڑھے نے ہمیں بہت تنگ کیا ہے'' ان کا یہ کہنا آر ایس ایس کے لیے سندیس تھا۔ ان زمانوں میں وہ پٹیل جی کو اس طرح مانتے تھے جیسے آج کل نریندر مودی کو مانتے ہیں، یا جیسے حال ہی تک ایڈوانی جی کو مانتے تھے۔ اور یوں گاندھی جی پاکستان کی وکالت کرتے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کاش کہ نہرو جی اتنے انا پرست نہ ہوتے، کشمیر محض اس لیے ہندوستان میں رکھنے کی ضد نہ کرتے کہ ان کے اجداد وہاں سے ہیں، ولبھ بھائی پٹیل نے بھی کہا جانے دو، مسلمانوں کی ریاست پر قبضہ کرنا تو کوئی دلی سے سیکھے۔ حیدر آباد دکن کی آزاد ریاست کا کیا ہوا، جوناگڑھ کے نواب کیسے پاکستان بھاگے، کیسے گوا پر فوج کشی کی گئی۔مگر اب یہ اکیسویں صدی کا تقاضا ہے، ہمیں ایک دوسرے کو خندہ پیشانی کے ساتھ تسلیم کرنا ہو گا۔ انھیں اکھنڈ بھارت، ہندوتوا، بندے ماترم جیسی توسیع پسندانہ سوچ سے نکلنا ہو گا، اور ہمیں لال قلعہ فتح کرنے کے خیال سے۔ ہاں یقیناً کشمیر متنازعہ مسئلہ ہے اور اسے بات چیت سے حل کرنا ہو گا اور اس کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کوئی اور نہیں بلکہ وہاں کے لوگ کریں گے۔
دراصل پاکستان کا دفاع ایک مضبوط معیشت بہتر انداز میں کر سکتی ہے، ہمیں اپنی ایٹمی طاقت کے دفاع کے لیے بھی ایک مضبوط معیشت کی ضرورت ہے۔ سوویت یونین جب اپنی پریشان حال معیشت کی وجہ سے اندر سے ٹوٹنے لگا تو اسے اپنے ہزاروں ایٹم بم بھی نہ بچا سکے۔ ہم ہندوستان سے زیادہ دیر اب دشمنی نہیں رکھ سکتے اور چین سے دوستی نہیں چھوڑ سکتے۔ آج بھی ہندوستان اور چین کے بیچ تجارت ہم سے زیادہ ہے، اور ان دونوں کے بیچ بہت سارے سنگین متنازعہ مسائل بھی ہیں۔ ہماری تجارت اگر ہندوستان سے ہو گئی تو اس سے ہمیں زیادہ فائدہ ہے، ہماری مجموعی پیداوار پر اس کے مثبت اثرات پڑیں گے۔وہاں ہندوستان کو خطرات کسی اور سے نہیں بلکہ نریندر مودی جیسے لوگوں کے خیالات سے ہیں۔ آج ہندوستان اپنے آئین میں کتنا بھی سیکولر کیوں نہ ہو۔ مگر اس کے سماج کے اندر مذہبی غیر رواداری اتنی ہی تھی جتنی ہمارے پاس تھی مگر ہمارے پاس اب اس حد تک بڑھی ہے کہ دنیا ہمیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتی۔ ہندوستان کے اندر اس کی جڑیں پاکستان دشمنی میں پڑی ہیں، اور ہمارے پاس انتہا پرستی کی جڑیں ہندوستان دشمنی میں پڑی ہیں۔
آیندہ آنیوالے پندرہ سال ہمارے مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں۔ ہمیں 8 فیصد شرح پر اپنی معیشت کو سالانہ بڑھانا ہے، وہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہمارے پاس امن ہو گا، ہم تیزی سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو ختم کر دیں گے۔ ہمارے ادارے بنتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ جمہوریت کا راستہ ہم نے اب نئے انداز میں اپنا لیا ہے۔ اور اگر ہم آنے والوں برسوں میں اس طرح بڑھتے ہیں تو ہماری مجموعی پیداوار دوگنی ہو جائے گی، اس طرح فی کس آمدنی دوگنی ہو جائے گی۔ انھیں اب یہ مان لینا چاہیے کہ ایک مضبوط پاکستان ہندوستان کی بقا کے لیے اشد ضروری ہے۔ آیندہ کے زمانے برصغیر کے زمانے ہیں۔ ہم دونوں میں بہت ساری چیزیں مشترک ہیں۔ ہم نے اکٹھے آزادی کی جنگ لڑی، مسلمانوں نے تو 1938 میں مسلم لیگ کو ہرا دیا تھا۔ لیکن کانگریس کی بنتی حکومت نے مسلمانوں پر باور کرا دیا کہ ہم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
1857 میں انگریز سامراج کے خلاف اٹھتی ہے تحریک، قیادت مسلمانوں نے کی تھی تو وہ اس وقت متحدہ ہندوستان کے لیے تھی۔ 1943 میں جب کہ ہندوستان چھوڑ دو تحریک کی قیادت ہندوؤں نے کی تھی۔ ہم کہیں دور تو نہیں گئے، آج بھی پڑوسی ہیں اور پڑوسی بدلا نہیں کرتے۔ تقسیم ہند پر جتنا خون بہا اس کا دکھ و پشیمانی ان کو بھی ہے ہم کو بھی۔ ہماری اردو کا جنم دلی میں ہوا تھا۔ کلاسیکل موسیقی جتنی ان کی ہے اتنی ہماری بھی۔ قرۃ العین بے چاری پاکستان آئیں اور آمریتیں دیکھ کر دلی کو ٹھکانہ بنا دیا، مسلمان تہذیب کے اتر پردیش میں زوال کو رقم کرتی رہیں، اور یوں کچھ سال پہلے اﷲ کو پیاری ہو گئیں۔ ہمیں اب ماضی کو ماضی بنانا ہو گا، اور آگے بڑھنا ہے۔ کیا کیا نہ کیا فرانس نے برطانیہ کے ساتھ یا جو دوسری جنگ عظیم جتنا وہاں خون بہا اس کی تو کوئی مثال نہیں ملتی، مگر آج جتنی افہام و تفہیم کے ساتھ وہ رہتے ہیں اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔