اور ایتھوپیا کو بھی مسیحا مل گیا
حالیہ منعقد ہونے والا فنڈ ریزنگ ڈنر بھی ان کے ایسے ہی اچھوتے اقدامات میں سے ایک ہے
یہ دنیا کا سب سے منفرد جب کہ ایتھوپیا کی تاریخ کا سب سے مہنگا ڈنر تھا۔ ایتھوپیا کے جواں سال اور پُرجوش وزیراعظم ایبی احمد ایک ایک مہمان کا خود استقبال کر رہے تھے۔ ڈنرکے دوران کسی مخصوص کرسی پر براجمان ہونے کے بجائے وہ ٹیبل کے گرد گھومتے ہوئے مہمانوں کو ٹھیک طرح سے کھانے کی پیشکش کرتے رہے۔ یہ ڈنر اس اعتبار سے بالکل منفرد تھا کہ دو سو سرمایہ داروں اور مختلف قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے اس میں شرکت کے لیے فی کس، ایک لاکھ تہتر ہزار ڈالرکی بھاری رقم ادا کی تھی۔
اَسّی سے زیادہ نسلی گروہوں اورخانہ جنگی کے حامل ملک، ایتھوپیا میں ایبی احمد نے اپریل2018 میں اقتدار سنبھالا تو ان کے ذہن میں''حقیقی'' تبدیلی کا پورا نقشہ موجود تھا۔ شرپسند عناصر نے ان کے نیک ارادے بھانپتے ہوئے کئی بار قتل کی منصوبہ بندی کی لیکن ایبی احمد ایتھوپیا کی قسمت بدلنے کے لیے زندہ بچ گئے۔
حالیہ منعقد ہونے والا فنڈ ریزنگ ڈنر بھی ان کے ایسے ہی اچھوتے اقدامات میں سے ایک ہے، جو وہ ایتھوپیا کو شدید بحران سے نکالنے کے لیے اب تک کرتے آئے ہیں۔ اس ڈنر سے انھوں نے خطے میں انفرااسٹرکچر کی بحالی کے لیے ایک بلین ڈالر کی بڑی رقم جمع کی ہے، جس کے لیے ان کا کہنا ہے کہ یہ رقم ایک تین سالہ منصوبے کی تکمیل پر لگائی جائے گی، جس میں دریاؤں کی صفائی، دارالحکومت میں خوبصورت عمارتوں کی تعمیر اور تفریحی پارکوں کا قیام شامل ہے۔ ڈنر کے بعد مہمانوں کا کہنا تھا کہ یہ ڈنر تو ایک بہانہ ہے، اصل میں تو ہم ایتھوپیا کے لیے امید کی کرن دیکھ کر بہت مطمئن ہوئے۔
ایتھوپیا سو ملین باشندوں کی سرزمین اور نائیجیریا کے بعد براعظم افریقا میں آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے، لیکن اس کی معیشت کی ترقی کی رفتار اس وقت خطے میں سب سے زیادہ تیز ہے، جس کا سہرا بلاشبہ نئے وزیراعظم کے سر جاتا ہے۔ ان کی اصلاحات دیکھ کر بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف ایتھوپیا ہی نہیں بلکہ افریقا کی تاریخ میں ایبی احمد جیسا ریفارمر پہلے کبھی نہیں آیا۔
ایبی احمد نہایت قابل اور تعلیم یافتہ وزیراعظم ہیں، جن کا سب سے بڑا مقصد ایتھوپیا کو نسلی گروہوں کی باہمی چپقلش سے نجات دلا کر پُرامن اور متحد ملک کی حیثیت سے ابھارنا ہے۔ اپنے منصب پر فائز ہوتے ہی انھوں نے ہزاروں سیاسی قیدیوں کی جیل سے رہائی کا حکم نامہ جاری کیا ۔ حکومتی سطح پر خواتین کو زیادہ نمائندگی دی اور خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کم بدعنوان ہوتی ہیں، اس لیے وہ ملک میں امن اور استحکام لانے میں زیادہ سے زیادہ مدد گار ثابت ہوں گی۔
حتٰی کہ وزیر دفاع جیسے حساس منصب پر بھی ایک خاتون کو فائز کیا گیا۔ یوں ایتھوپیا روانڈا کے بعد افریقا کا وہ دوسرا ملک بن گیا، جہاں وزراء کی کل تعداد کا نصف خواتین پر مشتمل ہے۔ چودہ سال قبل اس وقت کی ایتھوپین حکومت نے، اٹھارہ ماہ کی جیل کاٹنے کے بعد، اپوزیشن لیڈرکو امریکا جلاوطن کردیا تھا۔ ایبی احمد نے نہ صرف اس کو ملک واپس بلایا بلکہ قومی الیکشن بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے تعینات کر کے دنیا کو مزید حیرت زدہ کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ ایریٹیریا کے ساتھ سالوں سے جاری کشیدگی ختم کرنے اور مشترکہ سرحد دوبارہ کھولنے میں بھی ایبی احمد کا کردار سراہے جانے کے قابل ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے ملکی معیشت کو ریاستی گرفت سے آزاد کر کے پنکھ پھیلانے کے جو مواقعے فراہم کیے، ایتھوپیا کی سرزمین اس کے لیے ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔
ارومو قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایبی احمد نے جب وزارتِ عظمی کا منصب سنبھالا تو عوام سے ایک ہی وعدہ لیا کہ وہ'' زخم بھرنے کے لیے '' ان کا ساتھ دیں گے۔ زخم بھرنے کی اس اپیل کا ایتھوپیا میں خیر مقدم کیا گیا اور ایبی احمد نے بھی اس وعدے کو کسی قدم پر فراموش نہیں کیا۔ نہایت کم وقت میں انھوں نے ایتھوپیا کی قسمت بدلنے کے لیے جو سنجیدہ اور موثر اقدامات کیے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ان کا نام اس سال کے ٹائم میگزین میں سال کی سو با اثرترین شخصیات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ایبی احمد کی سمجھ داری ان کی عمر سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں تبدیلی کی خواہش کی قیمت ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں نے اپنا خون بہا کے ادا کی ہے۔
مسلمان باپ اور عیسائی ماں کے بطن سے جنم لینے والے ایبی احمد جاپان کی طرز پر ہتھیاروں کے بجائے دماغ کے استعمال پر زور دیتے ہیں ۔ انھوں نے 2010 میں اپنا سیاسی کیریئر شروع کیا اور کم وقت میں ہی دلوں میں گھر کر لیا۔ ملک کے سربراہ کی حیثیت سے وہ پُرامید بھی ہیں اور فکرمند بھی۔ ایک طرف امید ان کا حوصلہ بڑھاتی ہے تو دوسری طرف فکر انھیں تھک کر گرنے نہیں دیتی۔ ایبی کی تمام اصلاحات اور منصوبوں کے باوجود یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ ایتھوپیا میں بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ کرپشن کی جڑیں اندر تک پھیل چکی ہیں۔ خانہ جنگی کے باعث ذہین اور باصلاحیت باشندوں کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑکر جا چکی ہے۔ نسلی تنازعات اب بھی ایک بڑے خطرے کی صورت ایتھوپیا پر منڈلا رہے ہیں، لیکن وہ ان سب چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جس وقت ایبی احمد نے ایتھوپیا کا اقتدار سنبھالا اسی سال چند ماہ کے وقفے سے پاکستان میں بھی تبدیلی کے بلند بانگ دعوؤں اور وعدوں کے ساتھ عمران خان نے اقتدار سنبھالا۔ دونوں کا وزارتِ عظمٰی کے لیے یہ تجربہ پہلا تھا۔ ایبی احمد عمران خان سے عمر میں کم ہو کر بھی سمجھ داری میں بازی لے گئے اور اس بات کو بہ خوبی سمجھ کر میدان میں آئے کہ مملکتیں ذاتی تجربوں کی بھینٹ چڑھنے کے رسک کی متحمل نہیں ہوا کرتیں۔ کسی بھی ملک کے عوام اپنا ووٹ، حکم رانوں کی شکل و صورت دیکھ کر نہیں بلکہ ان کا وہ عزم، حوصلہ، ہمت، جنون، جذبہ اور اخلاص دیکھ کر دیا کرتے ہیں، جو کسی بھی معاشرے کو پستی سے اٹھا کر اوپر لے جانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ احمد ایبی ان صفات سے مالامال ہیں، ان کی صورت میں ایتھوپیا کو مسیحا مل گیا ہے، جو ان کے رِستے زخموں کو تیزی سے بھر رہا ہے لیکن ہم بہ حیثیت قوم اب تک کسی مسیحا کے انتظار میں ہی ہیں۔