تباہی سامنے مگر آنکھیں بند
ادھر اسی دور سے ہمارے طاقتور اداروں نے ملک کے ساتھ دو طرح کے گیم شروع کیے
ملک کے مختلف شہروں میں ینگ ڈاکٹرزکی ہڑتالیں سارا سال وقفے وقفے سے جاری رہتی ہیں۔ ایک طرف مریض علاج کے بغیر مر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف ینگ ڈاکٹرز تالیاں پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ اب چاہے کوئی صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت یہ پہلے '' سخت ایکشن '' کی دھمکی دیتی ہے پھر مذاکرات کرتی ہے پھر ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات مان لیتی ہے۔کچھ دن بعد ینگ ڈاکٹرز پھر ہڑتال پہ بیٹھے تالیاں پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ ادھر آئے دن ٹی وی پہ وکلا کبھی عدالتوں میں ججوں پہ حملے کرتے، کبھی سائلین اور کبھی پولیس کی پٹائی کرتے نظر آتے ہیں۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں سے مجرم ضمانت منسوخ ہونے پہ ٹی وی چینلوں کے کیمروں اور پولیس کے سامنے فرار ہوجاتے ہیں ۔ عام آدمی بے گناہ پھانسی پہ چڑھا دیے جاتے ہیں، 5 دن کی سزا پانے والے 6 سال جیل میں پڑے سڑتے ہیں اور یہ نظام انصاف کہتا ہے اوہ سوری غلطی ہوگئی۔ یہی نظام انصاف بڑے بڑے لٹیروں اور مجرموں کو ریلیف دینے کے لیے قانون کے باریک سے باریک نکتے پہ غورکرتا ہے یہ انھیں ایئرکنڈیشنڈ وی آئی پی جیلوں میں بھی چند ہفتوں سے زیادہ نہیں رہنے دیتا۔ ادھر ہر وہ شخص جو پچیس پچاس آدمی جمع کرسکتا ہے پورے ملک میں کوئی بھی شاہراہ، ہائی وے، مین ریلوے لائن دھرنا دے کر جب تک چاہے بند کروا سکتا ہے، اپنی گرفتاری کے لیے آنے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو الٹے پیروں بھاگنے پہ مجبور کرسکتا ہے اور حکومت صرف مذاکرات کر سکتی ہے۔
پورے ملک میں کوئی حکومت دکانداروں سے جلدی دکانیں نہیں کھلوا سکتی، پلاسٹک کی تھیلیوں پہ پابندی پہ عمل نہیں کروا سکتی، بجلی اورگیس کی چوری نہیں رکوا سکتی، کے الیکٹرک اور موبائل فون کمپنیوں کوکئی کئی سو ارب روپوں کا ٹیکس چوری کرنے سے نہیں روک سکتی۔ پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل پہ پوری دنیا میں چند سو ارب روپوں کی بھیک مانگنے والے اس ملک کے ہر سال کئی کئی سو ارب روپے لگ جاتے ہیں مگر نہ ہی ان سفید ہاتھیوں کی نجکاری کی جاسکتی ہے نہ ہی ان میں سیاسی اور لسانی بنیادوں پہ بھرے جانے والے ہزاروں کرپٹ اور نااہل لوگوں کو نکالا جاسکتا ہے کیونکہ یہ اپنی اپنی سیاسی مافیاؤں کے ساتھ احتجاج پہ اتر آئیں گے اور حکومت اپنے گھٹنوں پہ آ جائے گی، ان سے مذاکرات کرے گی اور ان کے تمام مطالبات مان لے گی۔
حکومت پورے ملک میں ایک سرکاری افسر کو بھی اپنا کام ایمان داری سے کرنے پہ مجبور نہیں کرسکتی۔ کوئی حکومت رمضان میں ناجائز منافع خوری نہیں روک سکتی۔ 2008 میں این آر او جمہوریت کے آغاز پہ 1947 سے 2007 تک پچاس سالوں میں 6 کھرب روپوں کا قرض چڑھا تھا جو زرداری حکومت کے 2013 میں اختتام پر 14 کھرب روپے ہو گیا۔ 2018 میں شریف حکومت کے اختتام پہ یہ قرضہ بڑھ کر31 کھرب روپے ہوگیا۔ اب ان قرضوں اور ان کا سود واپس کرنے کے لیے مزید کئی کئی کھرب کے قرضے لینے پڑ رہے ہیں مگر حکومت ان لوگوں سے نہیں پوچھ سکتی کہ یہ 25 کھرب روپے کہاں گئے کیونکہ جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ پورے ملک کے اداروں حتیٰ کہ بچے بچے کو پتہ ہے کہ کون سے چند سو لوگ ہیں جو کھربوں روپے لوٹ کر بیٹھے ہیں مگر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی، پورے ملک کو خون کے آنسو رونے پہ مجبور کیا جا سکتا ہے مگر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی البتہ عام بے گناہوں کو تھانوں میں الٹا لٹکایا جا سکتا ہے۔ ہر گروہ، ہر طبقے نے اپنی مافیا بنا لی ہے، ہر طرف مافیاؤں کا راج ہے، حکومت صرف مذاکرات کرسکتی ہے، یہ ملک ناقابل حکومت ہوچکا ہے۔
یہ ملک یہاں تک کیسے پہنچا؟ یہ ناقابل حکومت کیسے بنا؟ 1972 سے 1977 تک کے دور حکومت میں ایک طرف قوم میں ڈسپلن اور نظم و ضبط ختم کیا گیا تو دوسری طرف صنعتوں، بینکوں اور دوسرے مالیاتی اداروں کو قومیا کر ان میں لسانی اور سیاسی تعصب کی میرٹ پہ کرپٹ اور نااہل لوگ بھرکر معاشرے میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا رواج شروع کیا گیا تو تیسری طرف تعلیمی اداروں کو قومیا کر تعلیم کا بیڑہ غرق کیا گیا تاکہ پاکستان ترقی یافتہ صنعتی ملک نہ بن سکے بلکہ ہمیشہ پسماندہ، جاگیردارانہ معاشرہ رہے۔ پریس کا گلا گھونٹا گیا، ہزاروں سیاسی مخالفین کو دلائی کیمپ اور شاہی قلعہ لاہور کے عقوبت خانوں میں ٹھونسا گیا۔ انتخابات میں بڑے پیمانے پہ دھاندلی کروائی گئی اور احتجاج کرنے والے پاکستانیوں میں سے سیکڑوں کو شہید کیا گیا۔
ان سیکڑوں شہیدوں کا یہ میڈیا کبھی ذکر نہیں کرتا۔ 1977سے 1988 کے دور حکومت میں نہ صرف بڑے پیمانے پہ کرپشن کی کھلی چھوٹ دی گئی بلکہ اس معاشرے پہ ناقابل تلافی یہ ظلم کیا گیا کہ اسلام کے ایسے خود ساختہ ماڈل کو فروغ دیا گیا کہ جس میں آپ جتنی چاہے کرپشن کریں، ظلم کریں، قتل کریں اور کروائیں، قبضے کریں اور کروائیں، بے ایمانی، ناانصافی جو چاہے کریں پھر عمرہ کر لیں، فلاں فلاں عبادت کرلیں، فلاں فلاں مذہبی تقریب منعقد کرالیں، فلاں فلاں ظاہری علامات جسم اور لباس پہ سجا لیں آپ کے سارے گناہ معاف، تمام زیادتیاں معاف، سارا حرام حلال۔ اسی دور میں ملک میں افغان مہاجرین، منشیات اور اسلحہ پھیلا دیا گیا۔ پاکستانی معاشرے کی مکمل تباہی اسی دور سے شروع ہوئی۔
ادھر اسی دور سے ہمارے طاقتور اداروں نے ملک کے ساتھ دو طرح کے گیم شروع کیے۔ ایک تو یہ کہ مختلف مذہبی اور لسانی تنظیمیں بنائی گئیں، انھیں فروغ دیا گیا یہاں تک کہ یہ مسلح تنظیموں میں ڈھل گئیں اور انھوں نے ملک میں تشدد کی کارروائیاں شروع کردیں۔ ہمارے طاقتور ادارے کبھی ایک کی سرپرستی کرتے کبھی اسے دوسرے سے لڑواتے، تیسرے کو ہشکارتے۔ ان کا خیال تھا کہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا اور بس عام پاکستانی مارے جاتے رہیں گے مگر پھر یہ مسلح تنظیمیں جب طاقتور، اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں کے درپے ہوئیں تو یہ ان کی بیخ کنی پہ مجبور ہوئے۔ اسی طرح کبھی ایک کرپٹ سیاسی مافیا کی سرپرستی کی کبھی دوسرے کی۔ کبھی ایک سے ڈیل کی کبھی دوسری کو این آر او دیا۔ 2008 سے 2018 تک ایسی بے حساب اور بے مثال لوٹ مار کی گئی ۔
12 مئی 2007 اور پھر 27-28 دسمبر 2007کو طاقتور اداروں نے سیاسی مافیاؤں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دی۔ 27 اور 28 دسمبر 2007 کو طاقتور اداروں نے سیاسی مافیاؤں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دی۔ 27 اور 28 دسمبر 2007ء کو سیاسی مافیاؤں کے مسلح جتھوں نے پورے ملک خصوصاً سندھ اور بالخصوص کراچی میں ہزاروں گاڑیاں، سرکاری و نجی املاک جلائی اور لوٹیں، سیکڑوں بے گناہوں کا قتل عام کیا جس کا یہ میڈیا کبھی ذکر نہیں کرتا۔ 2008 سے اب تک لاکھوں اسلحہ لائسنس بانٹے جا چکے ہیں۔ ملک ناقابل حکومت ہوچکا ہے۔ موجودہ سیاسی، انتظامی اور قانون اور انصاف کا نظام مکمل طور پہ ناکام ہوچکا ہے اس نے ملک کو مکمل تباہی کے دہانے پہ پہنچادیا ہے۔ اس نظام اور ان سیاسی مافیاؤں کے ساتھ ملک مزید نہیں زندہ رہ سکتا۔ طاقتور اداروں، نظام انصاف کے اعلیٰ ترین عہدیداروں اور عمران خان کو بیٹھ کر ملک کو چلانے کے لیے نیا نظام وضع کرنا ہوگا۔ اب بھی اگر تمام مافیاؤں کے ساتھ سختی نہیں کی گئی تو ملک کی مکمل تباہی کوئی نہیں روک سکے گا۔ ناقابل حکومت ملکوں کے ناقابل تسخیر دفاع نہیں ہوتے ایسے ملک خود ہی اندر سے ڈھے جاتے ہیں۔