چوہدری برادران کو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پل بننا ہو گا
ق لیگ کی عددی اہمیت کے باوجود چوہدری برادران ملک کے سیاسی منظر نامہ پر اپنا بھر پور کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) اس حکومت کی سب سے اہم اتحادی ہے۔ جہاں مرکزی حکومت میں بھی ق لیگ کے ووٹوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ وہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ق لیگ کے ووٹوں پر ہی قائم ہے۔ اس لیے اگر آج ق لیگ پنجاب اور مرکز سے اپنی حمایت ختم کرتی ہے تو قوی امید ہے کہ پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت گر جائے گی۔ تا ہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ق لیگ اپنی اس سیاسی طاقت کو بھر پور استعمال نہیں کر رہی ہے بلکہ وہ تحریک انصاف کی ایک ذیلی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔
ق لیگ کی عددی اہمیت کے باوجود چوہدری برادران ملک کے سیاسی منظر نامہ پر اپنا بھر پور کردار ادا نہیں کر رہے ہیں۔ق لیگ کی پارلیمنٹ میں عددی حیثیت اتنی اہم ہے کہ چوہدری مونس الہی کی وزارت تو ایک طرف ق لیگ اقتدار میں جتنا حصہ چاہے حاصل کر سکتی ہے۔ لیکن ق لیگ ایسا نہیں کر رہی ہے۔
چوہدری شجاعت حسین نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ ملک میں موجود تمام بڑی جماعتوں بالخصوص جو پارلیمنٹ میں موجود ہیں ان سے درخواست ہے کہ وہ اپنی پارٹیوں سے بالاتر ہو کر بیٹھیں اور معیشت کی بحالی کے ایجنڈا پر غور کریں۔چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر ملک کے معاشی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اہم مسائل کے حل کے لیے فوج اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب پارلیمنٹ بھی اپنا کردار ادا کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری شجاعت حسین نے ملک کے موجودہ سیاسی منظر نامہ میں ایک مثبت بات کی ہے۔
ملک اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا ہے۔ کہ اب برداشت سے باہر ہو گیا ہے۔ یہ حکومت بھی ابھی تک کوئی واضح معاشی پلان سامنے نہیں لا سکی ہے۔ غریب اور مڈل کلاس کو مارا جا رہا ہے۔ ٹیکس اور شرح سود بڑھائی جا رہی ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے۔ ڈالر کی اڑان کسی کے قابو میں نہیں ہے۔ اسٹاک ایکسچینج گر رہی ہے۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ قرضے ملنا بھی مشکل ہو گئے ہیں۔ ایک عام تاثر یہی ہے کہ اس حکومت سے ملک کی معیشت سنبھل نہیں رہی۔ اسی لیے معاشی ٹیم بدلی گئی ہے۔ اور ماضی کی حکومت کی ٹیم مستعار لے لی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے نمائندوں کو کلیدی عہدوں پر لگا دیا گیا ہے۔
ایسے ماحول میں ملک کی بڑی اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف ایک بھر پور تحریک چلانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ ایک افطار ڈنر کی بہت بازگشت ہے۔ سیاسی محاذ آرائی اپنے عروج پر ہے۔ حکمران جماعت نے سیاسی تناؤ کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ ملک میں سیاسی ڈائیلاگ ممکن نہیں ہے۔ حکمران جماعت نے ملک میں لڑائی مار کٹائی کا ماحول بنا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے تمام سیاسی قوتیں ایک دوسرے کی دشمن بن گئی ہیں۔ ایسے ماحول میں چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے یہ بات کہ ملک کو ایک وسیع ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔عقل و دانش کی بات ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ حکومت کو اس بات کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ اسی لیے تو کہا جا رہا ہے کہ اس حکومت کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہے یہ حکومت خود ہی اپنی دشمنی کے لئے کافی ہے۔
اس وقت چوہدری برادران کو ملک کے سیاسی منظر نامہ میں یہ ممتاز مقام حاصل ہے کہ وہ سب کو قابل قبول ہیں۔ وہ حکومت کو تو قابل قبول ہیں اسی لئے حکومت میں شامل ہیں۔ حکومت کے اتحادی ہیں۔ وہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی قابل قبول ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ چوہدری برادران اپنی سیاست کی وجہ سے سب کے پسندیدہ ہیں۔ وہ آج حکومت کے اتحادی ہیں، اس میں تحریک انصاف اور عمران خان کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ چوہدری برادران کی حکمت ودانش ہے کہ وہ ملک میں استحکام چاہتے ہیں۔ شاید تحریک انصاف میں اتنی سیاسی سمجھ بوجھ نہیں تھی کہ وہ چوہدری برادران کی اہمیت کا ادراک کرسکیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ق لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو رہی تھی تو تحریک انصاف کے بعض ناعاقبت اندیش ہی اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ آج مرکز اور پنجاب کی حکومتیں اسی ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے قائم ہیں۔
حکومت کی بات تو الگ ہے چوہدری برادران اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو بھی مکمل طور پر قابل قبول ہیں۔ وہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ن لیگ کو بھی مکمل طور پر قابل قبول ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن ن لیگ انتخابات کے بعد چوہدری پرویز الٰہی کو غیر مشروط پر پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کے لئے تیار تھی۔ اس ضمن میں آصف زرداری بھی تیار تھے۔ انہوں نے بھی گرین سگنل دے دیا تھا کہ اگر چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا یا جاتا ہے تو پنجاب کی پی پی پی کے ایم پی اے بھی ان کی حمایت کریں گے۔ ایسے میں وزارت اعلیٰ چوہدری پرویز الہیٰ کی میز پر موجود تھی۔ لیکن انہوں نے تحریک انصاف کے لئے قربانی دے دی۔ یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف کو اس قربانی کا احساس نہیں ہے۔ سیاست میں ایسی قربانیوں کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔
آج بھی وزارت اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے ہاتھ میں ہے۔ ن لیگ نے اپنی قیادت کو ق لیگ اور چوہدری برادران کے بارے میں کسی بھی قسم کی بیان بازی سے روکا ہوا ہے۔ حتیٰ کے پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کو بھی چوہدری برادران پر کسی بھی قسم کی تنقید سے منع کر دیا گیا ہے۔ شائد اپوزیشن کو ان کی سیاسی پوزیشن کا احساس ہے۔ اس لئے چوہدری برادران آج بھی پوری اپوزیشن کو قابل قبول ہیں۔
اس تناظر میں میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری برادران کو اپنی اس خاص سیاسی صلاحیت کو سمجھنا ہوگا۔ شاید کہیں نہ کہیں چوہدری شجاعت حسین کو اس کا احساس ہو گیا ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامہ میں ق لیگ کی قیادت کو ثالث بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ثالث بننے سے ان کا کردار وسیع سے وسیع ہوتا جائے گا۔ چوہدری برادران کو اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہیٰ مل کر حکومت اور اپوزیشن کو ایک میز پر لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ان کا گھر ایک ایسا مقام ہو سکتا ہے جہاں حکومت اور اپوزیشن مل کر بیٹھ سکتے ہیں۔ اس تناظر میں چوہدری شجاعت حسین کا حالیہ بیان بہت اہم ہے۔ شاید انہیں کہیں نہ کہیں اپنی اس خاص سیاسی پوزیشن کا احساس ہے اور وہ اس کے لئے ماحول بنا رہے ہیں۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ آج ہی فوری ممکن ہو جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اپوزیشن اس وقت عید کے بعد احتجاج سے باز نہ آئے۔ حکومت کی معاشی ناکامیاں اپوزیشن کو احتجاج کی دعوت دے رہی ہیں۔ ایسا احتجاج اپوزیشن کی سیا سی ضرورت بھی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں حکومت نے اپوزیشن کو جس قدر دیوا ر سے لگا یا ہے اس سے نکلنے کا بھی واحد راستہ یہی ہے کہ اپوزیشن بند خول سے باہر نکلے۔ اور حکومت کو چیلنج کرے۔ اس لئے شاید عید کے بعد احتجاج کو روکنا ابھی ممکن نہیں۔ لیکن احتجاج شروع ہونے کے بعد اس ا حتجاج کو ختم کرنے کے لئے بھی سیاسی مذاکرات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت چوہدری برادران کا کردار اہم ہوگا۔
اس لئے میری تجویز ہو گی کہ چوہدری برادران کو اپوزیشن نمائندوں سے ملاقاتیں شروع کرنی چاہئے۔ یہ ان کی سیاسی روایت رہی ہے۔ ان کا گھر سب کے لئے کھلا رہا ہے۔ انہیں آصف زرداری سے ملنا چاہئے۔ مولانا فضل الرحمٰن سے ملنا چاہئے۔ سراج الحق سے ملنا چاہئے۔ اسفند یار ولی خان سے ملنا چاہئے۔ اگر ن لیگ سے ملنے میں تحفظات ہیں تو اس میں احتیاط برتی جا سکتی ہے۔