ایک نیا رخ
پاکستان اور چین کی دوستی کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ یہ منفی پہلو بھی سامنے آرہا ہے۔
گزشتہ ماہ وزیر اعظم نے چین میں گول میزسیشن سے خطاب کرتے ہوئے، چین کا پہلا شراکت دار ہونے کو جہاں پاکستان کی خوش قسمتی قرار دیا، وہاں انہوں نے پاکستانی ترقی اور صورتحال کے بارے میں بھی بے حد خوش آئند صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے جو بے حد اہم بات فرمائی، وہ یہ کہ سی پیک محض ٹرانسلیشن نہیں بلکہ ہمارے پورے معاشرے کی تبدیلی کی علامت بن گیا ہے ۔
جب ہم نے یہ بیان پڑھا، اس وقت سے ہم سوچ رہے تھے کہ برصغیرکا معاشرہ انگریزوں کے آنے سے بھی تبدیل نہیں ہوا تھا مگر اس تبدیلی کی رفتار اتنی تیز نہ تھی، جتنی کے اب ہوتی محسوس ہورہی ہے کیونکہ یہ دور ہے '' دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا '' کا ہے ۔
انگریزوں کے آنے سے قبل بھی کھاتے پیتے گھرانوں میں خاص کر مغل شہزادوں اور شہزادیوں کی سالگرہ ہوتی تھی مگر اس میں ناداروں اور غربا کوکھانے کھلائے جاتے تھے۔ان کی ضروریات کو پورا کیا جاتا تھا جس کی سالگرہ ہوتی اس کوکسی بھی اناج یا دھات میں تولہ جاتا اور یہ اشیا غرباء میں تقسیم کردی جاتیں اور یہ سالگرہ بلا کیک منائی جاتی تھی۔ ایسے علاقوں میں جہاں انگریزوں کا اثرکچھ دیر میں پہنچا، وہاں تو بعد میں بھی بچے کو اناج میں تولہ جاتا رہا ہے۔
شادی کے موقعے پر مایوں، نکاح ، چوتھی کے دیسی طریقے چلتے رہے اور اب ساری روایتی رسومات کے ساتھ برائیڈل شاور ، بے بی شاور، منگنی کی انگوٹھی کے بغیر رشتہ طے ہی نہیں ہوتا اور وہ بھی جبتک لڑکا خود اپنے ہاتھ سے لڑکی کو نہ پہنا دے۔ معاشرہ تبدیل ہوا تھا برصغیرکے لڑکوں نے برطانوی خواتین سے شادیاں بھی کیں، ظاہری اور خفیہ بھی کہنے کا مطلب یہ ہے جب کسی قوم پر بیرونی قوم حاکم بن کر رہے تو معاشرہ کچھ نہ کچھ تبدیل ضرور ہوتا ہے کہ غلامی ایسی ہی صورتحال پیدا کر دیتی ہے۔
ڈیڑھ صدی سے زیادہ کی جدوجہد کے بعد بالآخر اس غلامی سے نجات پانے میں بڑی قربانیوں کے بعد کامیاب تو ہوگئے مگر نصف صدی بھی اپنی آزادی برقرار نہ رکھ سکے۔اس دورکی صورتحال چونکہ زیادہ پرانی نہیں، اس لیے اس کا ذکر چھوڑ کر موجودہ صورتحال پر غورکرتے ہیں کہ آج ہم پھر ایک قوم کو با رضا و رغبت خود پر مسلط کرنے جا رہے ہیں ، محض اپنے اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لیے جبکہ آزادی کے بعد اگر ہم کان کنی، ڈیم بنانے جدید اور ضروری تعلیم کے علاوہ بنیادی تعلیم کو لازمی قرار دے کر اور معاشرے کے تمام ضروری ہنر اپنے شہریوں کو سکھاتے تو آج ہم اللہ تعالی کے دیئے ہوئے خزانوں پر متصرف ہوتے۔ نہ بجلی، نہ گیس ، نہ پانی کی کمی کا شکار ہوتے۔ ہمارے میدانوں ، پہاڑوں ، سمندر میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ ہم ناصرف آج بلکہ آئندہ کئی صدیاں آرام سے خوشحالی کی زندگی بسرکرتے مگر افسوس اول تو ہم نے تعلیم اور ہنر پر توجہ ہی نہ دی اور نہ اللہ کی عطا کردہ دولت کو تصرف میں لائے اگرکچھ کیا تو غیر ملکی ماہرین کے ذریعے جن کو تمام مراعات دی گئی۔
جب پہلا ڈیم بنا تھا تو سنا ہے کہ کئی سو پاکستانی انجینئر باہر سے اس ٹیکنالوجی کی ٹریننگ لے کر آئے تھے ان کے ہوتے ہوئے دوسرا کوئی ڈیم نہ بنا بلکہ کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو سیاست کی نذرکر دیا گیا۔ چلیے یہ تو ہوا مگر کیا ہم ان انجینئرزکو پاکستان کے مختلف انجینئرنگ کالجز اور یونیورسٹیوں میں ایسا شعبہ قائم کرکے ان کے ذریعے مزید طلباکو ڈیم ٹیکنالوجی کی تعلیم دے کر اور ان کے ذریعے مزید طلبا کوکالج اور یونیورسٹی سے ہر سال کم ازکم بیس پچیس ماہرین ڈیم ٹیکنالوجی میں پیدا نہیں کرسکتے تھے اور اب سی پیک کے ذریعے ہرکام کے لیے چینی ماہرین کی خدمات حاصل کرکے خود پر انہیں مسلط کر رہے ہیں اور اپنا معاشرہ پوری طرح تبدیل کروا رہے ہیں یہ جو چینی لڑکوں سے شادی کا مسئلہ اٹھا ہے۔
یہ صورتحال بتا رہی ہے کہ ملکی ترقی کی آڑ میں طرح طرح کے معاشرتی، جرائم جنم لے رہے ہیں اور لیں گے اور یوں بقول وزیراعظم ہمارا پورا معاشرہ بدل جائے گا اور ایسا کہ ہم اپنا پورا ماضی بھول جائیں گے، ابتداء میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ گوادرکی بندرگاہ پرکام ہونے سے ہمارے لوگوں کو روزگار ملے گا مگر ایسا ہوا نہیں کیونکہ چائنا نے بڑے سے بڑے کام کے لیے اپنے ماہرین کے علاوہ مزدور بھی اپنے ہی اس کام پر لگائے ہیں ،انہوں نے اپنے یہاں کی بیروزگاری پر تو بڑی حد تک قابو پالیا ہے، مگر پاکستان میں روزگارکے مواقعے جیسا کہ امید کی جا رہی تھی اب تک حاصل نہیں کیے جاسکے۔ ہاں چین ہمارے اپنے معاشرے میں جو جرائم تھے وہ تو تھے ہی اس کے علاوہ چین سے بھی ایسے افراد بڑی تعداد میں پاکستان کے مختلف شہروں میں باآسانی آ رہے ہیں ،کچھ عرصہ پہلے اے ٹی ایم کا واقعہ سامنے آیا تھا۔
اس میں بھی چین کے افراد ملوث تھے وہ تو ایک عام سا واقعہ تھا۔اب پاکستانی لڑکیوں سے شادی کا معاملہ سنگین صورت اختیارکرگیا ہے۔ اس کو بہت اہمیت دینی چاہیے اور اس کا فوری طور پر مناسب حل نکالنا چاہیے ۔ پاکستان میں شادیوں کو ایک مسئلہ بنا لیا گیا تھا ،اس کی وجہ سے بھی یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے، اگر اسلامی طور طریقوں سے بلا اخراجات ، سادگی سے شادیوں کا رواج عام کیا جاتا تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ اس سلسلے میں ہمارے علما کو آگے بڑھ کر اسلامی اصولوں اور سادگی کو منظر عام پر لاکر شادیوں کو آسان بنانا چاہیے جب ہمارے ہاں سادگی سے نکاح اور بغیر جہیزکے شادیاں ہوگی تو پھر ہمیں اس طرح کی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
امید ہے کہ حکومت وقت اور علمائے کرام اس مسئلے کو بہت جلد طے کرکے اپنی بچیوں کو غیر مناسب صورتحال سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں گے،اس سے قبل بھی چائنہ میں دوسرے غریب ممالک کی خواتین کے ساتھ اسی طرح کے فراڈ سامنے آ چکے ہیں اور اب انہوں نے پاکستان کا رخ کیا ہے یعنی پاکستان اور چین کی دوستی کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ یہ منفی پہلو بھی سامنے آرہا ہے۔ اس صورتحال پر نہ تو پاکستانیوں کو اور نہ ہی حکمرانوں کو خاموشی اختیارکرنی چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی قوم صرف فرشتوں یا صرف شیطانوں پر مشتمل نہیں ہوتی ہے بلکہ ہر قوم میں اچھے برے افراد ہوتے ہیں، لہذا پوری چینی قوم کو اس صورتحال کا ذمے دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔