غزل
سادہ سا اِک سوال ہے، بس غور چاہیے
اِک چیز میرے پاس ہے اِک اور چاہیے
میں ہوں! مجھے یقین ہے، لیکن مرا وجود
پہچاننے کے واسطے اِک دور چاہیے
میں دست یاب تو ہوں مگر اُس طرح نہیں
دنیائے رنگ خیز کو جس طور چاہیے
اِک دن ملے گا حکم کہ گھر چھوڑ دیجیے
اب تم نہیں یہاں پہ کوئی اور چاہیے
کس کس کو انتظار پہ مائل کروں علی
جس جس کو جو بھی چاہیے فی الفور چاہیے
(علی شیران۔ شورکوٹ، جھنگ)
۔۔۔
غزل
جدید دور سے، چنگھاڑتی مشینوں سے
مکاں ڈرے ہوئے رہتے ہیں اب مکینوں سے
یہ خواب آج جو آنکھوں میں ٹوٹ بکھرے ہیں
سجا کے رکھے ہوئے تھے بڑے قرینوں سے
غموں کی دھوپ اُسے موج موج چُنتی ہے
جو قطرہ قطرہ اترتا ہے آبگینوں سے
نہیں ہے گر اُنھیں انساں کا غم تو کیا حاصل
نشانِ سجدہ ٹپکتے رہیں جبینوں سے
محبتوں کا وہ اعزاز کس طرح پائیں
نکل سکیں نہ اگر نفرتیں ہی سینوں سے
(خالد اعزاز۔ خانیوال)
۔۔۔
غزل
ہم نے ازخود نہیں کیا تخلیق
رتجگا خودبخود ہوا تخلیق
کتنی یکسوئی تھی میسر جب
جان لینا کیا گیا تخلیق
اس نے سرعت سے خود پہ فخر کیا
جس کو عجلت میں کر دیا تخلیق
طے شدہ تو منافقت ہی ہے
سرد مہری ہے برملا تخلیق
صرف معلوم کا احاطہ کیا
کچھ بھی سوجھا نہیں سوا تخلیق
اپنی تعظیم چاہیے تھی اسے
اس کو کرنا پڑی رضا تخلیق
(نعیم رضا بھٹی۔ منڈی بہاؤالدین)
۔۔۔
غزل
نیا کردار اب تو جوڑ کوئی
کہانی چاہتی ہے موڑ کوئی
یہ دولت کی ہوس بھی چیز ہے کیا
لگی رہتی ہے اندر دوڑ کوئی
وہ اپنی آنکھ سے کرتا ہے جادو
سو اب میں بھی کروں گا توڑ کوئی
بدن پر سلوٹیں پڑنے لگی ہیں
گیا ہے اس طرح جھنجوڑ کوئی
وہ دشمن ہے تو مارے دشمنی سے
محبت کی نہیں ہے لوڑ کوئی
(عرفان خانی۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
میں سانس لیتے ضعیف جسموں میں رہ چکا ہوں
میں حادثہ ہوں، اداس لوگوں میں رہ چکا ہوں
قدیم نسلوں کے گھر نحوست کا دیوتا تھا
جدید نسلوں کے زرد کمروں میں رہ چکا ہوں
میں ایسا سَر ہوں جو دشتِ غربت میں کٹ گیا تھا
میں سربریدہ شہید لاشوں میں رہ چکا ہوں
میں راجا گدھ ہوں نہ دشت زادہ، نہ ماس خورا
میں پھر بھی بستی کے مردہ خوروں میں رہ چکا ہوں
میں اسمِ اعظم کا معجزہ ہوں، میں ناخدا ہوں
میں چاند تاروں میں اور غاروں میں رہ چکا ہوں
یقین جانو، یہ میرے بالوں کی گرد دیکھو
میں شہر والا تمہارے گاؤں میں رہ چکا ہوں
میں یومِ عاشور تشنگی کا سراب بن کر
خلیل زادوں کے خالی کوزوں میں رہ چکا ہوں
(عمران راہب۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
کوئی ادراک تھا یا بے خودی تھی
کہ میرے چار جانب روشنی تھی
سرِ دیوار تھا اک رقص برپا
پسِ دیوار کوئی بے کلی تھی
ہم ایسے اجرتوں پر پلنے والے
کوئی یہ زندگی بھی زندگی تھی
کہا بھی تھا ذرا سی اور مہلت
وہی ہے اب جو پہلے بے بسی تھی
یہ کیسی منزلوں کی کھوج میں تھے
سرائے تھی نہ کوئی روشنی تھی
(طاہر فردوس گوندل۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
عمر گزری ہے قید خانے میں
آخری مورچہ بنانے میں
بھوک مصروف ہے سرِخیمہ
طفلِ مزدور کو رلانے میں
ضبط مژگاں تلک جو آ پہنچا
مسئلہ کیا ہے اب بہانے میں
کوئی وارث نہیں ملا میرا؟
کب سے رکھا ہوں سرد خانے میں؟
وقت کا کوئلا نہیں جلتا
میری سانسوں کے کارخانے میں
صبر کا اک ستون ہوتا ہے
ہر قلندر کے شامیانے میں
ایک دریا چھپا ہے قطرے میں
پیڑ ہوتا ہے ایک دانے میں
(سردارفہد۔ ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
میں کیا بتاؤں کہ کتنے ہزار خرچ ہوئے
تمہارے عشق میں نقد و ادھار خرچ ہوئے
میں بچپنے سے ضعیفی تلک چلا آیا
تمہارے ہجر کے لمحے نہ یار خرچ ہوئے
جیئیں یہ لوگ جو تجھ پر فدا ہیں پاک وطن
رہیں وہ یاد جو سرحد کے پار خرچ ہوئے
میں مر رہا ہوں مرے دوستا مگر افسوس
تمہارے آٹھ نو خنجر کے وار خرچ ہوئے
ہماری چاہ کی اس کو خبر تلک نہ ہوئی
کہ جس کی چاہ میں ہم بے شمار خرچ ہوئے
تمہاری یاد بھی کل شب بہت اداس رہی
یہ میرے اشک بھی دو تین بار خرچ ہوئے
ہمارا پیار تھی دشمن نگر کی شہزادی
ہمارا پیار بچانے میں یار خرچ ہوئے
(محمد مبشر میو۔ سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
تجھ سے ملی ہر تہمت کا کیا کرنا ہے
اتنی ڈھیر محبت کا کیا کرنا ہے
میرا کیا ہے میں تو ہنستا رہتا ہوں
اپنی سوچ تُو وحشت کا کیا کرنا ہے
میرے ساتھ چلے گا تُو یا رہنے دوں؟
کچھ تو بول! اب ہجرت کا کیا کرنا ہے؟
دل کا کالا ہے تو پھر تُو بھاڑ میں جا
میں نے گوری رنگت کا کیا کرنا ہے
طارق پاک حسین کا ماننے والا ہوں
ہر اک ہاتھ پہ بیعت کا کیا کرنا ہے
( طارق عزیز سلطانی۔ گڑھ موڑ، احمد پور سیال)
۔۔۔
غزل
یہ محبت بھی کیا بلا ہے یار!!
مجھ کو ہر شخص جانتا ہے یار
پٹی باندھی گئی تھی آنکھوں پر
عشق اندھا تبھی ہوا ہے یار
میرے مرنے میں اور جینے میں
ایک آہٹ کا فاصلہ ہے یار
زندہ رہنا،گنوا کے پیاروں کو
یہ تو محسن کا حوصلہ ہے یار
پہلے چبھتے تھے خواب آنکھوں میں
اب تو کاجل بھی چبھ رہا ہے یار
راگ سنتے تھے جب تلک تُو تھا
اب تلاوت پہ اکتفا ہے یار
پانی دریا کا رک چکا کب سے
اک کنارہ ہی بہہ رہا ہے یار
(سفیر حسین۔ نوتک، ضلع بھکر)
۔۔۔
غزل
ابھی تو آنکھ لڑی ہے، ذرا ٹھہر جاؤ
نصیب کی یہ گھڑی ہے، ذرا ٹھہر جاؤ
بڑی تھکی سی پریشاں سی بھیگی آنکھوں سے
مجھے وہ دیکھ رہی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
کِھلیں گے پھول ہمارے چمن میں بھی اک روز
گھڑی یہ ہم پہ کڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
ابھی تو عشق کا پہلا چراغ روشن ہے
ابھی تو رات پڑی ہے، ذرا ٹھہر جاؤ
شبِ فراق مناؤں گا عمر ساری شفیؔ
وِصال رُت کی گھڑی ہے، ذرا ٹھہر جاؤ
(ملک شفقت اللہ شفی۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
شبِ عشرت مناؤ اور اٹھو جاؤ چلے جاؤ
دوانوں کو جلاؤ اور اٹھو جاؤ چلے جاؤ
بڑی مدت سے میرا پارساؤں سے ہے یارانہ
مجھے جی بھر پلاؤ اور اٹھو جاؤ چلے جاؤ
تمھیں مجھ سے محبت ہے، یہ کیسے مان جاؤں میں؟
عبث قسمیں نہ کھاؤ اور اٹھو جاؤ چلے جاؤ
تمھاری ان اداؤں کے ریا میں اب نہیں آنا
یہ کنگن مت گھماؤ اور اٹھو جاؤ چلے جاؤ
تمھارا عشق مجھ کو فتنۂ خوابیدہ لگتا ہے
مجھے تم مت ستاؤ اور اٹھو جاؤ چلے جاؤ
بڑی حسرت ہے جی بھر کے تجھے دیکھوں مرے ہمدم
مری حسرت مٹاؤ اور اٹھو جاؤ چلے جاؤ
سنو اذفر ملے گا رات کے پچھلے پہر تم سے
سنو اب مسکراؤ اور اٹھو جاؤ چلے جاؤ
(علی مان اذفر۔ مرید کے)
۔۔۔
غزل
کوئی نہیں ہے جو اس کے ماسوا ہی نہیں
کہ یہ اداسی فقط تیرا مسئلہ ہی نہیں
وہ پہلے ایک تسلسل سے دیکھتا ہے مجھے
پھر اس کے بعد کئی روز دیکھتا ہی نہیں
تمہارے ساتھ کئی لوگ بیٹھتے تھے یہاں
تمہارے بعد تو جیسے کوئی رہا ہی نہیں
مری دعا ہے وہ مالک سے مانگ لے مجھ کو
اور اس کے بعد کوئی اور التجا ہی نہیں
اسے میں اور بلاتا بھی کس طرح اطہر
رکو رکو بھی پکارا مگر رُکا ہی نہیں
(عرباض اطہر۔ تاندلیانوالہ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
نمی آنکھوں میں جو اُتری ہوئی ہے
بچھڑ جانے کی رُت ٹھہری ہوئی ہے
کسی کے لمس کی خوشبو ہے جس سے
مری جانِ حزیں مہکی ہوئی ہے
ازل سے یہ محبت کی کہانی
سراسر درد میں ڈوبی ہوئی ہے
کسی کا نام لکھا تھا زمیں پر
زمیں پر چاندنی اُتری ہوئی ہے
سرِ محفل وہ جب بھی مسکرائے
زمانے کو غلط فہمی ہوئی ہے
وہ گزرے ہیں نجانے کب یہاں سے
ابھی تک رہ گزر مہکی ہوئی ہے
کسی کی جھیل سی آنکھوں میں طارق
مری دنیائے دل ڈوبی ہوئی ہے
(طارق ملک، لیاقت پور۔ رحیم یار خان)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچۂ سخن''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]