چیئرمین نیب … احتسابی اور اعصابی جنگ

کسی بھی نیب چیئرمین کو اس قسم کی صورتحال کا پہلی بار سامنا کرنا پڑ رہا ہے



قومی احتسابی ادارے(NAB)کے چیئرمین کو جس اعصابی اور احتسابی جنگ کا سامنا ہے کیا وہ اس میں سرخرو ہوسکیں گے یا نہیں۔یہ ہے وہ سوال جس پر عوام الناس اور مقتدر حلقے اپنی نجی محفلوں میں کھل کر اظہار خیال کر رہے ہیں۔

کسی بھی نیب چیئرمین کو اس قسم کی صورتحال کا پہلی بار سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ماضی کی مقتدر دونوں سیاسی جماعتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ کسی حد تک تحریک انصاف کے چنیدہ قائدین اور بیوروکریسی کے مدار المہام بھی نیب کے شکنجے میں ہیں۔ان سب کا ہدف چیئرمین نیب اور اس ادارے کے اقدامات کو ہدف تنقید بنانا ہے۔

دوسری جانب چیئرمین نیب بھی کوئی ایسا موقع نہیں جانے دیتے ہیں جہاں وہ ان مقدمات میں ملوث قائدین کو بلواسطہ ہدف نہ بنائیں ۔ چیئرمین نیب اپنے ہر قدم کو عظیم تر قومی مفاد قرار دیتے ہیں جب کہ سیاسی قائدین نیب کے ان اقدامات کو انتقامی کارروائی کہتے ہیں۔ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ نیب اور معیشت ساتھ نہیں چل سکتے۔

سوشل میڈیا نے اس صورتحال کو جو رنگ دیا ہے اس کی وجہ سے ویڈیو اور آڈیو اسکینڈل ایک کیس اسٹڈی کے ساتھ ساتھ ایک اعصابی جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے ۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اس اسکینڈل کی بنیاد پر ماہرانہ سیاسی داو پیچ کھیل رہے ہیں ۔ تحریک انصاف بھی گومگو میں ہے کہ وہ اس صورت حال کو کس طرح ڈفیوز کریں۔چیئرمین نیب اس اعصابی جنگ کے مہلک حربے کا کیا توڑ کریں گے اس کا اندازہ آیندہ چند دنوں میں ہوگا۔

چیئرمین نیب کی تقرری ایک آئینی پوزیشن ہے۔ اسے بیک جنبش قلم کوئی بھی انتظامی یا عدالتی عہدہ برطرف نہیں کر سکتا۔ آئین میں دیئے گئے قاعدے پر عمل کرکے ہی ان کو ہٹایا جا سکتا ہے یا وہ خود مستعفی ہو کر الگ ہو سکتے ہیں۔

اب تک کی صورت حال کے پس منظر میں یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ چیئرمین نیب اعصابی جنگ کے ابتدائی مرحلے میں اس عمل سے علیحدہ ہو جائیں گے ۔وہ سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس بھی رہے ہیں اور بظاہر مضبوط اعصاب کے حامل نظر آتے ہیں اگر یہ معاملہ آگے چلا تو اس ویڈیو اور آڈیو اسکینڈل کے فرینزک ٹیسٹ تک بھی نوبت آسکتی ہے۔ جن قوتوںنے اس طرح کھل کر سرعام چیئرمین نیب کی کردار کشی کی کوشش کی ہے انھوں نے ممکن ہے اپنے ترکش میں کچھ اور تیر بھی رکھے ہوں۔ جن سے معاملات مزید پیچیدہ اور سنجیدہ ہو جائیں،

وللہ اعلم بالصواب۔

اس تمام تر صورتحال کے پس منظر میں قومی احتساب بیورو کے کئی پہلووں کا جائزہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

قومی احتساب بیورو جسے زبان عام میں نیب کہا جاتا ہے۔آئینی اعتبار سے ایک خود مختار ادارہ ہے۔ اس ادارے کی بنیادی ذمے داری ملک کے سرکاری اور نجی اداروں میں انفرادی یا اجتماعی طور پر ہونے والی بدعنوانیوں کرپشن اور مالیاتی جرائم پر نظر رکھنا ہے۔ اس میں ملوث افراد کے خلاف تحقیقات تفتیش کرنا، اور نامزد افراد کو گرفتار کر کے انھیں سزائیں دلوانا ہے۔اس حوالے سے نیب کو وزیراعظم کابینہ کے ارکان ممبران پارلیمنٹ، سیاستدان، بیوروکریٹ، تاجر سرمایہ دار،بینک کار، دفاعی اور کارپوریٹ اداروں سے منسلک تمام افراد کے خلاف کارروائی کا حق ہے ۔ اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ نیب ملک سے کرپشن مالیاتی جرائم کے خاتمے اور اقتصادی دہشت گردی( اکنامک ٹیررازم ) کو روکنے کا سب سے بڑا اور بااختیار ادارہ ہے۔ نیب کے مشن کو ایک فقرے میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

'' To work to eliminate corruption through a compressive approach encompassing prevention, awareness, monitoring and combating ''

نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کئی کھرب روپے قومی خزانے کو واپس دلائے ہیں۔ یہ رقم مختلف ادوار میں سیاستدانوں ، بیوروکریٹ اور سابق فوجی افسران سے نکلوائی گئی۔

نیب کا قیام تیرہ سال قبل سولہ نومبر(1999 ) کو ہوا ، اس کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے جب کہ چاروں صوبوں میں اس کے ذیلی دفاتر کام کر رہے ہیں۔ کام کی نوعیت کے اعتبار سے نیب میں دو پرنسپل آفیسر ہوتے ہیں، ایک چیئرمین کہلاتا ہے جب کہ دوسرے کو پراسیکیوٹر جنرل آف اکاونٹیبلٹی ہے۔نیب کا چیئرمین انویسٹی گیشن Investigation) ) کا سربرا ہ ہے۔ جب کہ پراسیکیوٹر جنرل کا کام پراسیکیوشن (Prosecution) ہے ۔نیب کے چیئرمین کے عہدے کی مدت چار سال ہے۔ نیب کے پہلے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سید محمد امجد تھے۔ ان کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز، نوید احسن ، لیفٹیننٹ جنرل (ر) منیر حفیظ اور سید دیدار شاہ شامل ہیں۔

ان کے بعد سید فصیح بخاری بھی چیئرمین نیب رہے، ان کا تعلق نیوی سے تھا۔ وہ ملازمت مکمل ہونے سے پہلے ہی رضاکارانہ طور پر اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئے، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے فصیح بخاری کو جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف بنانے کے بجائے یہ عہدہ بھی اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو دے دیا جو بقول فصیح بخاری سروس میں ان سے جونیئر تھے۔ فصیح بخاری نے ریٹائر ہونے کے بعد ایک کالم نگار اور دفاعی تجزیہ کار کے طور پر بھی مصروفیات جاری رکھیں۔ اکتوبر 2011 ء میں صدر آصف علی زرداری نے انھیں نیب کا چیئرمین بنا دیا۔ چیئرمین نیب کے طور پر فصیح بخاری کی تعیناتی پہلے ہی دن سے متنازعہ رہی۔ حزب اختلاف اور خاص طور پر مسلم لیگ نون کے قائدین نے ان کی تقرری کو کسی طور پر نہیں سراہا۔ ان کی تقرری کے ساتھ ہی یہ گمان پایا جانے لگا کہ زرداری صاحب نے شاید ان کی تقرری اس لیے کی ہے کہ وہ نواز شریف فیملی کے کیسز کو آگے بڑھائیں گے۔

سپریم کورٹ نے نیب کے چیئرمین فصیح بخاری اور دوسرے افسران کی بھری عدالت میں کئی بار سرزنش کی کہ وہ ملکی خزانے کو لوٹنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے، چیئرمین بخاری کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا گیا جس کے جواب میں چیئرمین نیب نے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے یہ عذر پیش کیا کہ وہ نئے تعینات ہوئے ہیں اور انھیں معاملات کا علم نہیں، انھیں کئی بار بجلی گھروں میں کرپشن کے معاملے پر سست روی سے تحقیق کرنے اور ریفرنس نہ بنانے پر بھی چیئرمین کو سپریم کورٹ نے کئی بار تنبیہ کی لیکن ان کے دور میں اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہ ہوئی ۔

چیئرمین فصیح بخاری نے صدر مملکت کو ایک خط بھی لکھا کہ عدالت ان پر دبا ڈال رہی ہے، سپریم کورٹ نے اس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین کو توہین عدالت کا ایک اور نوٹس جاری کیا ۔بالآخر انھیں اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا، ان کے بعد قمر زمان چوہدری کو نیب کا نیا چیئرمین بنایا گیا ۔ان کی تقرری نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی مشاورت سے ہوئی۔ قمر زمان چوہدری نے اپنی آئینی مدت پوری کی تو جسٹس (ر) جاوید اقبال کو چیئرمین نیب بنایا گیا۔ ان کو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارتی نے متفقہ طور پر نامزد کیا۔

رائے عامہ کا عمومی خیال ہے کہ چیئرمین نیب کی پوزیشن کوئی سیاسی پوزیشن نہیں بلکہ یہ انتہائی بااختیار اور پرکشش عہدہ ہے۔ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس عمل میں نیب کی حیثیت ایک عدالتی معاون کی ہوتی ہے ۔

حالیہ آڈیو اور ویڈیو اسکینڈل اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے چیئرمین نیب کو جس طرح ہدف بنایا جارہا ہے ہے اس صورتحال میں چیئرمین ایک کڑے امتحان سے گزر رہے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ وہ اس تمام تر صورتحال سے کس طرح عہدہ برآ ہوتے ہیں ۔ افراد اور اداروں کی تاریخ میں ایسے فیصلہ کن مرحلے آتے ہیں کہ انھیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ ذاتی کرداد اور ادار ے کی تقدیم کے اعتبار سے ایک مثال ہیں اور انھیں ایکسپلائٹ کرنے کی کوئی صورت کامیاب نہ ہوگی ۔

ملک میں جمہوریت اور میڈیا کی آزادی نے ایک ایسی صورتحال پیدا کی ہے کہ بڑے سے بڑے عہدے پر متمکن شخص خواہ وہ صدرمملکت ہو وزیراعظم ہو چیئرمین نیب ہو یا چیف جسٹس آف پاکستان ہوںوہ کسی بھی اعتبار سے احتساب سے مبرا نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں