قرآن رمضان اور پاکستان
دنیا بھر میں مسلمانوں کی اکثریت قرآن پاک کو بے سوچے سمجھے پڑھتی ہے۔
PESHAWAR:
قرآن کریم کا نزول رمضان کے ماہ مقدس میں شروع ہوا جو تمام انسانوں کے لیے سرچشمہ ہدایت ہے جس کے متعلق قرآن میں کہا گیا ہے کہ ''یہ دلوں کے امراض کی شفا ہے، جو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہنمائی و رحمت ہے۔'' اور یہ کہ ''ہم نے قرآن کو آسان کردیا تو کوئی ہے جو نصیحت پکڑے۔'' قرآن کی پہلی وحی میں ہی پڑھنے کی ہدایت ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ بار بار کہہ رہا ہے اور یہ لوگ غورکیوں نہیں کرتے۔ قرآن کا حق ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کی تلاوت کی جائے، اس کو سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور اس کے پیغام کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔
لیکن دنیا بھر میں مسلمانوں کی اکثریت قرآن پاک کو بے سوچے سمجھے پڑھتی ہے۔ ایک تو ہم اس سے غافل ہیں اس سے بے توجہی برتتے ہیں اس کو پڑھتے ہی نہیں ہیں ، پڑھتے ہیں تو سمجھتے نہیں ہیں اور جو کچھ سمجھتے ہیں اس پر بھی عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ قرآن پاک کو خاص خاص مواقعے پر پڑھنے کے لیے نکالا جاتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے بجائے اس کی بے سوچے سمجھے ورق گردانی اور ورق شمار پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ جن، بھوتوں کو بھگانے،گھروں اور روزگار کی جگہ کو محفوظ بنانے اور برکت کے لیے غلاف میں لپیٹ کر کسی اونچی جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے یا پھر قسمیں کھانے اور حلف اٹھانے کے لیے اس کا عام استعمال کیا جاتا ہے، ہم اس سے رہنمائی نہیں لیتے باقی سب کچھ کرتے ہیں پھر ہم میں ایمان اور تقویٰ کیسے آئے گا۔ بقول مولانا ظفر علی خان:
وہ جنس نہیں ایماں جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی قاری کو یہ قرآن کے سپاروں میں
ایک نیا فتنہ یہ ہے کچھ عناصر منظم طور پر قرآن پاک و دیگر دینی کتب میں رد و بدل کرکے انٹرنیٹ کے ذریعے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، اس فتنہ کی نشاندہی حسن معاویہ نے لاہور ہائیکورٹ میں دائر اپنی ایک آئینی درخواست میں کی جس میں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ بعض گروہ و دیگر غیر مسلم انٹرنیٹ اور گوگل پلے اسٹور پر اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے اس آئینی درخواست کی سماعت کے بعد 40 صفحات پر مشتمل اردو میں تحریر کردہ فیصلے میں جسٹس شجاعت علی نے وفاقی وصوبائی حکومتوں، پیمرا اور پی ٹی اے کو ایسے غلط مواد اور قرآن پاک کے غیر تصدیق شدہ نسخہ جات فوری طور پر بلاک کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
فیصلے میں وفاق کوکہا گیا ہے کہ قرآن پاک کی تصدیق شدہ کاپی کی تمام وفاقی و صوبائی اداروں کی ویب پورٹل پر دستیابی کو یقینی بنائے۔ فیصلے میں یہ بھی قدغن لگائی گئی ہے کہ قرآن پاک اور دینی کتب حکومت کی این او سی کے بغیر درآمد نہیں کیے جاسکیں گے۔ قرآن پاک و دیگر اسلامی کتب کی اشاعتی کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ چیئرمین قرآن بورڈ سے اشتراک عمل رکھیں۔ حکومت کو اس سلسلے میں قرآن بورڈ کی سفارشات کے مطابق پالیسی وضع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ لائبریریوں اور درسگاہوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ عطیات میں ملنے والے قرآن، پنج سورہ وغیرہ کو اصل نسخہ سے تصدیق کیے بغیر وصول نہ کریں۔ اشاعتی ادارے قرآن و دیگر اسلامی کتب کے ہر صفحہ پر اشاعتی ادارے کا نام، بار کوڈ اور QR کوڈ تحریر کرنے کے پابند کردیے گئے ہیں۔
ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے سے فتنہ کا ایک نیا باب بند ہوسکے گا اور غیر مستند اور غیر تصدیق شدہ قرآن پاک و دیگر دینی کتب کی ترسیل و اشاعت کی روک تھام اور تدارک میں بہت مدد ملے گی۔ حالانکہ جو کام ہائیکورٹ نے ایک عام شہری کی درخواست پر کیا اس پر حکومت کو پہلے ہی اقدامات اٹھانے چاہیے تھے کیونکہ آئین پاکستان کے تحت یہ ریاست کی کلیدی ذمے داری ہے کہ وہ ملک میں ایک اسلامی معاشرے کے قیام اور ایک ایسا ماحول فراہم کرے جس میں رہتے ہوئے مسلمان انفرادی و اجتماعی طور پر اسلام کے بنیادی اصولوں اور اصل روح کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کرسکیں۔ مگر ریاست اپنے اس کردار کو نبھانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
دو سال قبل بھی اس وقت کے وزیر تعلیم نے اپنی ذاتی کاوشوں سے قرآن کی لازمی تعلیم کا ایکٹ مجریہ 2017 پیش کیا تھا جس کے تحت پہلی جماعت سے انٹرمیڈیٹ کی سطح تک بتدریج قرآن پاک کے ناظرہ سے لے کر ترجمہ تک کو تعلیم میں شامل کیا گیا تھا تاکہ طلبا میں قرآن فہمی کا شعور پیدا ہو۔ والدین بھی انھیں مدرسہ یا مولوی سے پڑھانے کے اضافی وقت اور مالی بوجھ سے بچ سکیں گے مگر بعد میں اس پر کوئی پیش رفت نہیں نظر آئی۔ عظمت و برکت والے ماہ رمضان میں رسالت کی نعمت عطا کی گئی، قرآن مجید کی نعمت عطا کی گئی۔ پاکستان وجود میں آیا اور 27 رمضان المبارک کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے مغربی پاکستان اور ظفر احمد عثمانی نے مشرقی پاکستان میں پاکستانی پرچم لہرایا۔
حضورؐ نے اس ماہ کو شہر عظیم اور شہر مبارک یعنی بڑی عظمت والا اور بڑی برکت والا مہینہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہلاک ہوا وہ شخص جس نے ماہ رمضان پایا مگر اپنی بخشش نہ کرا پایا۔ اس ماہ نفل اعمال فرض اعمال کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں اور فرض کے درجات میں ستر گنا اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جہنم کے دروازے اور شیطان بند کردیا جاتا ہے۔ برائی کے مواقع کم سے کم کردیے جاتے ہیں۔ بندے کے سارے اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں بشرطیکہ وہ عہد بندگی کو نبھائے اور خود آگہی اور خود احتسابی عمل سے غافل نہ ہو۔ مگر بدقسمتی دیکھیے ہمارے ملک میں رمضان مقدس کی آمد سے قبل ہی تاجر، دکاندار، رشوت خور افسران سے لے کر عام افراد تک لوٹ کھسوٹ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور گرانی جیسی حرکتوں کے لیے صف بندیاں شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے روزمرہ استعمال کی اشیا عام لوگوں کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہیں جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے نفس پرستی و نفس گزاری کا دور دورہ اور کمرشل ازم کا راج ہوجاتا ہے۔
میڈیا پر مذہبی پروگراموں، اشتہار بازی میں نفس پرستی اور بے ہودگیوں کا طوفان بدتمیزی مچا ہوتا ہے، بعض افراد کی جانب سے ان خرافات پر مہر صداقت ثبت (Endorsment) کرکے ناظرین کو بھی گمراہ کیا جا رہا ہے۔ وہ لوگ دین سکھانے کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں جن کی اپنی زندگیوں میں دور دور تک دین دکھائی نہیں دیتا۔یہ میڈیائی افراد خود کو معتبر، مقبول اور ہر دلعزیز بنانے کے لیے چکنی چپڑی اور لگی لپٹی باتیں اور دل گداز اور منافقانہ قسم کی گفتگو کرکے مقبول و ہر دلعزیز بن کر پرتعیش زندگیاں گزار رہے ہیں۔ کیا قرآن، رمضان اور نظریہ پاکستان اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں؟ ہمیں بحیثیت مسلمان احتساب کرنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، ہماری عبادتیں، ریاضتیں کہاں جا رہی ہیں۔ ہماری عاقبت کیا بنے گی؟ سب سے بڑی ذمے داری علما حق اور حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ منظم اور غیر محسوس طریقے سے کی جانے والی سازشوں کا سدباب کرکے اپنی اور مسلمانوں کی دنیا و عاقبت برباد ہونے سے بچائیں۔