تنگ آمد بجنگ آمد
پاکستان کے وجود سے آج تک طاقت کے ستون سے کوئی بھی سیاسی وجمہوری حکومت خود کو الگ نہیں کر پائی ہے۔
مجھے اس بات سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں کہ بھارتی انتخابات کے نتائج میں نریندر مودی جیتے یا بھارت میں کانگریس کو شکست اٹھانی پڑی اور نہ ہی میرے لیے یہ بات تشویش کا باعث ہے کہ بھارتی انتخابات میں ترقی پسند خیالات کی ترویج کے ساتھ روا داری اور عوام کی معاشی آزادی کا خواب دیکھنے والی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا و دیگر سیکولر جماعتیں اپنی جیت کو برقرار نہ رکھ سکیں۔
مجھے عالمی سیاست اور معاشی بے راہ روی میں جب یہ نظر آرہا ہو کہ عوام کا خون چوسنے والے عالمی سرمایہ دار ممالک اور ادارے دنیا میں بے ہنگم معاشی نا برابری کو قابوکرنے کے لیے اپنا عوام دشمن ایجنڈا نافذ کرنے میں سرگرم ہیں تو مجھے عالمی سرمایہ داری کے عوام دشمن اقدامات پر گہری نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے جس میں عالمی سرمایہ دار دنیا اپنے سرمائے کے عوام دشمن مفادات کو ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تاریخی طور پر عالمی سامراج جس کے آلہ کار عالمی سرمایہ دار اور اداروں کی کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے سرمایہ دارانہ مفادات کوکبھی ترقی پذیر ممالک کوکالونی بناکر پورا کرے توکبھی کساد بازاری کا شوروغوغا کرکے ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو اپنا غلام بنائے،اس سرمایہ دارانہ مفادات میں کبھی عالمی طاقتوں کو جمہوریت کا ڈھونگ اپنانا پڑا توکبھی ان طاقتوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لیے ترقی پذیر ممالک کی فوج کو خرید کر اسے اسلحے کی طاقت سے عوام پر حکومت کرنے کا راستہ دیا۔
اس صورتحال کی نشاندہی کا مقصد یہ ہے کہ آج کل پاکستان اور خطے میں کساد بازاری کا ایک ایسا طوفان بپا ہے ،جس میں عوام معاشی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں جب کہ دوسری جانب سرمائے کو چند مخصوص طبقوں میں قید کرکے بد عنوانی،اقربا پروری اور ہر قسم کا عوامی استحصال کرنے کی چھوٹ دے دی گئی ہے، یہ کیونکر ہو رہا ہے اور اس کے کیا مقاصد ہیں ، یہ جاننا آج کے حالات میں بہت ضروری ہے ، وگرنہ عوام کی معاشی تنگ دستی اور استحصال کو قابو کرنا مشکل ہو جائے گا، پاکستان کے تناظر میں ان حالات کی ذمے دار ہماری خارجہ پالیسی کے ساتھ وہ سیاسی فیصلے ہیں جو طاقت کے بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں جب کہ عوام کو ملکی سالمیت کی کڑوی گولی نگلنے کا کہہ کر لاٹھی گولی کی سرکارکا راج ہنوزکسی نہ کسی طرح قائم ہے۔
پاکستان کے وجود سے آج تک طاقت کے ستون سے کوئی بھی سیاسی وجمہوری حکومت خود کو الگ نہیں کر پائی ہے جس کی بنا پر سیاسی حکومتیں عوام یا ملکی ترقی کے لیے سیاسی فیصلے کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہیں اور شاید رہیں کہ طاقت کے منبع ادارے اپنی طاقت اور سرمایہ دارانہ مفادات کو کسی طور سیاسی و جمہوری قیادت کو دینے یا ان پر اعتبار کرنے کے لیے راضی دکھائی نہیں دیتے، اس قضیئے کی بہت سی وجوہات پر بات کی جاسکتی ہے مگر اس وقت سب سے بڑی وجہ جمہوری اداروں کی مضبوطی اور سیاست دانوں کا طبقاتی مفادات سے الگ ہوکر سوچنا اہم ہے۔
یہ بات نہ ہضم ہونے والا سچ ہے کہ جب تک سیاسی اور منتخب حکومتیں عوام کی ترقی اور خوشحالی کا کوئی منصوبہ محض طاقت کے دیوتا کو خوش کرنے کی خاطر کرتی رہیں گی، تو نہ سیاسی جماعتوں کی عوام میں کوئی حیثیت نہ ہوگی اور نہ ملک جمہوریت کے پھل سے فیض یاب ہوگا ، بلکہ اس کا منفی اثر یہ ہوگا کہ عوام کی سیاست میں عدم دلچسپی ہوگی جس سے اسلحہ کی طاقتور قوتیں اپنے ہتھیار سازی کے کاروبارکو ملکی دفاع کے نام پر چلانے کے ساتھ غیر ترقی یافتہ اخراجات کی مد میں معیشت پر نہ صرف بوجھ بلکہ ملک کو معاشی دیوالیہ پن کی جانب دھکیلیں گی، جس سے عالمی مفاداتی قوتوں کا چلن ملک میں عام ہوگا اور آخری نتائج میں کل ہم پھرکسی کی کالونی بن کر غلامی کی زندگی گذارنے کے لیے مجبورکردیے جائیں گے۔
مندرجہ بالا صورتحال کا شکارکم وبیش ہمارا ملک بن چکا ہے بلکہ معاشی کساد بازاری اور غیر ترقیاتی دفاعی اخراجات کے مرہون منت ہم ایک ایسی معاشی دلدل میں پھنسنے کی جانب دھکیلے جا رہے ہیں جو طاقتور اداروںاور طبقوں کو تو شاید نقصان نہ پہنچا سکیں، مگر عوام کی معاشی حالت اور اس کے استحصال کی نئی شکلیں ضرور سامنے لے آئیں،جب ہمارے فیصلے اور ہماری معاشی حکمت عملی کو آئی ایم ایف کی جانب سے بھیجے گئے افراد طے کریں گے تو معاشی ناہمواری ختم ہونے کے بجائے معاشی محرومیوں کا ایک سیل رواں آئے گا جو شاید سب کچھ بہا کر لے جائے۔ تاریخ کے طالب علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ جب عوام تنگ آمد بجنگ آمد کی صورت میں اپنا رد عمل دینا شروع کردیں تو اسی لمحے کو اقتدار کے حاکموں کو نہ صرف سمجھنا چاہیے بلکہ عوام کے غیظ وغضب سے بچنے کی وہ سبیل نکالنی چاہیے۔
جس سے عوام کا معاشی استحصال ختم ہو اور ان کی رائے ملک کی ترقی واستحکام کی جانب جائے، وگرنہ ، اب پچھتاؤے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت... والی صورتحال میں طاقت اور حکمرانی کے خدا صرف ہاتھ ملتے ہوئے رہ جائیںگے،اس ضمن میں آئی ایم ایف سے بھیجے گئے غیر منتخب مشیر خزانہ نے وزراء اور غیر منتخب مشیران کی موجودگی میں قوم کو پریس کانفرنس کے ذریعے یہ عندیہ دیا ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسی سے ریکارڈ ریونیو ٹارگٹ حاصل ہوگا، جب کہ موصوف کا یہ بھی کہنا ہے کہ آیندہ بجٹ کے اہداف کو حاصل کرنے میں سول اور فوجی قیادت مل کر معاشی ناہمواری کو درست کریں گے۔اس موقع پر آئی ایم ایف کے بھیجے گئے مشیر خزانہ سے عوام کا یہ سوال تو بجا ہوگا کہ سول اور فوجی قیادت کس طرح اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم کریں گے۔
موجودہ معاشی صورتحال اور ڈالرکا اڑان بھرتا اضافہ اب تک تو عوام کی خوشحالی کا کوئی عندیہ نہیں دے پایا ہے، تو ہمارے غیر منتخب مشیر خزانہ وہ کونسا فارمولا اس ملک کو دینے جا رہے ہیں جس سے وہ اخراجات جوکہ ترقی کی مد میں خرچ ہی نہیں ہوتے ، وہ موجودہ مشیر خزانہ کیسے کم کروا پائیں گے؟دوم یہ بات آج کی زندہ حقیقت ہے کہ وہ اقوام کبھی ترقی کی منازل طے نہ کر سکیں ہیں جنہوں نے عوام کی معاشی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر غیر ترقی یافتہ اخراجات دفاع کے نام پرکیے ہیں، تاریخ کی سچائی اس بات پر محکم یقین کے ساتھ کھڑی ہے کہ جب تک عوام کی معاشی خوشحالی اور ترقی یافتہ صنعتی جال نہیں بچھے گا ، اس وقت تک نہ ہی ملک میں رو زگارکے مواقعے پیدا ہوں گے اور نہ ہی ملکی زرمبادلہ کی قدر عالمی دنیا میں مستحکم ہوگی۔
اسی کے ساتھ مشیر خزانہ کی جانب سے آیندہ بجٹ میں عوام کو پر سکون رہنے کا جو لولی پوپ آئی ایم ایف کی جانب سے دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، تو سوال یہ ہے کہ منتخب حکومت کہاں اورکس دوراہے پر کھڑی ہے؟یا کہ منتخب کہلائی جانے والی حکومت کی کیا حیثیت ہے؟ اس تمام تر صورتحال کی روشنی میں خطے میں معاشی جنگ کے بادل منڈلاتے ہوئے واضح طور سے دیکھے جا سکتے ہیں،اس معاشی جنگ میں پاکستان ایسا معاشی بد حال ملک امریکی معاشی مفادات سے لے کر چین کے معاشی مفادات کا بیک وقت کیسے دفاع کرے گا یا پڑوسی ممالک کے تعلقات کی نوعیت اس بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال میں کس طرح مستحکم ہوگی،جب کہ خارجہ پالیسی بنانے کی اجازت جب پارلیمینٹ کو نہ دی جائے یا آئی ایم ایف کے معاہدے کو عوام کی منتخب پارلیمان میں زیر بحث نہ لایا جائے، تو وہ ملکی اور عالمی قوتیں کس طرح اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کو عوام اور ملک کی معاشی خوشحالی کے لیے قربان کریں گی ،ایک ایسا گھمبیر سوال ہے جس کا جواب صرف ہر ادارے کو آئینی حدود میں رہنے سے ہی حل ہو سکتا ہے، وگرنہ عوام کے پاس تنگ آمد بجنگ آمد ہی رہ جاتا ہے۔