’’وزیر اعظم کا پہلا دورہ‘‘
وزیر اعظم کو ملک کے کونے میں کونے جا کر عوام کی بات سننی ہو گی۔
یوں لگتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے حکمرانی کی روایات کے برعکس اسلام آباد اور لاہور سے باہر بھی پاکستان دریافت کر لیا ہے چنانچہ وہ بار بار ان دو شہروں کے علاوہ ملک کے دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں بھی آ جا رہے ہیں ۔
ہماری اسلامی روایات کے مطابق حکمران کو عوام کو درپیش مشکلات کا علم ہونا چاہیے کیونکہ عوام کے متعلق باز پرس بھی حکمران سے ہی ہو گی اس لیے تو حضرت عمر ؓ راتوں کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کی حال حقیقت معلوم کرتے تھے اور یہ مشہور جملہ بھی انھی سے منسوب ہے کہ اگر دجلہ و فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا رہ گیا تو اس کا حساب بھی عمر ؓ کو دینا پڑے گا۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان نے پاکستانیوں کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے تصور سے روشناس کرایا ہے ۔
فلاحی ریاست کا تصور اسلام کا تصور ہے جس کو موجودہ دنیا کے مسلمان حکمرانوں نے ترک کر دیا ہے اور اپنے دین سے دوری اختیار کر لی ہے۔ ہمارا دین تو سراپا فلاح ہے اور اس میں کسی بھی انسان، چاہے وہ کسی بھی رنگ و نسل یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو، کی بلاوجہ دل آزاری کی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے نبی کریمﷺ نے تو ہمیں درس ہی انسانیت کی فلاح کا دیا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے دنیاوی زندگی کو اخروی زندگی پر ترجیح دے دی ہے اور اپنی اسلامی تعلیمات سے دور ہو گئے ہیں ۔
اسلام کے فلاحی ریاست کے تصور کو مغرب نے اختیار کر لیا ہے اور اپنے معاشرے کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق ڈھال لیا ہے مغربی ممالک میں جو وقعت اور اہمیت انسانیت کو دی جاتی ہے اس کا ہم اسلامی ملکوں میں رہنے والے تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یعنی اسلام کو ماننے والوں نے اپنے آپ کو اسلام کے بنیادی اصولوں سے دور کر لیا ہے جب کہ کافروں نے اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے شہریوں کو سہولیات دینی شروع کر دی ہیں جس کا عملی مظاہرہ ہم اکثر دیکھتے رہتے ہیں۔
چند روز قبل ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب کے پسماندہ اضلاع سرگودھا اور خوشاب کا اچانک دورہ کیا ہے اور ان اضلاع میں حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے سرکاری اسپتالوں کے معائنے کے ساتھ تلہ گنگ میں ایک تھانے کا بھی دورہ کیا ۔سائلوں نے ملک کے اعلیٰ ترین حکمران کو اپنے درمیان پا کر خوشی کا بھی اظہار کیا اور ان سے اپنے مسائل کی نشاندہی کی جن کو حل کرنا حکومت کا کام ہے۔
وزیر اعظم کے کسی عقلمند مشیر نے ان کو درست مشورہ دیا ہے کہ ملک اور خاص طور پر پنجاب کے بڑے شہروں میں تو سابقہ حکومتوں نے عوامی سہولت کے کچھ نہ کچھ کام کیے ہیں لیکن خاص طور پر لاہور سے دور اضلاع تک ان کے فلاحی منصوبے نہیں پہنچ سکے اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ایک مدت سے بنیادی سہولتوں سے محروم ان شہروں کی بھی سنی جائے جہاں گزشتہ دس برسوں میں حکومتی سطح پر عوام کی شنوائی نہیں ہو سکی۔ وزیر اعظم سے پہلے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بھی اپنے صوبے کے چھوٹے شہروں کے دورے کر رہے ہیں اور وہاں بنیادی سہولتوں کے فقدان کو دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
نئے پاکستان کے نئے لیڈر پاکستانیوں کے لیے ایک خوشگوار حیرت کا سبب بن رہے ہیں۔ عوام نے جس توقع اور امید پر انھیں ووٹ دے کر منتخب کیا تھا وہ ان امیدوں اور توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ عوام کے کسی منتخب لیڈر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کو دستیاب ہوتا ہے، عوام سے آتا ہے اور عوام کے لیے اقتدار میں رہتا ہے ۔ وہ ایک ایسا سسٹم بنا لیتا ہے کہ عوام کے نمائندے اسے عوام کے مسائل سے باخبر رکھتے ہیں اور جہاں ضرورت ہوتی ہے وہ خود عوام کے پاس پہنچ کر ان کی بات سنتا ہے اور انھیں تسلی دیتا ہے۔ جمہوری نظام میں وزیر اعظم صرف حکمران نہیں ہوتا وہ عوام کا لیڈر اور قائد ہوتا ہے ۔ ان کی رہنمائی کرتا ہے اور انھیں زندگی کے کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے تیار کرتا اور رکھتا ہے۔
روٹی کپڑا مکان بلا شبہ کسی انسان کی بنیادی ضروریات ہیں اور حکومت کا اولین فرض ہے کہ وہ عوام کو یہ ضروریات فراہم کرتی رہے لیکن ستاروں سے آگے بھی جہاں ہیں اور قوموں میں ولولہ ان جہانوں کی جستجو سے پیدا ہوتا ہے ۔ کسی قوم کا منتخب قائد اپنی قوم کو کسی نہ کسی جدو جہد میں مصروف رکھتا ہے ۔ محض حکمرانی تو ایک تھانیدار اور تحصیلدار کسی بھی منتخب نمائندے سے بہتر کر سکتا ہے۔
اس بات میں بہت وزن ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے پاس عوامی مسائل کا ادراک رکھنے والوں اور حکومتی معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے والے افراد کی شدید قلت ہے اس لیے وہ خود ہر محاذ پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میڈیا کو اطلاعات فراہم کرنی ہوں تو سب سے معتبر ذریعہ وزیر اعظم ہیں۔ لوگ ان کی بات ہی سننا چاہتے ہیں اور اسی پر اعتبار کرتے ہیں۔ بقول والٹیر سوچنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔
عمران خان بھی سوچتے ہوں گے کہ انھوں نے حکومت میں آنے سے قبل عوام کی توقعات کو جن بلندیوں تک پہنچا دیا تھا اب حکمران بننے کے بعد ان توقعات کو پورا کرنا ان کا کام ہے اور اگر انھوں نے عوامی مسائل سے عملاً بے توجہی کی تو وہ خود ان کی حکومت کو کتنی مہنگی پڑ سکتی ہے اور عوام سے کمزور رابطوں کی وجہ سے وہ اصل حالات سے بے خبر رہ سکتے ہیں۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے ازخود عوامی مسائل سے آگاہ رہنے کے لیے ملک کے مختلف اضلاع کے دورے شروع کر دیے ہیں ۔ اگرچہ اس وقت یہ بحث بے سود ہو گی کہ ان کی سیاسی ٹیم کی جانب سے بڑھتے ہوئے مسائل سے عدم توجہی کو وجہ سے ان کی حکومت کی مقبولیت میں کمی آ رہی ہے اور غلط لوگوں پر ان کا اعتماد ان کے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔
بہر حال وزیر اعظم اب خود سارے ملک میں پھیل رہے ہیں ۔ پاکستان میں کبھی کبھار ایک خبر چھپتی ہے کہ وزیر اعظم نے فلاں مقام کا دورہ کیا ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ کسی وزیر اعظم نے یہاں کا دورہ کیا ہے ۔ ایسی خبر پڑھنے پر میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ یہ پہلا موقع کیوں ہے اور کیا ملک کی سرزمین کا کوئی حصہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جہاں کوئی وزیر اعظم نہ گیا ہو اور اس کا وہاں جانا کوئی عجیب سی خبر ہو ۔ یہ تو شرم کی خبر ہونی چاہیے ۔ عمران خان کا اقتدار فی الحال مضبوط ہاتھوں میں ہے اور ان کے ساتھی جن کی روزی روزگار ان کے اقتدار کے صدقے میں چل رہی ہے اس پر خوش اور مطمئن ہیں لیکن کیا اقتدار بذات خود کوئی مقصد ہوتا ہے یا کسی مقصد کے حصول کے لیے ہوتا ہے ۔
پاکستان جیسے ملک میں تو معاشی سیاسی اخلاقی اور قومی مسائل اس قدر زیادہ اور خوفناک ہیں کہ کسی ایسے شخص کی نیندیں حرام ہونی چاہئیں جو اس ملک کے معاملات کا ذمے دار ہو ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ملک کے لیے وزیر اعظم کی نیندیں حرام ہو جائیں اور انھیں کہیں چین نہ پڑے تا آنکہ وہ ملک کو کسی بہتر مستقبل کی راہ پر نہ ڈال دیں ۔ وزیر اعظم کو ملک کے کونے میں کونے جا کر عوام کی بات سننی ہو گی تا کہ مستقبل میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ کسی وزیر اعظم کا اس علاقے کا یہ پہلا دورہ تھا۔ یہ کوئی بات ہوئی کہ ہمارے امیر ملک کو چند گنتی کے لوگوں نے اتنا غریب بنا دیا ہے کہ وہ ایک قرض ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھنے والا ملک بن گیا ہے اور دنیا اس کی غربت پر انگلیاں اٹھا رہی ہے ۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔