اپوزیشن کی تحریک اور اُس کی کامیابی کا دارومدار
یہ وقت ’’ ہنوز دلی دوراست‘‘ کی مانند ابھی بہت دور ہے۔
ہمارے یہاں ابھی تک نہ جمہوریت آزاد ہے اور نہ سیاست ۔ ہم لاکھ دعوے کریں کہ جمہوریت کے پودے نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں، حقیقت حال اِس کے بالکل برعکس ہے۔ پرویز مشرف کو اقتدار سے الگ ہوئے تقریباً 11 سال بیت چکے ہیں اور اِن گیارہ سالہ عرصے میں گرچہ کوئی دوسرا مارشل لاء نہیں لگا لیکن اِس دوران جو بھی حکومت برسراقتدار رہی وہ کسی نہ کسی طرح غیبی قوتوں کے زیر اثر ہی رہی ہے۔ آصف زرداری کا دور حکومت ویسے تو بظاہر آزاد تھا کیونکہ اُنہوں نے بڑی آسانی سے جنرل پرویز مشرف کو ابتدائی مہینوں میں ہی ایوان صدر سے رخصت کردیا لیکن اِس کے باوجود وہ کبھی چین و سکون سے حکومت نہیں کر پائے ۔
اُنہیں حکومت بچانے کے لیے کبھی ایم کیو ایم کے نازونخرے اُٹھانے پڑے توکبھی مسلم لیگ (ق)کے مطالبے پورے کرنے پڑے۔ دوستی، مفاہمت اور افہام وتفہیم کے سارے فلسفے ہم نے اُس شخص سے سنے جو اگر مجبور نہ ہوتا توکبھی اِس طرح کسی کی خوشامدیں نہیں کرتا ۔ ویسے بھی سیاست کے بارے میں یہی کہاجاتا ہے کہ اُس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہاں آج کے دوست کل کے دشمن اورکل کے دشمن آج کے دوست بننے میں لمحہ بھرکی دیر نہیں کیاکرتے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں سیاسی جماعتیں آج پی ٹی آئی کے دستر خواں پر ہم نوالہ اور ہم رکاب بنے ہوئے ہیں۔
مشہور زمانہ میموگیٹ اسکینڈل والے دنوں کی تلخیاں زرداری صاحب بھلا کیسے بھول سکتے ہیں جب اُنہیں ایوان صدر اسلام آباد کی حسین اوردلنشیں راحتیں چھوڑکر دیارغیر میں پورا ایک ماہ شدید اضطراب اور بے چینی میںگزارنا پڑا۔ یہ وہ دن تھے جب زرداری صاحب کو اپنے مستقبل کے بارے میں بھی قطعی یقین نہ تھا کہ وہ واپس جا کر اسلام آباد میں ایک بار پھر عہد صدارت کے مزے لوٹ سکیں گے یا نہیں ۔ اُنہیں تو اُن دنوں اپنی جاں کی فکر لاحق ہونے لگی تھی اور وہ توصرف یہی چاہ رہے تھے کہ اقتدار چلاجائے تو کوئی بات نہیں بس کہیں سے جاں بخشی کی آس واُمید ہوجائے۔لیکن پھر شومئی قسمت سے حالات بتدریج سازگار ہوتے گئے اور اطاعت وفرمانبرداری کے وعدے اور یقین دہانی پر وہ نہ صرف واپس ایوان صدر میں قدم رنجا ہوئے بلکہ اپنے پانچ سال بھی پورے کر پائے۔
اِس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے میاں محمد نواز شریف دو تہائی اکثریت کے بل بوتے پر اِس خیال سے حکومت کرنے اسلام آباد تشریف لاتے ہیں کہ اُنہیں زرداری صاحب کی طرح کسی دوسری سیاسی جماعت کی بے ساکھیوں کی ضرورت اور حاجت نہ ہوگی اوروہ بلاکسی مشکل اور حجت کے بڑے آرام سے حکومت کر پائیں گے۔عوام کی جانب سے ملنے والے بھاری مینڈیٹ کے زعم میں وہ یہ بھول گئے کہ یہاں بھاری مینڈیٹ اور بھی پریشان کن اور نقصان دہ بن جاتا ہے اور ایسے مسائل و مصائب سامنے لے آتا ہے کہ جن کا تصور بھی اہل اقتدار نے کبھی کیا نہیں ہوتا ہے۔ میاں صاحب شاید بھول گئے کہ اُنہیں1997 میں ملنے والا مینڈیٹ بھی کچھ اِسی طرح کا تھا اور وہ ایٹمی دھماکوں سمیت تمام کامیابیوں اورکامرانیوں کے باوجود محض ڈھائی سال میں ایوان وزیر اعظم سے سیدھے اٹک جیل منتقل کردیے گئے۔
اُنہیں جب جب بھاری مینڈیٹ ملا وہ اُن کے لیے بڑا ناخوشگوار اورناموافق ہی رہا ۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہی بات کھل کرواضح ہوجاتی ہے کہ یہاں طاقت اوراختیارکا منبع اسلام آباد نہیں بلکہ کہیں اور ہی ہے۔ اسلام آباد پر قابض کوئی شخص اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ عوام کے تائید وحمایت سے جمہوریت کو مکمل آزاد اور خود مختار بنالے گا تو وہ انتہائی خود فریبی اور خوش گمانی میں مبتلاہے۔ اُسے ابھی تک یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ عوام کی زبردست تائیدوحمایت اور بھاری مینڈیٹ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ یہاں کب کسی پر لاتعداد الزامات لگا کر بوریا بستر گول کر دیا جائے کہ نہ اُس دوستوں اور گھر والوں کو پتہ ہو اور نہ اُس کے چاہنے والوں کو معلوم ہو کہ اصل ماجرہ کیا ہے۔
غیر ملکی اقامہ رکھنا اتنا سنگین جرم قرار پائے کہ نہ صرف اقتدار سے فوری بیدخل کردیاجائے بلکہ پرآسائش محلات سے نکال کر اگلے دس سالوں کے لیے عقوبت خانوں کے کسی سیل اورکوٹھری میں ڈال دیا جائے۔ لہذا دانش مندی اورعقل مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ حکمرانی کے زریں اُصولوں پرعمل پیرا ہوتے ہوئے اطاعت اور فرمانبرداری سے اپنا وقت پورا کیا جائے۔ نہ کسی طاقتور ادارے کو چھیڑا جائے اور نہ کسی سابق طالع آزما سے باز پرس کی جائے۔
ہمارے موجودہ حکمران عمران خان نے یہ سبق اچھی طرح حفظ کرلیا ہے۔ لہذا وہ اب جو چاہیں کرتے رہیں اُنہیں مقتدر اداروں کی تائید وحمایت ہر لمحہ حاصل رہے گی ۔ چند سیٹوں کی اکثریت یہاں کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتی اگر معاملات خوش اسلوبی سے طے کیے جاتے رہیں۔ اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور مفاہمت بہت ضروری ہے۔ خانصاحب نے 22سالہ سیاسی جدوجہد میں یہی ایک سبق اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ وہ چاہیں تو اِسے روحانیت کا نام دیں یا پھرکچھ اور لیکن یہ طے ہے کہ معرفت کے اِس اعلیٰ وارفع مقام تک پہنچنے سے پہلے یہ سب کچھ کرنا بہت ضروری ہے۔
وہ اگر ایسا نہ کرتے تو نہ آج وزیراعظم ہوتے اور نہ عوام کی بھرپور حمایت کے اہل قرار پاتے بلکہ 2011 سے پہلے والی ناکامیوں اور نامرادیوں کے اندھیروں میں کہیں بھٹک رہے ہوتے۔ اپنے پیش روؤں کی حالت زارکو دیکھتے ہوئے اُن سے بجا طور پر توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ یہ غلطی ہرگز نہیں دہرائیں گے۔اِس مقصد کے حصول کے لیے اُنہیںخواہ اپنے سب سے عزیز دوست اسد عمر اور جہانگیر ترین سے بھی کنارہ کشی اختیارکرنا پڑے تو وہ بلاکسی حجت اور لیت ولعل یہ کرگزریں گے۔آج اُن کے اردگرد پارٹی کے اصل وفادار ساتھیوں کا کوئی گزر بسر نہیں ہے۔وہ اُن مفاد پرستو ں اور موقعہ پرستوں کے چنگل میں بری طرح پھنس چکے ہیں جو اشارہ ملتے ہی اُسی طرح کسی دوسرے شخص کے گھونسلے پر جابیٹھیں گے جیسے وہ کل اِن کے گھونسلے میں آ ٹھہرے تھے۔
ہمارے یہاں پیش گوئی کرنے والے نجومیوں کی کوئی کمی نہیں ، جو ہر ماہ اور ہرسال حکومتوں کو جاتا دیکھتے ہیں۔ پہلے یہ کام لال حویلی کے شیخ رشید بڑی تندہی سے کیا کرتے تھے اور ہر نئے سال کو حکومت وقت کاآخری سال قراردیاکرتے تھے۔لیکن اب یہ کام اُن کے مخالفوں نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سال موجودہ حکومت کا آخری سال ہے ۔ عیدالفطر کے بعد شروع ہونے والی اپوزیشن کے تحریک اِس حکومت کو چلتا کردے گی، مگر تاریخ اور شواہد گواہ ہیں کہ یہاں کوئی بھی تحریک اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک اُسے مقتدر حلقوں کی پشت پناہی حاصل نہ ہو۔
اِس کے لیے ہمیں بہت دور دیکھنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ فیض آباد اسلام آباد میں تحریک لبیک پاکستان کے تحت کیے جانے والے دونوں دھرنوں کے بالکل مختلف انجاموں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اچھی جان سکتے ہیں کسی بھی تحریک کی کامیابی کا دارومدار اُس کی اپنی اہلیت اور قوت بازو پر نہیں ہوتا ۔پس پردہ عوامل اُس کی کامیابی اور ناکامی میں ضرور شامل اورکارفرما ہوا کرتے ہیں۔ عمران خان کے مخالف یہ جان لیں کہ وہ چاہے کچھ بھی کرلیں اُس وقت تک اپنی کسی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتے جب تک مقتدرحلقوں کی اُنہیں تائیدوحمایت حاصل نہ ہو اور یہ وقت '' ہنوز دلی دوراست'' کی مانند ابھی بہت دور ہے۔