ڈگمگاتی صحافت میں خواتین صحافی پرعزم

مالی مشکلات اور دیگر چیلنجز کے سامنے خواتین صحافی بھی ڈٹ گئیں


مالی مشکلات اور دیگر چیلنجز کے سامنے خواتین صحافی بھی ڈٹ گئیں

BAMAKO, MALI: رابعہ کی خواہش تھی کہ وہ صحافت میں ماسٹر کرکے ان لوگوں کی آواز بنیں گی جن کا پوچھنے والہ کوئی نہیں ہوتا۔ رابعہ پشاور کے دور دراز گاوں سے تعلق رکھتی ہیں جس کے والدین نے ان کو بمشکل یونیورسٹی میں داخلہ دلوایا اور اپنے بچی کی خواہش پوری کرنے کے لیے رابعہ کے باپ نے اپنے ایک قریبی دوست سے قرض لے لیا۔ ''میرے والدین نے مجھے داخلہ تو دلوادیا لیکن وہ اس بات کی طرف کبھی بھی قائل نہیں تھے کہ ہماری بیٹی مردوں کے ساتھ ایک دفتر میں کام کریں گی یا کیمرے پر ائے گی''۔ رابعہ کا کہنا تھا کہ شروع میں میرے والدین اس طرف قائل نہیں تھے کہ میں میڈیا کو بطور رپورٹر جوائن کروں کیونکہ یہ 2009 کا سال تھا جب خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع دہشت گردی کی لپیٹ میں تھے اور پشاور میں ائے روز بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوتے تھے لیکن میں نے اپنے والدین کو بمشکل قائل کیا اور ان کو اعتماد دیا کہ وہ پشاور سمیت خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع کے ان خواتین کی اواز بنے گی جو کہ مرد رپورٹرز سے اپنے مسائل اور مشکلات بیان نہیں کرسکتی اور اسی طرح میں نے ریڈٰیو سے اپنے کیرئر کا اغاز کیا اور آج کل ایک بین الاقوامی ادارے کے ساتھ منسلک ہوں اور اپنے بوڑھے ماں باپ کا خیال رکھ رہی ہوں اور ان کو مجھ پر ٖفخر ہے۔ رابعہ کہتی ہیں کہ ان کو دہشت گردی کے واقعات کو کور کرنے اور ہسپتالوں میں بم دھماکوں میں زخمی اور لواحقین سے بات کرنے میں نہ صرف مشکل پیش ارہی تھی بلکہ کبھی کبھی وہ خود بھی روتی تھی لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور جتنے یہ واقعات رنجیدہ تھے اسی طرح ان واقعات سے اس نے بہت کچھ سیکھا ۔

رابعہ اکیلی نہیں کہ وہ صحافت کی ڈگری کے بعد مشکلات کا سامنا کرتی رہی بلکہ رابعہ جیسی کئی خواتین ایسی ہیں جو کہ بطور صحافی کئی مشکلات کا سامنا کررہی ہیں خصوصا خیبر پختونخواہ کے ان دور دراز علاقوں میں جہاں آج بھی خواتین کی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور اکثر بچیوں کو اس لیے پڑھایا نہیں جاتا کیونکہ ان کے والدین یہ کہتے ہیں کہ اس کو ویسے بھی پرائے گھر جانا ہیں اور اس کی شادی کروانی ہیں تو اس کو کیوں پڑھایا جائے۔ اگر چہ پاکستان میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی ہر میدان میں اپنا نام کمایا ہیں اور اپنے ملک کا نام روشن کیا ہیں ۔ پاکستان بیورو اف سٹیٹکس کے 2017 کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل ابادی 20 کروڑ 77 لاکھ ۔74 ہزار ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں مردوں کی تعداد 10 کروڑ 64 لاکھ 49 ہزار 322 جبکہ خواتین کی ابادی 10 کروڑ 13 لاکھ 14 ہزار780 ہے ۔ابادی کا 51 فیصد حصہ مردوں اور 48.76 فیصد خواتین پر مشتمل ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوکر کام کرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ممالک ہم سے بہت اگے جاچکے ہیں۔ جہاں کام کرنے والی خواتین کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہیں وہاں پر صحافت سے وابستہ خواتین بھی کئی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کررہی ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین اف جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ 20 ہزار خواتین صحافی کام کرہی ہیں جب کہ خیبر یونین اف جرنلسٹ کے مطابق پشاور میں خواتین رپورٹر کی تعداد 20 کے قریب ہیں۔ فیڈرل یونین اف جرنلسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2000 کے بعد ملک میں پرائیوٹ نیوز چینلز کی وجہ سے خواتین صحافیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ جہاں پر خواتین صحافیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے وہاں پر خواتین صحافیوں کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے ۔ خصوصا وہ خواتین جو کہ پشاور میں ہنگامی صورت حال میں رپورٹنگ کرتی ہیں۔ پرائویٹ چینلز کے ساتھ منسلک ایسی ہی ایک خاتون صحافی مدیحہ آرمی پبلک اسکول میں جن معصوم بچوں کو قتل کیا گیا تھا اس کی رپورٹنگ میں لائو بیپر کے دوران رو پڑی کیونکہ اس وقت ان بچوں میں ان کے اپنے کزن بھی شامل تھے ۔ انیلہ شاہین جو کہ خیبر یونین اف جرنلسٹ کی وائس پریزڈنٹ ہے اور پچھلے 10 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں نے ایکسپریس نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا بالعموم اور پشاور میں بلخصوص خواتین صحافی کئی مشکلات سے دوچار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین صحافیوں کو مردوں کے مقابلے میں ان کی کم تنخواہ مقرر کی جاتی ہیں جب کہ ان کو دیر تک افس میں رکھنے پر بھی یہ ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہیں ۔ انیلہ شاہین کا کہنا تھا کہ وہ 2009 سے اب تک کئی مرتبہ پشاور پریس کلب کی اہم عہدوں سمیت خیبر یونین اف جرنلسٹ کے عہدوں پر بھی رہ چکی ہیں اور خواتین صحافیوں کی مختلف فورم پر ان کے حقوق کے لیے میڈیا اداروں کے مشران کے ساتھ بات کرچکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی ہماری ایک جونئر صحافی سبا رانی جو کہ صحافت کے ساتھ پچھلے تین چار سالوں کے ساتھ منسلک تھی ان کو نوکری سے فارغ کردیا گیا ۔ان کا کہنا تھا کہ پشاور میں خواتین کو دفاتر میں کوئی ہراسمنٹ یا دیگر مسائل نہیں البتہ کبھی کبھی ان کو اپنے خواتین ساتھیوں سے مشکلات ضرور ہوتی ہیں۔

رفعت شاہ جو کہ ایک پرائیوٹ نیوز چینلز کے ساتھ پشاور میں بطور رپورٹر کام کررہی ہیں نے اس حوالے سے ایکسپریس نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسلام اباد میں دو سال تک کام کیا اور ان کو وہاں پر کوئی مسئلہ پیش نہیں آرہا تھا کیونکہ وہاں ان کو کوئی کلچر بیریئر نہیں تھا کہ ان کا دوپٹہ اس نے سر پر اوڑھا ہوا ہے یا ان کے ڈریس کیسے ہیں ان تمام چیزوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میں ازادانہ کام کرتی تھی لیکن پشاور میں صحافت میں اپ کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہیں جیسا کہ جب بھی میں گھر سے آفس کے لیے جاتی ہوں تو سب سے پہلے میں اپنی ڈریس اور دوپٹے کی طرف دیہان دیتی ہوں اسی طرح فیلڈ میں جاتے ہوئے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لوگوں کا گھور گھور کر دیکھنا بھی پریشانی کا باعث بنتا ہے اور خصوصا ایسے حالات میں جب سکیورٹی صورت حال خراب ہوں اور اپ لایئوبیپر دیتے ہوں اور اپ کے ارد گرد لوگ جمع ہوجائے۔ رفعت شاہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ آفس میں ان کے تمام دوسرے ساتھی بڑے تعاون کرتے ہیں اور ان کو کوئی مسئلہ پیش نہیں ایا البتہ ان کو اور دوسرے خواتین صحافیوں کو اکثر اس بات پر افسوس ہوتا ہیں کہ خواتین صحافیوں کو سافٹ بیٹ دیے جاتے ہیں اور ان کو کرائم اور دیگر سیاسی بیٹ نہیں دی جاتی حالانکہ خواتین صحافی تمام بیٹس پر بطور احسن کام سرانجام دے سکتی ہیں۔ رفعت شاہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ پشاور میں لوگ تعلیم یافتہ ہیں لیکن اب بھی پشاور اور خیبر پختونخواہ کے لوگ خواتین صحافیوں کو وہ عزت نہیں دیتے جن کی وہ حقدار ہیں۔

اس حوالے سے جب صوبائی محتسب کے ادارے سے رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے تحت معلومات مانگی گئی کہ پشاور اور خیبر پختونخواہ میں بشمول میڈٰیا افس اور کتنے اداروں کی طرف سے ہراسمنٹ کے درخواست ان کو جمع کیے گئے تو معلومات کے تحت صوبائی محتسب کے ادارے نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب تک ان کو پشاور سمیت خیبر پختونخواہ کے کوئی میڈٰیا ادارے کی طرف سے ہراسمنٹ کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی البتہ دوسرے اداروں کی طرف سے ان کو 21 درخواستیں موصول ہوئی جن میں 18 کیسسز ہراسمنٹ کے جب کہ تین کیسسز جائییداد اور لین دین کے تنازعے کے حوالے سے تھی۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے جنوری 2019 میں سرکاری وغیرسرکاری اداروں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ ہراسانی کے واقعات روکنے کے لیے رخشندہ ناز کو صوبائی محتسب مقرر کیا تھا تاکہ خواتین کو انصاف مہیا کیا جاسکیں۔ اس حوالے سے صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جنوری 2019 سے کام شروع کیا ہیں لیکن اب تک ان کو حکومت کی طرف سے کوئی سہولیات مہیا نہ کی جاسکی۔ انکا کہنا تھا کہ اپنے محدود وسائل میں انہوں نے تمام اداروں کو ہراسمنٹ کے روک تھام کے حوالے سے درخواستیں لکھی ہیں اور ان کو کہا گیا ہے کہ اپنے ادارے میں ہراسمنٹ کی روک تھام کے لیے نوٹس ٹیبل پر معلوماتی کتابچہ بھی اویزان کریں اس کے علاوہ ان کو کہا گیا ہے کہ ادارے میں انٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بھی بنائے ۔ رخشندہ ناز کا کہنا تھا کہ وہ بہت جلد مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کا دورہ کریں گی اور جو ادارہ ہماری ہدایات پر عمل نہیں کرئے گی انکو ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جائے گا۔

جامعہ پشاور کے لیکچرر علی عمران بنگش کا کہنا تھا کہ خواتین صحافیوں کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ا ن کا کہنا تھا کہ ہرسال 100 کے قریب طلبا و طالبات جرنلزم ڈیپاٹمنٹ میں داخلہ لیتی ہیں جن میں 40 تک طالبات مارننگ اور اور ایوننگ شفٹ میں ہوتی ہیں۔ علی عمران کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ تمام طالبات عملی صحافت میں کم اتی ہیں لیکن موجودہ وقت میں ہر سال ان 40 طالبات میں 20 طالبات عملی صحافت میں قدم رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عملی صحافت میں قدم رکھنے سے پہلے شعبہ صحافت میں ان کو ویڈٰیو اور ریڈیو صحافت باقاعدہ طور پر سکھائی جاتی ہیں تاکہ ان کو عملی صحافت میں کوئی مشکلات کا سامنا نہ ہوں۔علی عمران کا مزید کہنا تھا کہ اگر چہ پاکستان میں میڈٰیا آجکل بحران کا سامنا کرہی ہیں لیکن ان کے طالبات مختلف میڈٰیا اداروں میں اپنا کام بطور احسن طریقے سے سرانجام دے رہی ہیں۔

پشاور پریس کلب کے جنرل سیکٹری ظفر خان نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پشاور پریس کلب میں کل 20 خواتین رپورٹر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پشاور پریس کلب خواتین صحافیوں کے لیے ٹور اور دیگر اسپورٹس ایونٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بھی پشاور پریس کلب کی میٹنگ ہوتی ہے تو اس میں خواتین صحافیوں کو بات کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے مسائل اچھے طریقے سے پیش کرسکیں۔ ظفر خان کا کہنا تھا کہ پشاور پریس کلب میں ہر سال الیکشن میں خواتین صحافی بھی مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لیتی ہیں اور ہر سال کم از کم ایک خاتون صحافی ان کے جنرل باڈی کا حصہ ہوتی ہے جو کہ اہم فیصلوں میں پریس کلب کے صدر کو خواتین صحافیوں کے مشکلات اور ان کے حل کے لیے بات کرتی ہیں۔ ظفر خان کا کہنا تھا کہ پشاور کے ایک پرائیوٹ نیوز چینل کے ساتھ ہماری ایک خاتون صحافی بطور بیوروچیف کام کررہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر چہ پشاورہمیشہ سے بم دھماکوں اور دیگر ناخوش گوار خبروں کی لپیٹ میں رہا لیکن یہاں پر خواتین صحافیوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور پشاور کے خواتین صحافی آج نہ صرف پشاور میں بلکہ اسلام اباد اور دوسرے غیر ملکی میڈٰیا اداروں کے ساتھ با احسن طریقے سے اپنے شعبے میں کارہائے نمایاں کام سرانجام دے رہی ہیں۔

خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی سے جب خواتین صحافیوں کے چیلنجز کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ موجودہ حکومت آزاد میڈٰیا پر یقین رکھتا ہیں اور صحافت پر جتنا حق مردوں کا ہے اتنا ہی حق اس شعبے پر خواتین کا ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت پشاور پریس کلب کے ساتھ رابطے میں ہیں اور خواتین صحافیوں کو جو بھی مشکلات درپیش ہوں ان کا بھرپور ازالہ کریں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت میڈیا مالکان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور خواتین صحافیوں کو مزید سہولیات جیسے ان کی تنخواہیں بڑھانا اور ان کو بہتر سہولیات مرتب کرنے کے حوالےسے بات کی گئی ہیں اور بہت جلد میڈٰیا حکومت کو اس تجویز پر عمل رہیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں