نتائج انتخابات کے یا مودی سرکار کے

ہوسکتا ہے کہ ہندوستان کے خدوخال بدل ہی جائیں کیونکہ ضروری تو نہیں کہ انسان جیسا سوچے ویسا ہی ہوجائے


Shehla Aijaz June 01, 2019

اور اس سال اگلے پانچ برسوں کے لیے نریندر مودی پھر سے منتخب ہو گئے۔ 2014ء میں انتخابات کے بعد نریندر مودی کی کامیابی کو حیرت سے دیکھا جا رہا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے چائے فروخت کرنے کے عمل کو خاصا اچھالا جا رہا تھا۔

یعنی مودی جی اس قدر عام سے آدمی ہیں کہ ماضی میں چائے تک بیچتے تھے جب کہ ان کے وزارتی دور میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے ڈنکے تو بین الاقوامی سطح پر بج چکے تھے پر اس پر بات نہیں کی جا رہی تھی ان ایشوز کی تشہیر تو ہمارے میڈیا نے ہی تھوڑی بہت کی تو کی ورنہ چائے والے کی کہانی تو بڑی پر اثر رہی۔

2019ء میں ہونے والے انتخابات سے پہلے ایک تاثر عام تھا کہ کیونکہ مودی حکومت نے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی سوائے پاکستانی مخالفت پرچار کے لہٰذا اس بار ان کی ناکامی پکی ہے ۔ راہول گاندھی جوان خون اپنے نئے ٹریک کے لیے بہت کچھ پہلے سے ہی طے کر چکے تھے اور بس او کے کی دیر تھی کہ مودی کی جیت جیسے بپھری ہوئی لہروں کی مانند امنڈ کر سامنے آ گئی۔ یہ بھی درست ہے کہ انتخابی دور سے پہلے اور درمیان میں بھی کہیں سے یہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ بی جے پی کی سرکار انتخابات میں کھڑی ہو رہی ہے کیونکہ تمام سرکاری چینلز انھی کا راگ الاپ رہے تھے ۔ اتر پردیش (یو پی) کے وفاقی وزیر یوگی ادتیہ ناتھ تو پہلے ہی مودی کو اپنے تئیں منتخب کروا چکے تھے۔

بقول ان کے کیونکہ مودی جی بھارت میں ٹوائلٹ اور غریبوں کے لیے فیول مہیا کرنے پر بھرپور توجہ دے رہے ہیں وہ پہلے بھی مودی کے لیے اس قدر شدت میں مہم چلا رہے تھے، حالانکہ ان پر بین لگا دیا گیا تھا ۔ مودی کی جیت میں ان کی بھرپور حمایت اور مہم کو ہرگز بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کا خیال تو یہ بھی ہے کہ اگلے پچیس برسوں تک مودی حکومت چلائیں گے۔ کیونکہ ان جیسے انتہا پسند کو وزارت کی اعلیٰ کرسی کے لیے منتخب کرنے کا کام مودی جیسے اعلیٰ پائے کے انسان ہی کر سکتے تھے۔

یاد رہے کہ یوگی ادتیہ ناتھ مسلمانوں کے شدت سے مخالف ہیں ان کی اسی انتہا پسندی کی سرگرمیوں کے باعث ان پر پابندی عائد کی گئی تھی لیکن اس دوران بھی انھوں نے ایودھیہ اور لکھنو کے ہنومان مندر میں بڑے دبنگ انداز میں انٹری دے کر ان جذباتی ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کیا جن کے خیال میں ان کا دھرم ہی ان کے لیے سب سے اہم ہے۔دھرم کا پاٹ پڑھانے والے مودی جی نے جس شدت پسندی کو گجرات میں اپنے وزارتی دور میں ہوا دی تھی۔ پچھلے پانچ برسوں میں بھی وہ اسے سلگاتے ہی رہے ورنہ محض ہزاروں ٹوائلٹس تعمیر کرنے کی وجہ کیا ایک بڑے انتخاب کی کامیابی کا سبب بن سکتی ہے؟

چند مہینے پیشتر ان نئے تعمیر شدہ ٹوائلٹس کے حوالے سے بھی بڑی دلچسپ خبریں اور ویڈیوز سرگرم رہیں یعنی ایک ہی ٹوائلٹ کو مختلف پبلک مقامات پر رکھ کر اشتہارات بنا دیے گئے ان میں بھی اس قدر عجلت اور بے پرواہی کہ ماڈل کو بھی تبدیل کرنے کی زحمت نہ کی گئی ۔ گاؤں گاؤں شہر شہر ان پبلک ٹوائلٹس کے قیام میں کس قدر کی سچائی ہے یہ تو وہاں کے عام شہری ہی بتا سکتے ہیں لیکن مذہبی عنصر کو ٹارگٹ کر کے ووٹرز کو مخاطب کرنے کی اشتہاری مہم خاصی کامیاب رہی۔

آیندہ چند مہینوں میں یہ مہم اور کیا رنگ دکھاتی ہے جب کہ پہلے دن ہی کشمیری حریت پسند برہان وانی کے قریبی ساتھی ذاکر موسی کو شہید کر دیا گیا اب اسے وہ غدار، جہادی یا بھارت مخالف کہہ لیں لیکن وہ شخص کشمیر کی آزادی چاہتا تھا گو یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ایک عام ناظر کی رائے یہی ہے کہ ابھی بی جے پی کی سرکار کے دوسرے دور کے ہی چند دنوں میں یہ حال ہے تو آگے کیا بھارت کے مسلمانوں کا مستقبل محفوظ ہے؟

ممبئی کی ایک ریسرچ کمپنی سینٹرل مانیٹرنگ انڈیا اکانومی کے مطابق مودی سرکار نے ان سے بہت سے اعداد و شمار چھپائے ہیں جو پچھلے چند برسوں میں ہونے والی سرگرمی سے لوگوں کو باخبر رکھ سکتی تھی۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے یہ اعداد و شمار اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن مودی سرکار نے چونکہ اپنے پچھلے دور میں سوائے نفرتوں کو فروغ دینے کے کوئی خاص کام نہیں کیا لہٰذا وہ اپنے کرتوتوں پر پردہ ہی رکھنا چاہتے تھے اور انھوں نے ایسا ہی کیا، بھاری مینڈت والی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری کا تھا جو اب بھی برقرار ہے لیکن اس کے سدباب کے لیے انھوں نے صرف پرچار کیا اور نوجوان طبقے کے لیے بڑی ہانک لگائی تو تھی لیکن صرف ٹوائلٹ بنانے پر ہی اکتفا کیا۔

کیا مودی صرف اسی لیے کامیاب ہوئے کہ انھوں نے بھارت میں ٹوائلٹس بنوائے؟ اور بقول شدت پسند ادتیہ ناتھ کے ٹوائلٹس اور فیول کی فراہمی؟ کہیں اس سے مراد ان کی ان اقلیتوں کے خاتمے کی تو نہیں ہے جو بھارت کو مردار محسوس ہو رہے ہیں اور ان کے خیال میں ہندو ازم کا فروغ ہی بہترین پرچار ہے جو آیندہ کے ہندوستان کے خدوخال بدل دے گا۔

ہو سکتا ہے کہ ہندوستان کے خدوخال بدل ہی جائیں کیونکہ ضروری تو نہیں کہ انسان جیسا سوچے ویسا ہی ہو جائے البتہ بدلنے والے تو بہت کچھ بدل دیتے ہیں۔ ہم بھی دیکھتے ہیں ورنہ فی الحال کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ بقول شاعر:

موسم گل سے فقط اتنا ہوا

کچھ شہیدوں کا لہو تازہ رہا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں