تبدیلی کے منتظر لوگ
نظریات اور اقتصادی حالات انقلاب برپا کرتے ہیں لیکن اقتدار میں بیٹھے احمق لوگ ہر اس بات سے آنکھیں بند رکھتے ہیں۔
جیفرسن کہتا ہے غاصبوں اور آمروں کے خلاف بغاوت خدا کی اتباع ہے۔19 ویں صدی کے وسط تک تقریباً پوری دنیا میں اختیارات بادشاہوں وآمروں سے عوام تک منتقل ہوچکے تھے جب کہ پوری دنیاکے برعکس 20 ویں صدی میں بھی پاکستان کے عوام اختیارات سے محروم ہیں اوراپنے اختیارات حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں جب کہ اختیارات کے اصل مالک عوام ہی ہوتے ہیں۔
آزادی کے71 سال گذر جانے کے بعد بھی آج ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے سفرکاآغاز کیا تھا، سفر کے آغازکے وقت لوگوں نے خوشحالی، ترقی اور بااختیار ہونے کے خواب دیکھے تھے اور اس خواب کو سچ ثابت کرنے کے لیے انھوں نے طویل جدوجہدکی، ان گنت جانی ومالی قربانیاں دیں لیکن 71 سال بیت جانے کے بعد بھی ملک کے اصل مالک غریب ، مفلس ، بدحال ، لاچار اور بے اختیار ہی رہے۔ خوشحال، بااختیار ہونے کے خواب پورا ہونے کے بجائے ڈرائونے خواب بن کر رہ گئے۔
18 ویں صدی میں انگلینڈ میں رونما ہونے والا صنعتی انقلاب یقینا اہم تھا لیکن یہ رینگتا ہوا آگے بڑھا اوربہت سے لوگوں کو اس کی آمد تک کچھ پتہ نہ چلااورکچھ ہی لوگوں نے اس کی اہمیت کو محسو س کیاجب کہ اس کے برعکس انقلاب فرانس اچانک پھٹ پڑا اور یورپ حیران رہ گیا ۔ یورپ اس وقت بادشاہوں اور شہنشا ہوں کے چنگل میں تھا قدیم رومن سلطنت فعال نہیں رہی تھی لیکن یہ کاغذوں میں موجود تھی اور اس کا بھوت پورے یورپ پر سایہ فگن تھا بادشاہوں ، شہنشاہوں ، درباروں اور محلوں کی دنیا کے برعکس عام لوگوں کی سطح سے یہ حیرت انگیز اور خوفناک طوفان اٹھا جس نے مراعات یافتہ طبقہ ، امرا، اور بادشاہ کو پٹک کر رکھ دیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ یورپ کے بادشاہ اور مراعات یافتہ طبقہ اس عوامی انقلاب کے سامنے خو ف سے کانپنے لگا اور اسی عوام سے خوفزدہ ہوگیا جس کو ذرہ برابر اہمیت نہ دی جاتی تھی اسی عوام کو انھوں نے ایک طویل عرصہ نظرانداز کر رکھا تھا اور انھیں بری طرح سے دبا کے رکھا ہوا تھا۔ انقلاب فرانس آتش فشاں کی طرح پھٹا ۔ انقلاب اور آتش فشاں کسی وجہ یا طویل عمل کے بغیر اچانک نہیں پھٹا کرتے ہم اچانک دھماکے کو دیکھتے ہیں اور حیران و پریشان ہوجاتے ہیں لیکن یہ سب کچھ پلک جھپکنے میں نہیں ہوا کرتا ہے۔
زمین کی بالائی سطح کے نیچے بہت سے قوتیں ایک عرصہ تک ایک دوسرے کے خلاف کام کرتی ہیں لاوہ پکتارہتا ہے پھر زمین کی پرت اسے مزید دبانے میں ناکام ہو جاتی ہے اور پگھلتا ہوا لاوہ پہاڑکا دھانہ پھاڑکر باہر بہہ نکلتا ہے، بالکل اسی طرح جو قوتیں انقلاب میں پھٹ کر باہر آنکلتی ہیں وہ دراصل معاشرے کی زمین کے نیچے عرصے تک لاوہ کی طرح پکتی رہتی ہیں اگر پانی کو گرم کریں تو بالآخر وہ ابل پڑتا ہے لیکن یہ ابلنے کے نقطے تک اسی وقت پہنچتا ہے، جب اسے گرم سے گرم کرتے جائیں ۔ نظریات اور اقتصادی حالات انقلاب برپا کرتے ہیں لیکن اقتدار میں بیٹھے احمق لوگ ہر اس بات سے آنکھیں بند رکھتے ہیں جوان کے لیے موزوں نہیں ہوتی اور سمجھتے رہتے ہیں کہ انقلاب احتجاج کرنے والے لوگ لاتے ہیں اور ان کو دبانے سے انقلاب دب جاتا ہے۔
احتجاج کرنے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہوتے اور تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے لیے کام کرتے رہتے ہیں وہ بذات خو د انقلابی نہیں ہوتے لیکن ہر انقلابی دورکو ایسے عناصر کی معاونت میسر رہتی ہے جو عدم اطمینان اور ہیجان کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں لوگ محض کسی احتجاج کے اشارے پر بڑا قدم اٹھانے کے لیے متحر ک نہیں ہوجاتے۔
لوگ تو اپنے تحفظ کو سب چیزوں پر مقدم رکھتے ہیں ان کے پاس جوکچھ ہوتا ہے ، اسے بھی گنوانے کاخطرہ نہیں لیتے لیکن جب اقتصادی حالات، بے اختیاری،ان کے نمائندوں کا بے اختیار ہونا، ان کے ووٹ کوکوئی اہمیت اور ان کی رائے کوکوئی حیثیت نہ دینا ، مہنگائی ، بے روزگاری جیسے حالات ہوں اور لوگوں کے روزمر ہ کے مسائل بڑھتے جائیں اور زندگی ناقابل برداشت بوجھ بن جائے تو پھرکمزور سے کمزور آدمی بھی خطرے سے کھیل جانے پر تیارہوجاتا ہے پھر وہ احتجا ج کرنے والوں کی آواز بھی سن لیتا ہے کیونکہ اسے محسوس ہوتاہے کہ یہ ہی اس کی مصیبتوں ، دکھوں اور مشکلات کے خاتمے کا راستہ دکھا رہا ہے۔
پاکستان آج انقلاب کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، انقلاب عوام کے ذہنوں اور دلوں میں دستک دے رہا ہے ملک کے عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ خوشحال اور بااختیار ہونا چاہتے ہیں۔آج جب کہ پوری دنیا میں مختلف ممالک اپنے آپ کو مزید معاشی اور سیاسی طورپر مستحکم کرنے کی کو ششوں میں لگے ہوئے ہیں جب کہ ہم اختیارات کے عدم توازن کے ایسے گورکھ دھندے میں پڑے ہوئے ہیں کہ جس سے نکلنا بغیرکشیدگی کے ممکن نظر نہیں آرہا۔
پاکستان کے عوام ایسا ملک چاہے ہیں جہاں دہشت گردی نہ ہو، جہاں کوئی مذہبی جنونیت نہ ہو۔ جہاں مہنگائی اور بیروزگاری نہ ہو۔ جہاں تعلیم عام ہو۔ لوگو ں کو مفت صحت ، پینے کا صاف پانی میسر ہو جہاں لوڈ شیڈنگ نہ ہو ، جہاں معاشرے میں عدم برداشت نہ ہو ارسطو کہتا ہے کہ جس نے ریاست کی بنیاد رکھی ہے وہ محسنوں میں سب سے بڑا تھا ریاست کا مقصد اچھی زندگی ہے ریاست کنبوں اورگائوں کا ایسا اجتماع ہے جس میں زندگی خود کفیل ہو جس کے معنی پر مسرت اور باعزت زندگی ہے ۔
ایک سیاسی معاشرے کا وجود محض اجتماع کے لیے نہیں بلکہ بہترین اعمال کے لیے تشکیل پاتا ہے وہ کہتا ہے سیاست انسان تخلیق نہیں کرتی بلکہ جیسے ہیں ان ہی سے کام لیتی ہے حکومت کا کام عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے ۔اس طرح سیاست اخلاقیات میں تبدیل ہوجاتی ہے مملکت کا وجود انسانوں کے لیے ہے انسانوں کاوجود مملکت کے لیے نہیں ہے انسان تو بس ایک ہی مقصد کے لیے پیدا ہوتا ہے اور وہ ہے خوش ہونا۔
اس وقت ناانصافی ، غربت و افلاس ، عدم مساوات ، ظلم وستم و عدم برداشت کی دنیا بھر میں سب سے زیادہ وحشت زدہ تصویر پاکستان ہے جسے دیکھ کر دنیا کے انسان دہشت زدہ ہوجاتے ہیں ۔جتنی بر بادی اور زیادتی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ ہوئی ہے اس کی مثال ملنا ناممکن ہے ۔ پاکستان کے لوگوں کو پتھر سمجھنے والوں یاد رکھو، وہ بھی گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں ، ان کے سینوں میں بھی دل دھڑکتا ہے وہ بھی خواب دیکھتے ہیں ، وہ بھی سوچتے ہیں ، ان کو اتنا ذلیل وخوار نہ کرو کہ تمہار ی زندگیوں کے لالے پڑجائیں کیونکہ جب لاوہ پھٹا ہے تو سامنے آنے والی ہر چیزکو تہس نہس کردیتا ہے۔ یاد رکھو لاوہ پھٹنے کو ہے دیکھتے ہیں کون بچتا ہے اورکون لاوے کی زد میں آکر جل جاتا ہے۔