’’کاپی رائٹ‘‘
ضرورت صرف باہمی اتحاد ، صحیح فیصلوں اور مناسب منصوبہ بندی کی ہے۔
KARACHI:
کیسی عجیب بات ہے کہ پڑھے لکھے لوگ تو ایک طرف کاپی رائٹ سے براہ راست تعلق رکھنے والے بیشتر دوستوں کے لیے بھی یہ اصطلاح یا قانون کسی ایسے گمنام جزیرے کی طرح ہے کہ جو کہیں ہے تو سہی مگر کیوں ، کہاں اور کیسے ہے اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔
اتفاق سے یہ بے خبری کا عالم زیادہ تر ہمارے جیسے تیسری دنیا کے اُن ملکوں میں بھی پایا جاتا ہے جنھیں اپنے حقوق کی نوعیت، حُرمت اور حفاظت کے بارے میں بھی ٹھیک سے کسی بات کا کچھ پتہ نہیں۔ زیادہ سے زیادہ رائلٹی نامی ایک لفظ ہے جس سے کچھ خاص شعبوں کے لوگ واقف ہوتے ہیں مگر کچھ کچھ اس طرح کہ
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں
مجھے اتنا تو پتہ تھا کہ پاکستان عالمی سطح پر دانشورانہ حقوق Intelectual Property Rights کے معاہدے کے دستخط کنندگان میں شامل ہے مگر پاکستان میں اس کا عملی سطح پر اطلاق کیسے ہوتا ہے اس سے پہلی واقفیت مجھے ستّر کی دہائی کے درمیانی برسوں میں اس وقت ہوئی جب میرے مرحوم موسیقار دوست خلیل احمد نے مجھ سے ایک فارم پر یہ کہہ کر دستخط کروائے کہ وہ ایک ایسا ادارہ بنانے جارہے ہیں جو فنکاروں کی رائلٹی اور اُن کے دیگر حقوق کی حفاظت کرے گا جب کہ اس سے دوسرا تعارف چند برس قبل اس وقت ہوا جب مجھے صوبہ پنجاب کی طرف سے IPO کمیٹی کا ممبر مقرر کیا گیا جس کی سال میں شائد دو میٹنگز ہوا کرتی تھیں مگر یہ محکمہ بھی بہت سے دیگر محکموں کی طرح بس برائے نام ہی چل رہا تھا اور کمیٹی کے پاس جو مقدمات آتے تھے اُن میں سے 98% کا تعلق ٹریڈ مارک سے ہوتا تھا سو وہاں رہ کر بھی کچھ پتہ نہ چل سکا کہ فنکاروں اور تخلیقی سوچ رکھنے والوں کی وہ جائیداد جسے انٹ لیکچوئل پراپرٹی کہتے ہیں وہ کہاں پائی جاتی ہے ؟
سو میری بھی اس مسئلے سے باقاعدہ آگاہی گزشتہ دس پندرہ برس میں ہی ہوئی ہے اور اس کا وسیلہ وہ آدمی بنے جن میں سے ایک کا تعلق پاکستان سے اور دوسرے کا بھارت سے ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ چند برس قبل مجھے کراچی سے عمر شیخ نامی کسی صاحب کا فون آیا کہ وہ مشہورِزمانہ ریکارڈنگ کمپنی EME کی طرف سے کچھ لوگوں کے واجبات ادا کرنے کے لیے لاہور آرہے ہیں اور میرا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے سو کہاں ملا جائے؟ بعد میں ملاقات پر پتہ چلا کہ ان واجبات کا تعلق خلیل احمد مرحوم کے کروائے ہوئے انھی کے دستخطوں سے تھا جن کی رُو سے EMEکمپنی اُن تمام لوگوں کو رائلٹی ادا کرتی تھی جن کا کوئی نہ کوئی تعلق اُن کی ریلیز کردہ کسی آڈیو آئٹم سے ہوتا تھا۔
مختلف وجوہات کی بنا پر کمپنی نے پاکستان میں کام بند کردیا جس کے قانونی مراحل اب جاکر ختم ہوئے ہیں اور یوں عدالتی فیصلے کے مطابق تمام متعلقہ لوگوں کو اُن کے بقایا جات ادا کیے جارہے ہیں۔ رقم تو بہت معمولی تھی مگر میرے دل پر اس کا خوشگوار اثر بہت زیادہ اور دیر پا تھا کہ ہمارے ملک میں بھی ایسے ادارے موجود ہیں جو لوگوں کے حقوق کی حفاظت کا صرف دعویٰ ہی نہیں کرتے بلکہ عملی طور پر اس کی پابندی کرکے بھی دکھاتے ہیں۔
جس دوسرے دوست نے اس سلسلے میں میری رہنمائی کی وہ مشہور بھارتی فلم رائٹر اور شاعر جاوید اختر ہیں جن سے تعلقِ خاطر کی عمر اب تین دہائیوں سے زیادہ ہوچکی ہے اور ہمیں پاکستان اور بھارت کے علاوہ بھی کئی ملکوں میں (مشاعروں کی وساطت سے) ملاقات کا موقع ملتا رہتا ہے۔ جاوید اختر نے بتایا کہ کس طرح انھوں نے بھارتی لوک سبھا میں اپنی نمائندگی کے عرصے میں کاپی رائٹ کے لیے دن رات کام کرکے ایسی قانون سازی کرادی ہے کہ اب کوئی بھی سیٹھ یا ادارہ کسی بھی فنکار کے حقوق غصب نہیں کرسکے گا اور جس طرح کا بھی معاہدہ اور اقرار نامہ اُس کے پاس ہو اس کے باوجود بھی وہ انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹ کے تحت ایک مخصوص حد تک متعلقہ افراد کو رائلٹی ادا کرنے کا ذمے دار ہوگا اور یہ کہ اس قانون کی وجہ سے اب بھارت میں صورتِ حال پہلے سے بہت بہتر ہوچکی ہے ۔
مجھے بے حد خوشی ہوئی جب کوئی آٹھ برس قبل وہی عمر شیخ صاحب دوبارہ میرے پاس آئے اور بتایا کہ وہ بھی پاکستان میں COMP کے نام سے ایک ایسا ادارہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں جو نہ صرف فنکاروں کے رائلٹی اور پراپرٹی رائٹس کے ضمن میں مطلوبہ قانون سازی کروائے گا بلکہ دونوں پارٹیوں کے درمیان ایک پُل کا کام بھی کرے گا کہ اسی طرح حقدار تک اُس کا حق پہنچنے کے نئے راستے استوار کیے جاسکیں گے اور یہ کہ وہ مجھے اس دارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کرنا چاہتے ہیں اُن کی شخصیت اور گفتگو کے سحر میں آکر میں نے حامی تو بھری مگر اُس وقت تک میری سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ یہ کام ہوگا کیسے ! اس دوران میں بورڈ کی میٹنگز اور اطلاعات کی معرفت پیشرفت کا کچھ احوال تو معلوم ہوتا رہا مگر صورتحال کچھ بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھی۔
چند ماہ قبل اُن سے فون پر بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ متعلقہ Stake holders سے گفتگو نتیجہ خیز مراحل میں داخل ہوچکی ہے اور بورڈ کی اگلی میٹنگ میں وہ اس کی دل خوش کن روداد تفصیل سے بتائیں گے ۔20 مئی کو وہ میٹنگ تو ہوگئی مگر بدقسمتی سے اس سے کوئی دو ماہ قبل عمر شیخ اس مسئلے کے ضمن میں کسی کام کے حوالے سے اسلام آباد جاتے ہوئے کراچی ائیرپورٹ پر دل کے دورے کی وجہ سے گِر پڑے اور کسی طرح کی طبی امداد ملنے سے قبل ہی اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ برادرم حمید ریاض نے جو فی الوقت اپنے بزنس کے علاوہ پاکستان میں ای ایم آئی کے معاملات کو بھی دیکھ رہے ہیں اور پہلے دن سے عمر شیخ اور COMP کے ساتھ بھی وابستہ ہیں اس میٹنگ کا اہتمام کیا جس میں لاہور سے سیّد نور، علی عظمت اور میں نے شرکت کی جب کہ کراچی سے فنکاروں کے حوالے سے ارشد محمود اور صابر ظفر شریک ہوئے جب کہ باقی ممبران کا تعلق زندگی کے دیگر شعبوں سے تھا ۔
حمید ریاض نے بہت احسن اور عام فہم انداز میں اب تک ہونے والی تمام پیشرفت کا خلاصہ بیان کیا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ مرحوم عمر شیخ نے کس خوش اسلوبی سے ہر جگہ اس ادارے کی نمائندگی کی ہے اور اب معاملہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اصولی طور پر تمام Stake holders تقریباً ایک پیج پر آچکے ہیں اور یہ کہ حکومتی سطح پر IPO کے افسران بھی نہ صرف ہر ممکن تعاون پر آمادہ ہیں بلکہ اس بات پر زور بھی دے رہے ہیں کہ ہر طرح کے انٹی لیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی حفاظت کے لیے تمام متعلقہ شعبوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہیے، سو اُمید کی جانی چاہیے کہ اب منزل زیادہ دور نہیں ۔ ضرورت صرف باہمی اتحاد ، صحیح فیصلوں اور مناسب منصوبہ بندی کی ہے اور اگر ہم ایسا کرپائے تو آئندہ کوئی حبیب جالبؔ، مہدی حسن، استاد نذر حسین یا کوئی اور فنکار اپنے زندگی بھر کے کیے ہوئے کام کی رائلٹی سے محروم اور اس کا انتظار کرتا ہوا اس دنیا سے رخصت نہیں ہوگا۔