بھارت کا مستقبل
منصوبے کے تحت مودی اور ان کے حواریوں کا الیکشن جیتنے کا حربہ کامیاب رہا
بھارتی الیکشن کے نتائج سے ثابت ہوگیا ہے کہ وہاں کے عوام میں جذبہ حب الوطنی یقیناً بدرجہ اتم موجود ہے مگر بدقسمتی سے سیاسی شعورکی کمی ہے جب کہ ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے ۔عوام میں سیاسی شعور تو جنون کی حد تک موجود ہے مگر حب الوطنی میں کمی ہے یا پھر مفادات سے منسلک ہے۔
مودی نے بھارتی عوام کے جذبہ وطن پرستی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو بھارت کے ایک دشمن کے طور پر پیش کیا اور عوام کی ہمدردیاں بٹوریں پھر انھیں خوش کرنے کے لیے پاکستان پر نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کرنے کی خوش خبری بھی سنائی۔ حالیہ الیکشن کے قریب آتے ہی پاکستان مخالف پروپیگنڈا تیز سے تیزترکردیا گیا۔ پاکستان سے مزید نفرت بڑھانے کے لیے مودی جی نے خود ہی پلواما میں خودکش دھماکہ کرا کے درجنوں اپنے ہی فوجیوں کو مروا ڈالا مگر الزام پاکستان پر لگایا گیا جسے لوگ سچ سمجھنے پر پاکستان سے بدلہ لینے کے لیے اور عوام کی نظر میں خود ہیرو بننے کے لیے اپنی فضائیہ سے بالاکوٹ پر ناکام حملہ کرا ڈالا اور اسے بہت بڑی کامیابی قرار دے دیا گیا کہ وہاں کیمپ میں موجود سیکڑوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا گیا جب کہ بعد میں یہ سب جھوٹ ثابت ہوا، مگر پاکستان دشمن بھارتی میڈیا کے حقائق کو چھپانے کی وجہ سے عوام مودی کے گرویدہ ہوگئے۔
بس پھر کیا تھا منصوبے کے تحت مودی اور ان کے حواریوں کا الیکشن جیتنے کا حربہ کامیاب رہا۔ مودی الیکشن تو جیت گئے مگر پاکستان سے حالیہ جھڑپ بھارت کو بہت مہنگی پڑی۔ بھارتی فضائیہ کو نہ صرف بھاری نقصان اٹھانا پڑا بلکہ اس کی ساکھ کو بھی مہلک دھچکا پہنچا۔ اگر بھارتی عوام میں پاکستانیوں کی طرح سیاسی شعور ہوتا تو وہ فضائیہ کو پہنچنے والے نقصان اور اس کی ساکھ کو خراب کرنے پر مودی سے ضرور جواب طلب کرتے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مودی نے اپنے اقتدارکے گزشتہ پانچ سالوں میں عوام کے لیے کچھ کرنے کے بجائے ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا۔ ملک میں غربت بیروزگاری اور غنڈہ گردی کو عروج پر پہنچادیا۔اس کے علاوہ ان کے راج میں عوام کو نوٹ بندی کی مصیبت جھیلنا پڑی اور جی ایس ٹی سے بڑھنے والی مہنگائی سے وہ تلملا اٹھے۔ اس کی پاداش میں ان کا محاسبہ ہونا چاہیے تھا اور سزا کے طور پر انھیں ووٹ سے محروم رکھنا چاہیے تھا۔ ادھر بھارتی حزب اختلاف کی پارٹیاں مودی کے ہندوتوا کے فلسفے کے آگے ڈھیر ہوگئیں۔
کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی نے انتخابات کے مکمل نتیجے آنے سے قبل ہی ہار مان لی۔ بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے الیکشن سے قبل اعلان کردیا تھا کہ اگر بی جے پی جیتی تو اس کی جیت الیکٹرک ووٹنگ مشینوں کا چمکار ہوگی کیونکہ اس سے پہلے ریاستی الیکشن میں ای وی ایم میں بی جے پی کی جانب سے کی گئی چھیڑ چھاڑ کو پکڑا جاچکا تھا۔ مگر نتیجے آنے پر انھوں نے بھی بی جے پی کی بالادستی کو بلا چوں و چرا قبول کرلیا اور ای وی ایم کے سلسلے میں کسی قسم کی شکایت کا اظہار نہیں کیا جب کہ بعد میں کئی شہروں میں الیکٹرک ووٹنگ مشینوں میں کی گئی کارستانیوں کی خبریں اخباروں کی زینت بنیں۔ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے الیکشن کمشنر سے درخواست کی تھی کہ وہ ووٹوں کی گنتی کرنے سے پہلے کاؤنٹر سلپس کی جانچ پڑتال کرے مگر ان کے مطالبے کو یکسر نظرانداز کردیا گیا اگر پاکستان میں ایسا ہوتا تو نہ جانے کیا ہوجاتا۔ رافل طیارے خریدنے کی ڈیل میں مودی پر بدعنوانی کا ٹھپہ لگ چکا ہے، فرانس کے سابق صدر جن کے زمانے میں یہ ڈیل ہوئی تھی نے خود اس ڈیل میں مودی پر کمیشن وصول کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
جب راہول گاندھی نے انتخابی مہم کے دوران یہ ایشو اٹھایا تو سپریم کورٹ آف انڈیا نے مودی کی درخواست پر رافل ڈیل میں مودی کو بدعنوان کہنے پر پابندی لگا دی تھی۔ اب مودی کی جیت سے لگتا ہے وہاں کے عوام نے مودی کو پاکستان سے نمٹنے کا کھلا مینڈیٹ دے دیا ہے۔ پہلے تو ہم پاکستانی مودی اور آر ایس ایس کو ہی پاکستان اور مسلمانوں کا مخالف خیال کرتے تھے مگر اب تو بھاری اکثریت سے مودی کو جتا کر وہاں کے عوام نے خود کو بھی مودی کا دوست اور آر ایس ایس کا ہمنوا ثابت کردیا ہے۔
کہتے ہیں آر ایس ایس 2023 میں مودی سے پاکستان پر بھرپور حملہ کرانے کا پلان بنا چکی ہے اور یہ جنگ صرف روایتی نہیں ہوگی ایٹمی بھی ہوسکتی ہے دراصل آر ایس ایس پاکستان کو 2023 تک دنیا کے نقشے سے غائب کرانے کا مذموم ارادہ رکھتی ہے مگر پاکستان اس سے ذرا خوفزدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ وہ گزشتہ 72 برس سے بھارت کے جارحانہ عزائم کا مقابلہ کرتا آرہا ہے۔ پاکستانی عوام ملکی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان کی بھی حفاظت کر رہے ہیں مگر اب بھارت کا سیکولرازم کا نظریہ نہ جانے کہاں غائب ہوگیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے وہ دانشور حضرات جو بھارت کے ایک پختہ سیکولر نظریاتی ملک ہونے کا بڑے فخر سے ڈھنڈورا پیٹتے تھے اور پاکستان کو ایک مذہبی جنونی ملک ہونے کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے تھے وہ کیوں خاموش ہیں۔ اندرا گاندھی نے بڑی رعونت سے ایک دفعہ کہا تھا کہ دنیا میں صرف دو ملک نفرت کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں ایک پاکستان اور دوسرا اسرائیل ہے، جنھیں بھارت کبھی دل سے قبول نہیں کرے گا حالات نے کیا پلٹا کھایا کہ کئی برس قبل بھارت اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کرچکا ہے بلکہ اسے اپنا اسٹریٹیجک پارٹنر بھی بنا چکا ہے اور خود مذہبی جنونیت میں انتہا کو پہنچ چکا ہے جس سے دنیا بھر میں بدنام ہو رہا ہے پاکستان ضرور مذہب کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے مگر اب تک یہاں کوئی مذہبی جنونی حکومت برسر اقتدار نہیں آئی ہے۔ یہاں کبھی کوئی مذہبی جماعت بھی الیکشن میں عوامی توجہ کا مرکز نہیں بن سکی۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں معتدل سیاسی پارٹیاں ہی کامیابیاں حاصل کرتی رہی ہیں۔
مودی نے بھارتی عوام کی اکثریت کو بھگوا رنگ میں رنگ کر ہندوتوا کو ایسا مضبوط کردیا ہے کہ اب شاید بھارت کبھی مذہبی جنونیت سے باہر نہ نکل سکے۔مودی نے ساری ہی سیکولر جماعتوں کا صفایا کردیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارتی سیکولر ازم صرف ایک ڈھکوسلا تھا۔ ایسے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت کو خراج تحسین پیش کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ انھوں نے گاندھی اور نہرو کی ہی کیا پوری کانگریس پارٹی کی ذہنیت کو خوب پہچانا تھا نہ جانے کیوں مولانا آزاد ہی کانگریس کی اصلیت کو نہ پہچان سکے۔ اس وقت کانگریس کی مسلسل شکست کی وجہ اس کا ہندوتوا سے مرعوب ہوکر اپنے بچے کچھے سیکولرازم سے منہ موڑ کر خود کو ہندوتوا جیسا بنانا ہے مگر گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے نے اس کی شناخت کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے اور اسی لیے وہ اب مودی کے اصلی ہندوتوا کے سامنے ٹک نہیں پا رہی ہے۔ بہرحال اب بھارت کا مستقبل واضح طور پر رام راج ہے یا پھر ٹائم میگزین کے مضمون نگار آتش تاثیر کے بقول بڑھتی ہوئی نفرت کی وجہ سے کئی ٹکڑوں میں بٹ کر اسے بالآخر بکھر جانا ہے۔