رستم زمان بھولو پہلوان کو ہم سے بچھڑے 34 برس بیت گئے
1962 میں حکومت پاکستان نے بھولو پہلوان کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے اعزاز سے نوازا
نامور رستم زمان بھولو پہلوان کو ہم سے بچھڑے 34 برس بیت گئے۔
وہ دسمبر1922ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے اور3جون 1985ءمیں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے ، 1931 میں بھولو کے والد امام بخش نے انہیں تربیت کے لئے ان کے ماموں حمیدا پہلوان کے سپرد کردیا۔ جنہوں نے فقط چار برس کی تربیت میں بھولو کو اس قابل بنادیا کہ وہ اپنے جوڑ کے کسی بھی پہلوان سے مقابلہ کرنے کے لئے اکھاڑے میں اتر سکتے تھے۔ 18 برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بھولو نے ہندوستان رجواڑوں اور مسلم ریاستوں کے مانے ہوئے 8 پہلوانوں کو زیر کرلیا تھا۔
1946 تک ایسے شاہی پہلوانوں کو بھی زیر کرلیا تھا جنہیں ریاستوں نے گرز بھی عطا کر رکھے تھے۔قیام پاکستان کے بعد بھولو پاکستان آگئے جہاں 1948ءمیں ان کا سنسنی خیز مقابلہ یونس پہلوان کے ساتھ ہوا۔ کل 8 منٹ کے سنسنی خیز مقابلے کے بعد بھولو پہلوان نے یونس پہلوان کو شکست دے کر رستم پاکستان کا اعزاز حاصل کیا۔ اس وقت سے تادم مرگ روایتی گرز جو اکھاڑے کی بادشاہت کا نشان ہے، بھولو پہلوان کی تحویل میں رہا۔
1960ء میں گاما پہلوان کے انتقال کے بعد انہوں نے دنیا بھر کے پہلوانوں کو کشتی لڑنے کا چیلنج دیا لیکن جن پہلوانوں نے ان کا چیلنج قبول کیا انہیں ان کے چھوٹے بھائیوں نے ایک ایک کرکے زیر کرلیا اور نتیجتاً کوئی بھی پہلوان بھولو سے مقابلے کا اعزاز حاصل نہ کرسکا۔1967ء میں بھولو پہلوان نے اپنے بھائیوں کے ہمراہ انگلستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اینگلو فرینچ ہیوی ویٹ چیمپئن ہنری پیری کو صرف 28 سیکنڈ میں ہراکر رستم زماں کا اعزاز حاصل کرلیا۔
اپنے والد منظورحسین عرف بھولو پہلوان کے بارے میں یادیں تازہ کرتے ہوئے ناصر بھولوکا کہنا تھا کہ رستم زماں گاماں پہلوان کے انتقال کے بعد انہوں نے دنیا بھر کے پہلوانوں کو کشتی لڑنے کا چیلنج دیا لیکن جن پہلوانوں نے ان کا چیلنج قبول کیا ان سے کہا کہ صرف وہی شخص ان سے کشتی لڑ سکتا ہے جو پہلے ان کے پانچوں بھائیوں کو باری باری پچھاڑے گا، چنانچہ دنیا کا کوئی بھی پہلوان بھولو سے مقابلے کا اعزاز حاصل نہ کرسکا، دسمبر 1963 میں ان کو گاما کا جانشین مقرر کیا گیا، ان کو گاما کاگرز، سونے کی پیٹی اور زری پگڑی دی گئی۔
بھولو پہلوان کے بیٹے ناصر بھولو کے نزدیک پہلوانی نام ہے صاف ستھرے کردار کا، ماضی میں اس طرف آنے والے تہجد گزار اور کردار کے کھرے ہوتے تھے، جب بھاری جسم والے ہر ایرے غیرے نے پہلوان کہلوانا شروع کر دیا تو اس شعبے کو بھی زوال آ گیا، بدمعاشی سچے پہلوان کا شیوہ نہیں، والد ہمیں رات کو 2 بجے اٹھا کر ورزش شروع کرا دیتے، ہمیں حکم تھا کہ بیٹھک لگاتے وقت گنتی کی بجائے اللہ ہو کہنا ہے،کشتی کے مقابلوں سے قبل گھروںمیں آیت کریمہ کا ورد کرایا جاتا۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ہمارے ہاں پہلوانی کا معیار یہ تھا کہ مقامی چیمپئن ہی ورلڈ چیمپئن خیال کیا جاتا، 1962 میں حکومت پاکستان نے بھولو پہلوان کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے اعزاز سے نوازا جبکہ 1967 میں بھولوپہلوان کو اس وقت کے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی طرف سے دو لاکھ روپے اور اراضی دی گئی۔3جون 1985ءکو یہ عظیم پہلوان جسے کوئی شکست نہ دے سکا تھا، موت کے ہاتھوں شکست کھا گیا انہیں لاہور میں انہیں کے اکھاڑے میں سپردخاک کیا گیا۔