دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف مشہور کمانڈو کارروائیاں

اسلام آباد واقعے اور حکام کی مضحکہ خیز جوابی کارروائی کے تناظر میں ایک دلچسپ رپورٹ


Muhammad Akhtar September 01, 2013
اسلام آباد واقعے اور حکام کی مضحکہ خیز جوابی کارروائی کے تناظر میں ایک دلچسپ رپورٹ۔ فوٹو: فائل

15 اگست 2013 کی شام کو وفاقی دارالحکومت میں پیش آنے والے واقعے نے پوری قوم کو کئی گھنٹوں ہیجان میں مبتلا کیے رکھا۔

نجانے کس جنون میں مبتلا ایک کار سوار شخص نے ، جس کی بیوی اور دو کمسن بچے بھی اس کے ساتھ تھے، دو جدید گنوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے پورے دارالحکومت کو یوں لگا جیسے یرغمال بنالیا ہو۔ اس شخص کا نام ملک سکندر حیات اوراس کی بیوی کا کنول بتایا جاتا ہے۔سکندر نامی اس شخص نے پہلے شاہراہ دستور پر پولیس پر فائرنگ کی اوراس کے بعد ایک سب مشین گن اور ایک کلاشنکوف ہوا میں لہراتے ہوئے اپنے لایعنی قسم کے مطالبات پیش کرنے لگا۔وہ اسلام آباد کے ہائی سکیورٹی ریڈ زون سے کچھ ہی فاصلے کی دوری پر تھا۔پولیس ، کمانڈوز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے علاوہ عوام کی ایک بڑی تعداد وہاں پر تماشہ دیکھنے کے لیے جمع ہوگئی جبکہ پاکستانی ٹی وی چینلز نے یہ تماشا پورے پاکستان اور پوری دنیا کو براہ راست دکھانا شروع کردیا۔

پولیس اور دیگر کمانڈوز اس پر فائرنگ کرنے سے گریزاں رہے کہ ایسا کرنے سے ملک بھر کو ایک ناخوشگوار اور پرتشدد مظاہرہ دیکھنے کو ملے گا جبکہ دو کمسن بچوں اوران کی ماں کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوگا۔وزیرداخلہ کی جانب سے حکم آیا کہ مسلح شخص کو زندہ گرفتار کیا جائے اور یوں گولی چلانے کا امکان مکمل طور پرختم ہوگیا۔اس طرح کئی بار صاف نشانے پر آنے کے باوجود سکندر پر فائر نہ کیا گیا اور یوں یہ ڈرامہ لگ بھگ چھ گھنٹے تک چلتا رہا۔

عوام اس ڈرامے کے ڈراپ سین کے انتظار میں تھے کہ نجانے کیا ہوگا لیکن پھر غیرمتوقع پر طور پر پیپلزپارٹی کے ایک مقامی رہنما زمرد خان مسلح شخص کے کمسن بچوں سے پیار کرنے اور ہاتھ ملانے کے بہانے آگے بڑھے اور اچانک مسلح شخص پر جھپٹ پڑے۔اس کے بعد جو کچھ ہوا ، وہ پوری دنیا نے دیکھا۔زمرد خان کے اقدام کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کارروائی کا موقع مل گیا اور انہوں نے مسلح شخص کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا اور پھر دبوچ لیا۔اس اقدام میں زمرد خان کی جان بھی بال بال بچی۔



اس واقعے کے بعد میڈیا پر دھواں دار تبصرے اور تجزیے سامنے آنے لگے کہ کروڑوں روپے تنخواہ اور مراعات لینے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار، کمانڈوز اور نشانہ باز مسلح شخص پر بروقت کنٹرول نہ کرسکے اور اس کے برعکس ایک سویلین اور غیرتربیت یافتہ شخص نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ڈرامے کو اپنے انجام تک پہنچایا۔ زمرد خان کے اقدام پر لوگوں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ۔ کسی نے اسے بہادری اور کسی نے بے وقوفی قراردیا۔ حتیٰ کہ موجودہ حکومت کے ایک سینیئر رہنما اور صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ نے بھی زمرد خان کے اقدام کوحماقت کا نام دیا۔ بروقت آپریشن نہ کرنے اور معاملے کو بلاوجہ طول دے کر ملک بھر میں ہیجان پھیلانے اور دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کی وجہ بننے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ اس واقعے کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مربوط اور خفیہ کمانڈو ایکشن ہونا چاہیے تھا تاکہ ملزم کو واقعے کو طول دینے سے روکا جاتا۔ اس طرح کہا گیاکہ زمرد خان کے بجائے چالاکی کے ساتھ بہت پہلے ہی کسی مارشل آرٹ کے ماہر کمانڈو کو بہانے سے سکندر کے قریب بھیج دیا جاتا تو زمرد کے مقابلے میں وہ کمانڈو سکندر کو آسانی سے کنٹرول کرسکتا تھا اور جس طرح زمرد خان کی زندگی خطرے میں پڑی ، اس طرح کمانڈو کی زندگی خطرے میں نہ پڑتی کیونکہ مارشل آرٹ کا ماہر ہونے کی وجہ سے وہ سکندر کو آسانی سے کنٹرول کرسکتا تھا۔ یہ کمانڈو ایکشن بہت پہلے ہی ہوجانا چاہیے تھا۔

دنیا میں دہشت گرد ی کے اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جن کے بعد متعلقہ ملکوں کی افواج اور کمانڈوز نے کارروائی کی۔ وہ اس کارروائی میں ناکام رہے یا کامیاب یہ ایک الگ بحث ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسے کمانڈو ایکشن بڑے مربوط انداز میں اور جدید طریقے سے کیے جاتے ہیں۔اسلام آباد واقعے میں پاکستانی حکام مکمل طورپر ناکام ہوئے اور ایک سویلین نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ملزم کو قابو کرنے میں مدد دی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جس وقت ملزم قابو میں آچکا تھا ، اس وقت پولیس اہلکاروں اور نشانہ بازوں کی جانب سے ہوائی فائرنگ کرنا ایک بچگانہ اور مضحکہ خیز عمل تھا۔ملزم کے پکڑے جانے کے بعد ہوائی فائرنگ کرکے وہ نجانے کیا ثابت کرنا چاہتے تھے۔



اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ جس وقت ملزم کو گولیاں ماری گئیں ، اس وقت وہ ہتھیار ڈال چکا تھا اوراس کی جانب سے کسی جان لیوا اقدام کا کوئی ارادہ نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اس طرح بلاوجہ گولیاں چلاکر کروڑوں افراد میں ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو یہ مناظر اپنی ٹی وی سکرینوں پردیکھ رہے تھے۔بالفرض اگر گولیاں لگنے کے نتیجے میں وہ مرجاتا تو حکام ایک ٹھوس اور براہ راست شہادت سے محروم ہوجاتے۔یہ تو ڈاکٹروں اور سرجنوں کی مہارت تھی کہ انہوں نے اس کی جان بچالی ورنہ مسلح سرکاری اہلکاروں نے تو اسے مارنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔اب آخری اطلاعات کے مطابق جان بچنے کے بعد وہ اہم معلومات فراہم کررہا ہے۔آئیے ذیل میں آپ کو دنیا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے اس قسم کے واقعات اور ان سے نمٹنے کے لیے یا جوابی اقدام کی غرض سے کیے جانے والے کمانڈو ایکشنز کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں:

ماسکو تھیٹر آپریشن

23اکتوبر 2002 میں روس سے آزادی کے طالب چیچن عسکریت پسندوں نے ماسکو کے ایک سینما گھر میں داخل ہوکر 850 سے زائد افراد کو یرغمال بنالیا تھا۔جدید ہتھیاروں سے لیس ان عسکریت پسندوں کی تعداد چالیس سے پچاس تھی اور وہ شائقین سے بھرے ڈوبرووکا تھیٹر (Dubrovka Theater)میں داخل ہوگئے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا تعلق چیچنیا کی ایک علیحدگی پسند اسلامی تحریک سے ہے۔ان عسکریت پسندوں میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ انہوں نے تھیٹر میں موجود ساڑھے آٹھ سو افراد کو یرغمال بنانے کے بعد مطالبہ کیا کہ روسی فوج چیچنیا سے نکل جائے اور ''دوسری چیچن جنگ'' کو ختم کرے۔سرکاری طور پر ملنے والی معلومات کے مطابق دہشت گردی کے اس واقعے کی قیادت مووسار بریاف نامی چیچن عسکریت پسند کررہا تھا۔دہشت گردی کا یہ واقعہ لگ بھگ اڑھائی دن تک چلتا رہا اور آخرکار روس کی الفا گروپ کمانڈو فورس نے ایک نامعلوم گیس عمارت کے وینٹی لیشن سسٹم کے ذریعے اندر چھوڑی دی اور اس کے بعد تھیٹر پر دھاوا بول دیا۔

کمانڈو ایکشن کے دوران گیس کے زہریلے اثرات سے تمام چالیس چیچن عسکریت پسندوں کے علاوہ 130 سے زائد یرغمالی بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔مرنے والوں میں نو غیرملکی بھی شامل تھے۔ایک رپورٹ کے مطابق صرف دو عسکریت پسندوں کے سوا تمام عسکریت پسند زہریلی گیس کی وجہ سے ہلاک ہوئے جو کہ انہیں بے ہوش کرنے کے لیے عمارت میں چھوڑی گئی تھی۔کمانڈو آپریشن کے دوران اس گیس کے استعمال پر روس پر شد ید تنقید کی گئی اور اس کی مذمت کی گئی۔تاہم روس کا موقف تھا کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ عسکریت پسندوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ان کے خلاف کارروائی کے لیے اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔روس کا موقف تھا کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تب بھی عسکریت پسندوں کی جانب سے یرغمالیوں کی ہلاکت سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ دوسری جانب گیس کا نام نہ بتانے پر ڈاکٹروں نے بھی روس کی مذمت کی اور کہا کہ اگر وہ گیس کا نام بتادیتے تو انہیں لوگوں کی جان بچانے میں مدد ملتی۔ بعض رپورٹوں کے مطابق کچھ افراد کی جانیں بچانے کے لیے naloxone نامی دوا بہت کامیاب ثابت ہوئی۔



اسرائیلی کمانڈو ایکشن ''قہر خداوندی''

1972 میں فلسطینی عسکریت پسندوں نے میونخ اولمپک گیمز میں حملہ کرکے 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ اس المناک واقعے کے بعد اسرائیل حکام نے ایک خفیہ منصوبہ بنایا جس کا مقصد دہشت گردی کے اس واقعے کا انتقام لینا اور اس میں ملوث تمام افراد کو ہلا ک کرنا تھا۔اس آپریشن کا نام ''قہر خداوندی'' (Wrath of God) تھا جس کے دوران دنیا کے مختلف ملکوں میں کارروائیاں کی گئیں اور واقعے میں ملوث فلسطینی جنگجوئوں اور ان کے ساتھیوں کو ایک ایک کرکے موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا۔بیس سالوں تک محیط اس آپریشن کے دوران فلسطینیوں کے مسلح گروپ ''بلیک ستمبر'' اور پی ایل او (فلسطین لبریشن آرگنائزیشن) کے ارکان کو خاص طورپر نشانہ بنایا گیا۔اس وقت کی خاتون اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے 1972 میں اس آپریشن کی منظوری دی اور کہا جاتا ہے کہ یہ آپریشن بیس سال تک چلتا رہا۔

میونخ میں گیارہ اسرائیلی کھلاڑیوں کی ہلاکت کے دو دن بعد اسرائیل نے شام اور لبنان میں پی ایل او کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔خفیہ آپریشن کے آغاز سے قبل کے واقعات کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے ''کمیٹی ایکس '' کے نا م سے ایک کمیٹی بنائی جس کا مقصد میونخ واقعے پر اسرائیلی ردعمل کا تعین کرنا تھا۔اس کمیٹی میں اسرائیلی وزیردفاع جنرل اہرون یاریو کے علاوہ کئی اسرائیلی سویلین اور فوجی حکام شامل تھے۔کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ مستقبل میں میونخ جیسے واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ملوث تمام فلسطینیوں اور ان کے غیرملکی ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔تاہم اسرائیلی رائے عامہ نے اس کی مخالفت کی جس کی وجہ سے اس آپریشن کا آغاز کرنے کے لیے اسرائیلی حکام گومگو کی کیفیت کا شکار ہوگئے لیکن شش و پنج کی یہ کیفیت اس وقت ختم ہوگئی جب جرمن حکام نے لفتھانسا ائرلائن کو ہائی جیک کرنے والے دہشت گردوں کے مطالبے پر میونخ واقعہ میں ملوث تین فلسطینی عسکریت پسندوں کو رہا کردیا۔

اس کے بعد اسرائیلی حکام نے آپریشن لانچ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔انہوں نے میونخ واقعے میں ملوث فلسطینیوں کی فہرست تیار کی۔اس سلسلے میں پی ایل او میں شامل اسرائیلی موساد کے ایجنٹوں اور دوست مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں نے اسرائیل کی مدد کی۔ اندازوں کے مطابق اس فہرست میں کوئی 35کے قریب نام شامل تھے جو فلسطینی تنظیموں ''بلیک ستمبر'' اور پی ایل او کے ارکان اور عہدیدار تھے۔یہ فہرست مرتب ہونے کے بعد موساد کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ ان افراد کو تلاش کرے اور ٹھکانے لگائے۔

اس بیس سالہ آپریشن کی حیرت انگیز اور ہولناک تفصیلات کچھ یوں ہیں۔آپریشن کے سلسلے میں پہلا قتل 16اکتوبر 1972 کو ہوا۔فلسطینی وائل زیویتر کو روم میں موت کے گھاٹ اتارا گیا جو روم میں پی ایل او کا نمائندہ تھا۔وائل ایک ڈنر سے واپس آرہا تھا کہ موساد کے ایجنٹوں نے اسے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔اسے گیارہ گولیاں ماری گئیں۔ میونخ اولمپک میں قتل کیے جانے والے اسرائیلی کھلاڑیوں کی تعداد بھی گیارہ تھی۔



موساد کا دوسرا ٹارگٹ ڈاکٹر محمد ہمشاری تھاجو فرانس میں پی ایل او کا نمائندہ تھا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ وہ فرانس میں بلیک ستمبر کا سربراہ تھا۔اسے آٹھ دسمبر 1972کو پیرس میں ڈرامائی انداز میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ہمشاری کو قتل کرنے کے لیے اس کے ٹیلی فون ڈیسک کے نیچے بم نصب کیا گیا اور اس کے بعد اسے فون کیا گیا۔جب فون پر اس نے بتایا کہ وہ ہمشاری ہے تو موساد کے ایجنٹوں نے ڈیٹونیشن سگنل بھیج کر بم کو اڑادیا۔ہمشاری شدید زخمی ہوا اور بعدازاں ہسپتال میں دم توڑ گیا۔اس طرح ایک اور فلسطینی ایجنٹ کو لندن میں بس کے نیچے کچل کر ہلاک کیا گیا۔

چوبیس جنوری 1973کو قبرص میں فلسطینی تنظیم فتح کے نمائندے حسین البشیر کو ٹارگٹ کیا گیا۔وہ نکوسیا کے اولمپک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔اس نے جب سونے کے لیے اپنے کمرے کی لائٹ آف کیں توچند لمحوں بعد اس کے بیڈ کے نیچے نصب بم پھٹ گیا۔حملے میں البشیر ہلاک اور اس کا کمرہ مکمل طورپر تباہ ہوگیا۔اسرائیل کا کہنا تھا کہ البشیر قبرص میں ''بلیک ستمبر'' کا سربراہ تھا۔اسکے قتل کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس کے کے جی بی کے ساتھ خصوصی تعلقات تھے۔

چھ اپریل 1973کو بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ڈاکٹرباسل الکبایسی کو قتل کیا گیا۔ اسے بھی گیارہ گولیاں ماری گئیں۔اسے پیرس میں قتل کیا گیا۔ اس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا تھا کہ وہ بلیک ستمبر کے لوگوں کو اسلحہ اور دیگر سہولیات فراہم کرتا تھا اور فلسطین کے لیے دیگر مختلف منصوبوں میں بھی ملوث تھا۔

موساد کے تین ٹارگٹ لبنان میں سخت حفاظتی انتظامات میں رہتے تھے اور ان کو قتل کرنا بہت مشکل دکھائی دیتا تھا۔چنانچہ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی آپریشن شروع کیا گیا جس کا نام Operation Spring of Youth رکھا گیا جو کہ ''آپریشن قہر خداوندی'' کا ایک ذیلی آپریشن تھا۔9 اپریل 1973ء کی رات دو اسرائیلی کمانڈو تیزرفتار کشتیوں کے ذریعے لبنان کے ساحل پر اترے۔ یہ کشتیاں اسرائیلی بحریہ کی طرف سے بھیجی گئی تھیں۔لبنان میں پہنچنے کے بعد ان کمانڈوز کی ملاقات موساد کے ایجنٹوں سے ہوئی جنہوں نے کاروں کے ذریعے انہیں ٹارگٹ تک پہنچایا۔اس کے لیے انہوں نے کبھی عورتوں اور کبھی عام شہریوں کا روپ دھارا۔ وہ بیروت میں اس عمارت تک پہنچے جہاں تینوں ٹارگٹ سخت حفاظتی انتظامات میں مقیم تھے۔ان کے نام محمد یوسف النجار ، کمال عدوان اور کمال ناصر تھے اور یہ تینوں فلسطینی تنظیموں بلیک ستمبر اور پی ایل او کے اہم لوگ تھے۔اسرائیلی کمانڈوز نے ان تینوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جبکہ اس کوشش میں دو لبنانی پولیس اہلکار ، ایک اطالوی شہری اور النجار کی بیوی بھی جان سے ہاتھ دھوبیٹھی۔آپریشن میں ایک اسرائیلی کمانڈو زخمی ہوا جبکہ وہ عمارت مکمل طورپر تباہ ہوگئی جس پر حملہ کیا گیا تھا۔



لبنان میں اس آپریشن کے فوراً بعد تین مزید حملے کیے گئے۔قبرص میں واقع ایتھنز ہوٹل میں ایک بم حملہ کیا گیا جس میں زیاد مشاسی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔ یہ شخص حسین البشیر کی جگہ قبرص میں کام کررہا تھا۔اس طرح دومزید حملے روم میں کیے گئے جس میں بلیک ستمبر کے چھوٹے درجے کے دو کارکن عبدالحمید شیبی اور عبدالہادی ناکا زخمی ہوئے۔

موساد کے ایجنٹوں نے بلیک ستمبر کے ڈائریکٹر آپریشنز محمد بائودیا کا تعاقب کیا جو کہ الجزائری نژاد تھا اور فرانس میں رہتا تھا۔ محمد بائودیا طرح طرح کے بھیس بدلنے اور دیگر وجوہات کی وجہ سے خاصا مشہور تھا۔اٹھائیس جون 1973 کو پیرس میں اس کی کار کوبم سے اڑادیا گیا جس سے بائودیا کی فوری طورپر موت واقع ہوگئی۔

15دسمبر 1979 کو دو فلسطینیوں علی سالم احمد اور ابراہیم عبدالعزیز کو قبرص میں نشانہ بنایا گیا۔پولیس کے مطابق ان دونوں کو پوائنٹ بلینک رینج سے بغیر آواز والے ہتھیاروں کے ذریعے قتل کیا گیا۔سترہ جون 1982 کو پی ایل او کے دو سینئر ارکان کو الگ الگ حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔نازح میر جو کہ روم میں پی ایل او کا سرکردہ عہدیدار تھا ، اسے اس کے گھر کے باہر فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔اس طرح روم میں ہی پی ایل او کے ڈپٹی ڈائریکٹر کمال حسین کو بم سے نشانہ بنایا گیا۔ بم اس کی کار کی نشست کے نیچے رکھا گیا تھا۔ کمال حسین نے اپنے قتل سے صرف سات گھنٹے قبل نازح میر کے گھر کا دورہ کیا تھااور تحقیقات میں پولیس کی مدد کی تھی۔

23جولائی 1982 کو پیرس میں پی ایل او کے ڈپٹی ڈائریکٹر فضل دانی کو بھی اس کی کار کوبم سے اڑا کر ہلاک کردیا گیا۔اکیس اگست 1983 کو پی ایل او کے عہدیدار مامون میرایش کو ایتھنز میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ یہ آپریشن موساد کے دو موٹرسائیکل سوار ایجنٹوں نے انجام دیا۔

دس جون 1986کو پی ایل او کے ایک دھڑے ڈی ایف ایل پی کے سیکریٹری جنرل خالد احمد نزال کو ایتھنز میں اس کے ہوٹل کے باہر قتل کیاگیا۔ نزال کے سر میں چار گولیاں ماری گئیں۔اکیس اکتوبر 1986 کو فلسطین نیشنل کونسل کے رکن اور پی ایل او کے سینئیر عہدیدار منظر ابو غزالہ کو ایتھنز میں بم حملہ کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ چودہ فروری 1988 کو قبرص میں حملہ کیا گیا اور دو فلسطینیوں ابو الحسن قاسم اور حمدی ادوان کو قتل اور مروان کنافامی کو زخمی کیا گیا۔



اسامہ آپریشن المعروف ''آپریشن نیپچون سپیئر''

ماضی قریب میں ہونیوالا یہ آپریشن اب تک کا مشہور ترین آپریشن ہے جس میں اسلامی عسکریت پسند گروپ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہدف بنایا گیا۔اس آپریشن میں امریکی بحری فوج کے ماہرترین کمانڈوز نے حصہ لیا جنہیں امریکی فوج کی اصطلاح میں ''SEAL'' یعنی سمندری شیر کہا جاتا ہے۔اس آپریشن کا کوڈ نام ''آپریشن نیپچون سپیئر'' تھا جسے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے لانچ کیا گیا تھا۔آپریشن میں پاکستان میں موجود سی آئی اے کے ایجنٹوں نے امریکہ کی بھرپور مدد کی۔

آپریشن افغانستان سے لانچ کیا گیا اور اس میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک بڑے حویلی نما گھر یا کمپائونڈ پر حملہ کیا گیا جس میں اسامہ بن لادن اپنی بیویوں بچوں اور ساتھیوں کے ساتھ مقیم تھا۔آپریشن میں کامیابی کے بعد امریکی کمانڈو اسامہ بن لادن کی لاش کو شناخت کے لیے افغانستان لے گئے اور بعدازاں چوبیس گھنٹے بعد اس کی لاش کو سمندر میں بہادیا گیا۔

یہ آپریشن انٹیلی جنس اور ایکشن کا شاندار شاہکار تھا۔امریکی انٹیلی جنس نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس بات کا سراغ لگایا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں ایک گھر میں مقیم ہے۔ اس انٹیلی جنس رپورٹ کی تصدیق کے لیے ایک جعلی پولیو مہم کے ذریعے اس گھر میں موجود بچوں کے خون کے سیمپل لیے گئے اور ان کے ڈی این اے کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ وہ اسامہ بن لادن کے بچے ہیں اوروہاں پر مقیم شخص واقعی اسامہ بن لادن ہے۔

اس کے بعد ایکشن کا مرحلہ تھا۔ اس کے لیے امریکی ہیلی کاپٹروں کو افغانستان سے روانہ کیا گیا جس میں انتہائی تربیت یافتہ کمانڈو سوار تھے۔مبینہ طورپر ان ہیلی کاپٹروں میں ایسے آلات نصب تھے جن کے ذریعے پاکستان راڈار جام ہوگئے اور یوں یہ ہیلی کاپٹر خاموشی کے ساتھ اپنی منزل ایبٹ آباد میں اس کمپائونڈ تک پہنچ گئے جہاں اسامہ مقیم تھا۔امریکی کمانڈو اس گھر میں داخل ہوگئے لیکن وہاں پرموجود لوگوں نے مزاحمت کی جس کے نتیجے میں گولیاں چلیں اوراسامہ بن لادن سمیت کئی افراد ہلاک ہوگئے۔آپریشن میں امریکیوں کا ایک ہیلی کاپٹر بھی تباہ ہوگیا۔اس کے بعد امریکی کمانڈو اسامہ بن لادن کی لاش کو لیکر وہاں سے فرار ہوگئے۔القاعدہ کی جانب سے چھ مئی کو ایک ویب سائٹ پر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی اور انتقام لینے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ دیگر پاکستانی عسکریت پسند گروپوں بشمول تحریک طالبان پاکستان نے بھی عزم ظاہر کیا کہ وہ اس کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان اور امریکہ پر حملے کریں گے۔



پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اور کمانڈو ایکشن

٭ستمبر 1986 میں پان ایم کی فلائٹ 73 کو دہشت گردوں نے اس وقت ہائی جیک کرلیا جب اس کی پرواز ری فیولنگ کے لیے کراچی میں اتری تھی۔ہائی جیکروں سے مذاکرات کیے گئے جو ناکام ہوئے اور دہشت گرد ہائی جیکروں نے مسافروں کو ہلاک کرنا شروع کردیا۔بعدازاں پاکستانی فوج کے کمانڈوز نے جہاز پر دھاوا بول دیا اور ایک ہائی جیکر کو ہلاک اور دیگر کو گرفتار کرلیا۔

٭فروری 1984 میں افغان دہشت گردوں نے بچوں سے بھری سکول بس کو اغوا کرلیا۔ بس میں 74بچے اور آٹھ ٹیچر سوار تھے۔دہشت گرد بس کواغوا کرکے اسلام آباد میں واقع افغان ہائی کمیشن کی عمارت میں لے گئے جہاں انہوں نے ستاون بچوں کو رہا کردیا جبکہ سولہ بچوں اور ٹیچرز کو یرغمال بنائے رکھا۔مذاکرات ناکام ہوگئے جس کے بعد یرغمالیوں کوکمانڈو ایکشن کے ذریعے رہا کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔پاکستانی حکام نے کسی طرح بچوں کو اس بات سے باخبر کردیا کہ ان کی رہائی کے لیے آپریشن کیا جانے والا ہے۔ایس ایس جی کے کمانڈوز نے دہشت گردوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک دھماکہ کیا اورجیسے ہی دہشت گردوں میں افراتفری پھیلی ، کمانڈوز نے ان پر ہلہ بول دیا۔حملے میں تین ہائی جیکر مارے گئے۔ یہ آپریشن صرف بیس منٹ میں مکمل کرلیا گیا۔

٭مئی 1998 میں مبینہ طور پر ایک بلوچ گروپ نے پی آئی اے کا فوکر طیارہ اغوا کرلیا۔یہ بلوچ بلوچستان میں ایٹمی تجربات کے خلاف غصے میں تھے۔ہائی جیکروں سے مذاکرات کیے گئے اوراس طرح کمانڈو آپریشن کرکے تین ہائی جیکروں کو گرفتار کرلیا گیا۔کمانڈوایکشن میں ایک بھی مسافر زخمی نہ ہوا۔

٭جولائی 2007 میں کیے جانے والے لال مسجد آپریشن کو شاید کوئی نہیں بھولا ہوگا۔اس کمانڈو آپریشن میں سب سے اہم کردار پاکستانی فوج کے ایس ایس جی گروپ نے ادا کیا۔اس آپریشن کے ذریعے لال مسجد کو انتہا پسندوں سے بازیاب کرالیا گیا۔آپریشن میں مبینہ طورپر بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔انتہا پسندوں نے اس آپریشن کا بدلہ لینے کے لیے ستمبر 2007 میں تربیلا غازی میں خود کش حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایس ایس جی گروپ کے کم ازکم 20 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ذرائع کے مطابق ایک باریش خود کش بمبار جو سائیکل پر سوار تھا، ایس ایس جی میس میں آیا اور خود کو اڑالیا۔

٭تیس مارچ 2009 میں دہشت گردوں نے لاہور میں واقع پولیس اکیڈمی پرحملہ کیا جس کو ناکام بنانے کے لیے ایس ایس جی کے کمانڈوز نے آپریشن میں حصہ لیا۔

٭دس اکتوبر 2009 عسکریت پسندوں نے پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا اور بیالیس سویلینز اور فوجی حکام کویرغمال بنالیا۔ایس ایس جی کمانڈوز نے نو عسکریت پسندوں کو ہلا ک کرکے 39 یرغمالیوںکو بچالیا۔ ایک عسکریت پسند کو گرفتار کرلیا گیا۔تحقیقات کے مطابق عسکریت پسندوں کا تعلق الیاس کشمیری گروپ سے تھا۔آپریشن کے دوران چھ ایس ایس جی کمانڈوز اور تین یرغمالی بھی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔



مافیا کے خلاف اطالوی کمانڈو آپریشن

اس سال جولائی میں اٹلی میں بھی ایک بڑا کمانڈو ایکشن کیا جاچکا ہے۔اطالوی پولیس اور کمانڈوز نے اس انٹی مافیا آپریشن میں پچاس سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔یاد رہے کہ اٹلی میں مافیا کے لوگ مختلف قسم کے سنگین جرائم میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے اٹلی کا عالمی امیج خاصا متاثر ہوچکا ہے۔مذکورہ بالا آپریشن روم کے قریب ایک ساحلی خطے میں کیا گیا۔آپریشن میں پانچ سو سے زائد پولیس حکام اور کمانڈوز کے علاوہ سراغ رساں کتوں ، ایک ہیلی کاپٹر اور کوسٹل پٹرول بوٹس نے حصہ لیا۔اس آپریشن کے علاوہ ایک ذیلی آپریشن کلابریا کے علاقے میں بھی کیا گیا جو کہ این ڈی رنگاتھیا نامی ایک مافیا کا گڑھ ہے۔روم میں جو آپریشن کیاگیا اس میں ساحلی علاقے اوسٹیا کو نشانہ بنایاگیا۔ یہ خطہ دارالحکومت کے قریب سب سے بڑا ساحلی دیہاتی علاقہ ہے۔ آپریشن کے دوران تین بڑے مجرم گروہوں کو نشانہ بنایا گیا۔

کمانڈو ایکشن کے سربراہ کوریرے ڈیلا سیرا نے اس سلسلے میں بتایا کہ آپریشن میں تین بڑے مافیا گروہوں فاشیانی، ٹریاسی اور ڈی اگاٹی کو ہٹ کیاگیا جو کہ کئی سالوں سے اس خطے میں جرائم کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ٹریاسی مافیا کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کے سسلی کے کوسا نوسٹرا نامی کرائم نیٹ ورک کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔پولیس حکام کا کہنا تھا کہ مافیا اٹلی کے تاثر کو بدنام کررہی ہیں اور اس کے حوالے سے دنیا بھر میں طرح طرح کی کہانیاں گھڑی جارہی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مافیا کی وجہ سے اٹلی میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ سیاحت ہے ۔ اس کے علاوہ سرمایہ کاری کے دیگر شعبوں میں بھی اٹلی کو جرائم میں ملوث ان مافیائوں کی وجہ سے خاصا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں