ایک اور ورق پاکستان کی تاریخ کا

پاکستان پہلے معاہدہ بغداد میں شامل ہوا پھر سیٹو اور سینٹو معاہدوں کا حصہ بن گیا، یوں پاکستان سیکیورٹی اسٹیٹ بن گیا۔


Dr Tauseef Ahmed Khan June 08, 2019
[email protected]

ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کرنے والوں میں خان عبدالغفارخان، مولانا بھاشانی اور جی ایم سید کا کردار ہے۔ غفار خان نے صوبہ سرحد میں تعلیم کو عام کرنے، ہندوستان کو آزادی دینے کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ غفارخان کی جدوجہد کے نتیجے میں سرحد کو صوبہ کا درجہ ملا۔

جی ایم سید نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہندوستان کی آزادی، سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرکے صوبہ کا درجہ دینے اور پاکستان کے قیام کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ مولانا بھاشانی نے بنگال میں کسان تحریک کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، سب جناح صاحب کی قیادت میں پاکستان کی آزادی کی تحریک میں شامل ہوگئے۔

غفار خان نے خدائی خدمت گار تحریک بنائی اورکانگریس میں شامل ہوگئے۔ ان کے بھائی ڈاکٹر خان سرحد کے پریمیئر بنے۔ غفار خان اور ان کے ساتھیوں نے انگریز راج کے خلاف جدوجہد میں ریاستی تشدد کو برداشت کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر سرحد کے عوام نے پاکستان سے الحاق کے معاملے پر ریفرنڈم میں غفارخان جو باچا خان کے نام سے مشہور ہوئے کے مؤقف کو مسترد کردیا۔ باچا خان کے بھائی ڈاکٹر خانصاحب نے 14 اگست 1947ء کو پاکستان کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا مگر ان کی حکومت کو برطرف کیا گیا۔ غفار خان ان کے ساتھی انگریز راج کے خاتمے کے باوجود جیلوں میں بند رہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال کے ساتھ ہی آئین کی تیاری کا کام معطل ہوا ۔ پاکستان کو امریکا کا اتحادی بنا کر سوویت یونین کے خلاف فرنٹ اسٹیٹ بنایا گیا۔

پاکستان پہلے معاہدہ بغداد میں شامل ہوا پھر سیٹو اور سینٹو معاہدوں کا حصہ بن گیا، یوں پاکستان سیکیورٹی اسٹیٹ بن گیا۔ برسر اقتدار حکومتوں نے مسلم لیگ کے صوبائی خودمختاری کے بنیادی اصول کو ترک کردیا۔ شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ صرف عدالتوں کا کام بن گیا۔ مولانا بھاشانی، سہروردی، میاں افتخار الدین جیسے زعماء مسلم لیگ سے مایوس ہوئے۔

اس وقت بائیں بازوکی جماعتوں میں پاکستان نیشنل پارٹی، عوامی لیگ بھاشانی، سندھ عوامی محاذ آزاد، پاکستان پارٹی، وردے پختون اور سمجھان گل شامل تھیں۔ ان جماعتوں کے رہنماؤں باچا خان، مولانا بھاشانی، جی ایم سید، میاں افتخار الدین، غوث بخش بزنجو اور عبدالصمد اچکزئی وغیرہ نے 1957ء میں نیشنل عوامی پارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر صوبوں کو خود مختاری، بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری، امریکی سامراج کے استحصال کے خلاف عوام کو منظم کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ خان عبدالغفار خان اور جی ایم سید کی جماعتوں پر 1948ء میں پابندی لگادی گئی۔ غفار خان 1948ء سے 1956ء تک مسلسل قید رہے۔

انھوں نے قیام پاکستان کے بعد 10 سال جیل میں گزارے۔ جب جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا تو نیپ نے حکومت کے خلاف تحریک چلائی۔حکومت نے سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی۔ غفار خان، ولی خان، غوث بخش بزنجو وغیرہ گرفتار کرلیے گئے۔ ایوب خان نے 1962ء کے آئین کے تحت صدارتی نظام قائم کیا اور صدارتی انتخابات کرائے۔ متحدہ حزب اختلاف نے محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو صدارت کا امیدوار نامزد کیا۔ نیپ کے رہنماؤں نے فاطمہ جناح کے حق میں زوردار مہم چلائی۔ ایوب خان نے انتخابات میں دھاندلی کی اور فاطمہ جناح کو شکست ہوئی۔ بعد میں نیپ مولانا بھاشانی اور ولی خان گروپ میں تقسیم ہوگئی مگر نیپ کے دونوں گروپوں نے ایوب آمریت کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ نیپ پہلی جماعت تھی جس نے امریکی سامراج کے غلبہ کے خلاف آواز اٹھانے کے علاوہ مزدوروں، کسانوں، خواتین، صحافیوں، ادیبوں کے حقوق کے لیے جدجہد کے تصور کو سیاسی ایجنڈا کا حصہ بنایا۔

30 اپریل 1967ء کو نوابزادہ نصراﷲ خان نے جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف پانچ مخالف جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ قائم کیا، مزید جماعتوں کی شمولیت کے بعد نیا اتحاد جمہوری مجلس عمل (D.A.C) بنایا۔ نیپ نے جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ جنرل یحییٰ خان نے پہلی دفعہ 1970ء کے انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد کرائے۔ ان انتخابات میں مغربی پاکستان سے عوامی لیگ، پنجا ب اور سندھ سے پیپلز پارٹی، سرحد اور بلوچستان سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے کامیابی حاصل کی۔ جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے سے انکارکیا، نیپ نے عوامی لیگ کی حمایت کی۔ نیپ کے قائدین ولی خان، غوث بخش بزنجو نے واضح طور پر کہا کہ عوامی لیگ کی عوامی اکثریت کو آپریشن کے ذریعے کچلا جائے گا تو یہ ملک ٹوٹ جائے گا۔ جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں آپریشن کیا۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایکشن کی حمایت کی۔ نیپ نے ایکشن کے خلاف مزاحمت کی۔ جنرل یحییٰ خان نے آپریشن کے آغاز پر عوامی لیگ پر پابندی عائد کردی۔ پھر 26 نومبر 1971ء کو نیشنل عوامی پارٹی پر بھی پابندی لگادی گئی۔ 1972ء میں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ پر پابندی ختم کردی۔ 1973ء کے آئین کی تیاری کے لیے پارلیمانی کمیٹی میں نیپ کے رہنما میر غوث بخش بزنجو نے اہم کردار ادا کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ سرحد اور بلوچستان کی حکومتیں نیپ اور جمعیت کے اتحاد کے حوالے کردی گئی۔

سرحد میں ارباب سکندر خلیل کو گورنر مفتی محمود کو وزیر اعلیٰ بلوچستان میں میر بخش بزنجو کو گورنر اور سردار عطاء اﷲ مینگل کو وزیر اعلیٰ مقرر کیاگیا۔ جدید تاریخ میں پہلی دفعہ بلوچستان میں بلوچوں کی نمایندہ حکومت قائم ہوئی۔نیپ کی حکومت نے بلوچستان میں بنیادی اصلاحات کا فیصلے کیا مگر طالع آزما قوتوں کو بلوچوں اور پختونوں کی نمایندے حکومتیں قبول نہیں تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ شاہ ایران کو بھی نیپ حکومت سے خطرہ تھا۔ یوں نیپ کے رہنماؤں کو غدار ملک دشمن، افغانستان اور بھارت کا ایجنٹ قرار دیا جانے لگا۔

پیپلز پارٹی کے رہنما حیات محمد شیرپاؤ پشاور یونیورسٹی میں بم کے دھماکے میں جاں بحق ہوئے ۔ خفیہ ایجنسیوں نے عراقی سفارتخانے سے اسلحہ برآمد کیا۔ وفاقی حکومت نے نیپ پر پابندی عائد کردی اور اپنے فیصلے کی توثیق کے لیے ریفرنس سپریم کورٹ میں بھیج دیا،بلوچستان میں آپریشن شروع ہوا۔ یہ صوبے میں ہونے والا تیسرا آپریشن تھا۔ نیپ کی قیادت کے خلاف حیدرآباد ٹریبونل میں غداری کا مقدمہ چلا۔ پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمدخان، علی بخش تالپورکو اس مقدمے میں ملوث کیا گیا۔

بلوچستان کے سابق گورنر میر غوث بخش بزنجو نے اپنی برطرفی کے فیصلے کے بعد راولپنڈی میں ایوان صدر کے دروازے پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کے اس فیصلے سے وہ اداروں کے دست نگر ہوجائیں گے۔ جب 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف مہم چلائی تو پی این اے کا ایک مطالبہ حیدرآباد سازش کیس کا خاتمہ اور تمام رہنماؤں کی رہائی کا بھی تھا۔ جب پی این اے کے رہنماؤں نوابزادہ نصر اﷲ خان، مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان مذاکرات ہوئے تو ایک دن بھٹو صاحب اپنے چیف آف اسٹاف جنرل ضیاء الحق کو لے آئے۔ جنرل ضیاء الحق نے ان رہنماؤں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر بلوچستان میں آپریشن ختم کیا گیا اور نیپ کے رہنماؤں کو رہا کیا گیا تو بلوچستان علیحدہ ہوجائے گا۔

ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو اقتدار پر قبضہ کیا۔ وہ اقتدار سنبھالنے کے کچھ مہینوں بعد حیدرآباد جیل آئے اور نیپ کے رہنما ولی خان سے ملاقات کی۔ ضیاء الحق نے اس وقت صحافیوں سے کہا کہ حیدرآباد سازش کیس 80 فیصد سیاسی تھا۔ نیپ کے رہنماؤں کو رہائی ملی مگر بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کی برطرفی نیپ پر پابندی سے بلوچستان میں خطرناک نتائج برآمد ہوئے۔ بلوچوں میں احساس محرومی بڑھ گیا۔ ان کا اسلام آباد سے رشتہ کمزور ہوا، آج تک بلوچستان کے حالات معمول پر نہیں آسکے۔ بلوچستان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں پھر آپریشن ہوا۔ بلوچستان میں آج بھی صورتحال غیر معمولی ہے۔ اگر قومی رہنماؤں کو غدار قرار دینے ، انھیں پابند سلاسل کرنے اور عوامی خواہشات کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی اختیار نہ کی جاتی تو آج ملک بہت بہتر صورتحال میں ہوتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں