جائے نماز اور گوجرانوالہ

اقتدار میں آنے کے بعد بعض نہیں اکثر لوگ اپنے قریبی ساتھیوں کو بھولتے نہیں، ان پر ظلم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔


Hameed Ahmed Sethi June 09, 2019
[email protected]

یہ 2019 کے ماہ رمضان المبارک کا آخری دن ہے۔ میں امریکا کے شہر ہیوسٹن میں طارق کے گھر پر ہوں اور میرے سامنے ایک جائے نماز بچھی ہے، اس پر جو ٹیگ لگا ہے اس پر لکھا ہے ''بٹ سلک ملز گوجرانوالہ'' عموماً تسبیحیں، نماز کی ٹوپیاں اور جائے نماز جو نظر آتی ہیں وہ Made in Chaina ہوتی ہیں بلکہ اسٹورز بشمول Dollar store پر بھی اکثر مال میڈ ان چائنہ ملتا ہے لیکن اس وقت میرا ذہن مجھے کئی سال پیچھے بٹ سلک ملز گوجرانوالہ کے دفتر میں لے گیا ہے۔

اس وقت میری گوجرانوالہ میں سرکاری تعیناتی کے علاوہ 1977ء کے عام انتخابات میں بحیثیت ریٹرننگ آفیسر بھی فرائض انجام دینا تھے، ضلع میں 6 سیٹوں پر قومی اسمبلی کے الیکشن ہونا تھے، یہ جائے نماز تو میڈ ان Butt Silk Mills ہے اور مل کے مالک اسلم بٹ تھے جب کہ اس مل کے دوسرے پارٹنر دستگیر خان تھے جن کی علاقے میں کثیر برادری تھی۔ اسلم بٹ اور غلام دستگیر بزنس پارٹنر ہونے کے علاوہ قریبی دوست بھی تھے۔

بٹ صاحب کی شدید خواہش تھی کہ دستگیر خان قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں لیکن خاں صاحب جو مسلم لیگی تھے، حکومتی پارٹی PPP کی طرف سے سخت مخالفت اور ردعمل سے خوفزدہ ہو کر چھپتے پھر رہے اور الیکشن لڑنے سے انکاری تھے۔ میرے اسلم بٹ اور دستگیر خان سے دوستانہ تعلقات تھے جب کہ الیکشن کرانا بحیثیت RO میری ذمے داری تھی۔ جب اسلم بٹ غلام دستگیر کو الیکشن لڑنے پر مائل کرنے میں ناکام ہو گئے تو انھوں نے مجھ سے رجوع کیا کہ میں انھیں یقین دلاؤں کہ خان صاحب کو فری ہینڈ دیا جائے گا اور ان کے خلاف کسی قسم کی سخت کارروائی حکومتی سطح پر نہیں کی جائے گی۔

اسلم بٹ نے مجھے اطلاع دی کہ بڑی مشکل سے اس کا رابطہ غلام دستگیر سے ہوا اور وہ شام کے وقت ان کے پاس فیکٹری آئیں گے، جب وہ آ جائیں گے تو بٹ صاحب مجھے فون کریں گے تاکہ میں چھاپہ مار کر غلام دستگیر خان کا حوصلہ بڑھاؤں۔ میں حسب پروگرام بٹ سلک ملز پہنچا اور خان صاحب کو یقین دلایا کہ ان کے ساتھ کوئی سختی یا زیادتی نہیں ہو گی لیکن میرے ڈپٹی کمشنر کے حکم پر خان صاحب کا پٹرول پمپ بھی بند ہوا، انکم ٹیکس کے مسائل بھی پیدا ہوئے اور خان صاحب کی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔ خان صاحب فاقہ برداشت نہیں کر سکتے تھے لہٰذا ان کے لیے خوراک کے مسائل بھی پیدا کیے گئے، ان کے بھائی اور دوستوں کو دفعہ 144 ضابطہ فوجداری کی خلاف ورزی پر جب کہ وہ لوگ موٹرکار میں سفر کر رہے تھے، گرفتار بھی کیا گیا لیکن میں نے فوراً ان کو ضمانت پر رہا کر دیا۔

یہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی زندگی کا آخری الیکشن تھا جب کہ میں نے ان کے 1970 کے پہلے الیکشن میں بھی لاء اینڈ آرڈر کی راولپنڈی میں دس پولنگ اسٹیشنوں پر ڈیوی دی تھی۔ 1970 کے اس الیکشن کے Fairest ہونے کی شہادت میں آج بھی دے سکتا ہوں کہ ایک بزرگ عورت کو بیلٹ پیپر باکس کے اندر ڈالنے میں مشکل پیش آتی دیکھ کر میں نے اس کی مدد کرنا چاہی تو اس نے غصے سے کہا تھا ''ہتھ نہ لائیں میرے ووٹ نوں'' اس عورت کا پنجابی میں بولا ہوا فقرہ آج بھی میری یادداشت میں محفوظ ہے۔

پانچ سال کی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے سے پہلے یعنی قبل ازوقت الیکشن کرانے کی بھٹو صاحب کو اکثریت ہونے کے باوجود ضرورت ہی نہ تھی لیکن اسمبلی میں قطعی اکثریت حاصل کرنے کے لالچ میں گویا انھوں نے اپنی قبر خود کھودی اور 1977میں انتخابات کا فیصلہ کیا۔ گوجرانوالہ میں قومی اسمبلی کی 6 سیٹیں تھیں، ان کی پارٹی نے آیندہ صوبوں میں من پسند چیف منسٹر لانے کے لیے کچھ ممبران کو بلامقابلہ منتخب کرا لیا تھا۔ خود مجھے حسب الحکم ایک نالائق امیدوار کو کچہری میں کرفیو لگا کر بلامقابلہ منتخب کرانے کا بحیثیت RO خوب تجربہ تھا۔

اس الیکشن میں جو کچھ ہوا اس کا نتیجہ ہنگاموں کے بعد مارشل لاء لگنے میں نکلا اور وہ بھی بھٹو صاحب کے چنیدا جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں، جس سے میری دو بار ملاقات ہوئی۔ ایک بار جب طارق حمید نے ان کے بیٹے کی شادی ٹرین ساہیوال ریلوے اسٹیشن رکنے پر انھیں گلدستہ پیش کیا اور دوسری بار چیف آف آرمی اسٹاف ہاؤس جہاں ہمیں بلا کر ان کے ADC نے بیگم شفیقہ و جنرل ضیاء سے چائے پر اپنی خاطر مدارت کرائی۔ یہ ADC بعد میں NAB کا چیئرمین بھی بنا۔ اسی 1977 کے جنرل الیکشن میں ایک خواتین کے پولنگ اسٹیشن پر اس کے پریذائیڈنگ افسر کو بلاخوف ایک ہی عورت سے کئی درجن جعلی ووٹ ڈلواتے دیکھ کر مجھے اس کو گرفتار کرنا پڑا تھا۔

اس الیکشن کا رزلٹ رات گئے میرے پاس اکٹھا ہوا تو چھ کی چھ قومی اسمبلی کی سیٹوں پر غیرسرکاری نتیجہ پیپلزپارٹی کے حق میں تھا لیکن کچھ ہی دیر میں غلام دستگیر خان اپنے گروپ اور اسلم بٹ کے ہمراہ دفتر میں آئے اور مجھے Recounting کی درخواست دی اور پرجوش انداز میں گنتی میں دھاندلی کی شکایت کی۔ میں نے انھیں مشورہ دیا کہ جس کمرے میں بیلٹ باکس رکھے ہیں، رات اس کے اردگرد اپنے ورکر کھڑے کر دیں تاکہ ان کی تسلی کے مطابق اگلی صبح دوبارہ گنتی کروا لی جائے۔ دوبارہ گنتی کا نتیجہ غلام دستگیر خان کے حق میں نکلا۔

اقتدار میں آنے کے بعد بعض نہیں اکثر لوگ اپنے قریبی ساتھیوں کو بھولتے نہیں، ان پر ظلم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بھٹو صاحب نے اپنے قریبی ساتھی معراج محمد خان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا لیکن جب بھٹو کی قید کے دنوں میں جنرل ضیاء الحق نے انھیں وزارت کی پیشکش کرتے ہوئے بھٹو کے ساتھ حساب چکانے کی آفر کی تو معراج محمد خان نے جس پر تشدد کا اثر اس کی بینائی پر بھی ہوا تھا اسے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ اسلم بٹ تین بار گوجرانوالہ کارپوریشن کا میئر منتخب ہوا۔ بٹ سلک ملز کی مصنوعات اور خاص طور پر ریشمی اور اعلیٰ جائے نماز ہی سے مجھے یہ تحریر لکھنے کی Inspiration ہوئی۔ بٹ صاحب اب اس دنیا میں نہیں لیکن ان کے حوالے سے ایک بات جو اکثر لوگوں کے علم میں نہیں ہو گی، ریکارڈ پر لے آنے میں کوئی حرج نہیں:

دائم آباد رہے گی دنیا

ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں