’’مسئلہ ہارجیت کا نہیں پرفارمنس کا ہے‘‘
ہمارا اجتماعی المیہ ہی یہی ہے کہ ہم نے آج تک اُس طرح سے اپنی پرفارمنس کے معیار کو بڑھایا اور برقرار نہیں رکھا۔
یہ کالم میں بوجوہ ایڈوانس میں لکھ رہا ہوں کہ عید کی چھٹیوں کی وجہ سے میرا کمپوزر عزیزی حارث اپنے گائوں جا رہا ہے جہاں اس کے پاس وائی فائی کی مطلوبہ سہولت نہیں ہو گی جب کہ یہ موضوع کچھ ایسا ہے کہ پڑھنے والوںکا موڈ اس دوران میں قطب شمالی سے قطب جنوبی تک کا سفر آسانی سے طے کر سکتا ہے ۔
قومی سطح پر ہر شعبے میں ہماری عمومی کارکردگی ہمیشہ سے unpredictable یعنی غیر یقینی رہی ہے کہ کچھ معلوم اور بعض نامعلوم وجوہات کے باعث ہماری پرفارمنس ناقابلِ یقین حد تک شاندار یا مایوس کن ہو سکتی ہے اس کی سب سے موثر مثال ہماری کرکٹ ٹیم ہے کہ تین دن کے اندر اندر یہ ریٹنگ میں آٹھویں نمبر کی ٹیم سے عبرتناک شکست بھی کھا سکتی ہے اور اس ورلڈ کپ کے متوقع چیمپئن کو ان کے گھر میں ہرا بھی سکتی ہے اور یہ کوئی آج کی بات نہیں ''مرا مزاج لڑکپن سے عاشقانہ ہے''۔
ہمارا میڈیا ہو یا عام افراد دونوں میں ایک بیماری مشترک ہے کہ نہ صرف دونوں کا حافظہ کمزور ہے بلکہ یہ کسی دوسرے کا نام لے کر تنقید کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ دوسرا بھی ہم ہی میں سے ہے اور یہ کہ اُس کی ناکامی کی بہت سی وجوہات ایسی ہیں جس میں ہم خود بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔ ان تین دنوں کے دوران فیس بُک پر جو کچھ لکھا اور کہا گیا اور ہر دو صورتوں میں جو زبان استعمال کی گئی اُس کا تعلق حقائق سے زیادہ اُن کی انتہائوں سے ہے اور بقول ایک دانشور کے دریا کی اصلیت کا پتہ اُس کے کناروں سے نہیں اس کے درمیان سے چلتا ہے۔
کرکٹ کا کھیل برٹش آرمی اور سلطنت برطانیہ کے حکومتی کارندوں کے توسط سے ہمارے علاقے میں آیا اور پچھلے تقریباً اسّی برس سے عوامی مقبولیت اور دلچسپی کے اعتبار سے یہ مسلسل پہلے نمبر پر جا رہا ہے حالانکہ اسی عرصے میں ہم نے ہاکی، اسکواش اور اسنوکر میں عالمی چیمپئن ہونے اور رہنے کے اعزازات بھی حاصل کیے۔ایک زمانہ تھا کہ اس کھیل کی اخلاقیات کو انسانی تہذیب کے ضمن میں بطور مثال پیش کیا جاتا تھا اور ہر غلط یا بے انصافی پر مبنی چیز کے بارے میں یوں کہا جاتا تھا کہ This is not cricket. یعنی یہ بات جائز، صحیح اور پسندیدہ نہیں ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ کئی اور چیزوں کی طرح اس کے معنی بھی بدل گئے ہیں۔
ستر کی دہائی کے آخری برسوں میں ایک آسٹریلوی بزنس ٹائیکون کیری پیکر نے اس تبدیلی پر نہ صرف مہر ثبت کردی بلکہ ایک ایسی نئی اخلاقیات کا بھی آغاز کیا جس میں ہر چیز کو گلیمر اور ڈالروں میں تولا جاتا تھا اور اب یوں ہے کہ یہی سوچ اور اپروچ سکہ رائج الوقت کی شکل اختیار کر گئی ہے ۔1975ء میں جب ورلڈ کپ کا آغاز ہوا تو کھلاڑیوں کے کپڑے سفید اور کرکٹ بال سرخ رنگ کا ہوتا تھا، اب گیند سفید اور کپڑے رنگین سے رنگین تر ہوگئے ہیں اور اس قدر پیسہ اس میں داخل ہوگیا ہے کہ اب یہ بس نام ہی کا کھیل رہ گیا ہے اور پیسے کی دوڑ میں ہر کوئی دوسروں سے آگے نکلنے کی اندھا دھندکوشش میں مصروف ہے، چاہے اس کے لیے اُسے اپنے ضمیر کا سودا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
یہ بحث بہت لمبی اور تکلیف دہ ہے اس لیے فی الوقت اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم ''ایسی بلندی ، ایسی پستی'' کے حامل ان دومیچوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے کھلاڑیوں کو ایک بار پھر ہیرو اور زیرو کے دائرے میں گھومنا پڑتا ہے۔ کرکٹ سے ذاتی دلچسپی اور کچھ اعلیٰ درجے کے نئے اور پرانے کھلاڑیوں سے گفتگو کے بعد پھر وہی بات سامنے آئی ہے کہ گلیمر، توجہ اور دولت کی فراوانی کے باعث ہمارے آج کے کھلاڑی اُس طرح کے پروفیشنل اور حقیقت پسندانہ سوچ سے بہت حد تک محروم ہیں جو اُن کے مقابلے میں آنے والی بیشتر ٹیموں کی تربیت کے بنیادی ستون ہیں اور بدقسمتی سے اس کھیل سے متعلق ہمارا تنظیمی ڈھانچہ ہی اُن کے اس روّیئے کو مزید ہوا دے رہا ہے۔
بلاشبہ عمران خان بہت زمانے سے یہ کہتا چلا آرہا ہے کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں اداروں کے بجائے صرف صوبوں اور علاقوں کی ٹیموں کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ جذبہ، مسابقت ، احساسِ ذمے داری، پہچان اور مسلسل نگہداشت کے ذریعے سے نوجوان کھلاڑیوں کو آگے بڑھنے کے آسان اورمساوی مواقع مہیا کیے جاسکیں۔ یہ بات اصولی طور پر کتنی بھی ٹھیک کیوں نہ ہو امر واقعہ یہ ہے کہ فی الوقت ان اداروں کو یکسر نظر انداز کرنا ناممکن بھی ہے اور بے حد انتشار انگیز بھی۔
پہلے ورلڈ کپ سے لے کر 1992 کی واحد کامیابی کے بعد سے گزشتہ ورلڈ کپ تک تقریباً ہر پاکستانی ٹیم میں دو یا دوسے زیادہ ایسے غیر معمولی کھلاڑی تھے جنھیں غیر مشروط طور پرورلڈ کلاس کہا جاسکتا تھا۔ یہ شائد پہلا موقع ہے کہ اس مقام کا حامل ایک بھی کھلاڑی آج کی اس ٹیم میں نہیں ہے ۔رہی بات ٹیلنٹڈ اور اُبھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی تو وہ تو ہر ٹیم میں ہوتے ہی ہیں۔ریٹنگ کے اعتبار سے ہم ساتویں نمبر پر ہیں اور پہلے دس بیٹسمینوں ، باولرز اور آل رائونڈرز میں شائد ہمارے ایک یا دو کھلاڑی آخری نمبروں پر ہوں اور بس ۔ایسے میں ویسٹ انڈیز کی دوبارہ سے اُبھرتی ہوئی ٹیم سے ہمارا ہارنا تکلیف دہ اور کسی حد تک خلافِ توقع توضرور تھا لیکن یہ کوئی ایسا ناممکن یا ناقابلِ تصور بھی نہیں تھا کہ اسے کسی ناگہانی آفت سے تعبیر کیا جاسکے البتہ یہ ضرور ہے کہ ویسٹ انڈیز کی بائولنگ ایسی نہیں تھی کہ ہم 105 پر ڈھیر ہوجاتے، اگر اُن کے بلے باز ساڑھے تین سو کے قریب رنز بناتے تو یہ شائد کسی نہ کسی طرح ہضم ہوجاتا جب کہ یہ بات بھی اپنی جگہ پر سوچنے کی ہے کہ کیا حالیہ مقابلوں میں پاکستان کو چارصفر سے شکست دینے اور 334 رنز بنانے کے باوجود انگلستان کا اس طرح سے ہارنا کسی حساب کتاب میں آتا ہے یا نہیں اور وہ بھی اس صورت میں اُن کے دو کھلاڑیوں نے ایک ہی اننگز میں سنچریاں بھی کی ہوں!
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فی الوقت انگلینڈ ، بھارت،آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ پہلے پانچ نمبروں پر ہیں لیکن عین ممکن ہے کہ ان میں سے دو یا شائد اس سے بھی زیادہ ٹیمیں سیمی فائنلز تک رسائی حاصل نہ کرسکیں ۔گزشتہ کچھ برسوں میں اور بالخصوص T20 کے فروغ کے بعد سے اسکورنگ ریٹ میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور تین سو تک کا ٹوٹل جو گزشتہ ورلڈ کپس کے دوران ایک بے حد محفوظ بلکہ فتح کے لیے یقینی ٹوٹل سمجھا جاتا تھا اب تقریباً ناقابلِ دفاع ہوگیا ہے کہ کم و بیش ہر ٹیم اس کو کراس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، سو اگر فیس بُک پر کسی صاحب نے وہاب ریاض ،شاداب خان اور محمد عامر کو چھ سے زیادہ فی اوورز رنز دینے کے باوجود مبارکباد دی ہے تو یہ کوئی ایسی مضحکہ خیز بات بھی نہیں کہ اب یہی رسمِ جنوں سب کی زباں ٹھہرے گی۔
اگلے دو میچوں میں کیا یہ ٹیم اس پرفارمنس کو دہرا سکے گی یا نہیں، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اگر ایسا ہوگیا اور ہم سیمی فائنلز تک پہنچ گئے (جو موجودہ اندازوں کے مطابق ناممکن ہونے کی حد تک مشکل ہے) تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر سارے جمع شدے غصے کرکٹ ٹیم پر نکالنا بھی زیادتی ہوگی اور یہ کام موجودہ حکومت یا اپوزیشن دونوں کے لیے یکساں مشکل ہوگا کہ اس ضمن میں اُن سمیت ماضی کے تمام کرکٹ بورڈز اور ہم سب بھی برابر کے شریک ہیں۔ میرؔ صاحب کا ایک شعر ہے
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
اب اس ''نصیبوں'' کے لفظ پر تو اختلافِ رائے ہوسکتا ہے پر یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ اگر یہ ٹیم اپنی صلاحیت کے مطابق پورا زور لگا کر کھیلی تو یہ بھی کسی خوشخبری سے کم نہیں ہوگا کہ ہمارا اجتماعی المیہ ہی یہی ہے کہ ہم نے آج تک اُس طرح سے اپنی پرفارمنس کے معیار کو بڑھایا اور برقرار نہیں رکھا جس کے ہم اہل ہیں اور تھے۔