سری لنکا کیخلاف ورلڈکپ میچ میں بارش کی مداخلت آسان شکار پاکستان کے ہاتھ سے نکل گیا

اگر مگر کے چکر سے نکلنے کے لیے مسلسل فتوحات ضروری۔


Mian Asghar Saleemi June 09, 2019
اگر مگر کے چکر سے نکلنے کے لیے مسلسل فتوحات ضروری۔ فوٹو: فائل

ورلڈ کپ کے دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے تو انگلینڈ میں جاری ہیں لیکن اس وقت شائقین کرکٹ کے درمیان سب سے زیادہ جو موضوع زیر بحث ہے، وہ پاکستان اور سری لنکا کی ٹیموں کے درمیان بارش کی نذر ہونے والا میچ ہے۔

کرکٹ کے شائقین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ پاکستانی ٹیم کو مقابلہ برابر ہونے کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہوا ہے، ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار سری لنکا کی ٹیم خاصی کمزور دکھائی دے رہی ہے اور پرستاروں کی طرح کرکٹ کے پنڈتوں کا بھی یہی خیال ہے کہ میچ ہونے کی صورت میں سرفراز الیون یقینی طور پر تین قیمتی پوائنٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی جس کا فائدہ قومی ٹیم کو عالمی کپ کے فیصلہ کن مرحلے میں ملتا۔

برسٹل میں پاکستان کا ورلڈ کپ میں یہ تیسرا میچ تھا، اسے حسن اتفاق کہیں یا کچھ اور، 1992 ء میں جب پاکستان عمران خان کی قیادت میں پہلی بار کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنا تھا تو اس وقت بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا،27 سال قبل بھی ورلڈ کپ میں پاکستان نے میگا ایونٹ کا پہلا میچ ویسٹ انڈیز کیخلاف ہی کھیلا تھا جو کالی آندھی نے باآسانی 10 وکٹوں سے جیت لیا تھا۔ دوسرا میچ زمبابوے کے خلاف تھا،یہ مقابلہ پاکستانی ٹیم کے نام رہا۔

پاکستان کا تیسرا میچ انگلینڈ کے ساتھ تھا جو کہ بارش کی وجہ سے بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا تھا، صرف 74 سکور بنانے کے باوجود پاکستانی ٹیم ایک قیمتی پوائنٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی، یہی ایک پوائنٹ بعد ازاں پاکستانی ٹیم کے سیمی فائنل تک پہنچنے کا سبب بھی بنا۔تاریخ خود کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے،انگلینڈ میں جاری ورلڈ کپ میں بھی ایسا ہی ہوا، پاکستان کا پہلا میچ ویسٹ انڈیز کے خلاف تھا، گرین شرٹس صرف 105 رنز پر ڈھیر ہو گئے اور ویسٹ انڈیز نے یہ مقابلہ بآسانی 7 وکٹوں سے اپنے نام کر لیا۔

دوسرے میچ میں پاکستانی ٹیم نے عالمی کپ کی سب سے فیورٹ ٹیم انگلینڈ کو 14 رنز سے زیر کر کے حریف ٹیموں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی۔ تیسرا میچ سری لنکاکے ساتھ تھا جو بارش کی وجہ سے ڈرا ہو گیا اور دونوں ٹیموں کو ایک، ایک پوائنٹ ملا۔ ماہرین کرکٹ کے مطابق میچ منسوخ ہونے کا زیادہ نقصان قومی ٹیم کو ہی ہوا ہے، کیونکہ اس میچ میںپاکستانی ٹیم کی کامیابی کے امکانات زیادہ تھے جبکہ سری لنکن ٹیم کی اب تک کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے اور بظاہر افغانستان کے بعد ٹورنامنٹ کی سب سے کمزور ٹیم نظر آ رہی ہے۔

ایک اور قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستانی ٹیم کو اپنے افتتاحی میچ میں ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد ٹورنامنٹ کی فیورٹ ٹیم انگلینڈ کیخلاف شاندار فتح بھی حاصل کی مگر اس کے باوجود پاکستان کا رن ریٹ منفی 2.41 تھا اور سری لنکا کو اچھے مارجن سے ہرا کر اپنا رن ریٹ بہتر کرنے کا نایاب موقع بھی سرفراز الیون کے ہاتھ سے نکل گیا، ماضی کے مقابلوں پر نظر ڈالیں تو سری لنکا اور پاکستان کی ٹیمیں ورلڈ کپ مقابلوں میں 7 مرتبہ آمنے سامنے آئیں اور ساتوں مرتبہ قومی ٹیم کو فتح نصیب ہوئی ہے اس لئے ماہرین کرکٹ کا خیال تھا کہ قومی ٹیم میچ میں سری لنکا کو شکست دے کر اپنا رن ریٹ بہتر بنا سکتی تھی۔

عالمی کپ میں پاکستانی ٹیم کی انگلینڈ کے خلاف میچ کی بات کی جائے تو پاکستانی ٹیم نہ صرف مسلسل 11 شکستوں کے جمود کو توڑنے میں کامیاب رہی بلکہ اس تاثر کو بھی بھر پور انداز میں تقویت ملی ہے کہ پاکستانی ٹیم کمزور سے کمزور سائیڈ سے ہار بھی سکتی ہے اور دنیاکی مضبوط ترین ٹیم کے خلاف فتح سمیٹ بھی سکتی ہے۔میچ کے دوران پاکستانی ٹیم نے بیٹنگ اور بولنگ کے شعبوں میں کمال کر دکھایا تاہم فیلڈنگ کے ڈیپارٹمنٹ میں ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ناٹنگھم میں کھیلے گئے میچ میں پاکستانی ٹیم نے محمد حفیظ، کپتان سرفراز احمد اور بابر اعظم کی نصف سنچریوں کی بدولت انگلینڈ کو فتح کے لیے 349 رنز کا مشکل ہدف دیا۔ہدف کے تعاقب میں جوز بٹلر اور جوئے روٹ کی سنچریوں کے باوجود انگلینڈ کی ٹیم مقررہ اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 334 رنز بنا سکی اور اسے میچ میں 14رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، میچ کے دوران وہاب ریاض اور محمد عامر نے جس انداز سے بولنگ کی، اس سے ثابت ہو گیا کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں، پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی نے ورلڈ کپ کے ابتدائی سکواڈ میں دونوں پیسرز کو شامل نہ کر کے بڑی غلطی کی تھی۔اس میچ میں فتح کے ساتھ ہی قومی ٹیم کی مسلسل 11 شکستوں کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔

شکست کے اس سلسلے کا آغاز جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے میچ سے ہوا تھا جس کے بعد آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں 0-5 سے کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا۔انگلینڈ کے خلاف 5 میچوں کی سیریز کا پہلا میچ بارش کی نذر ہونے کے بعد اگلے 4 میچز میں بہتر بیٹنگ پرفارمنس کے باوجود پاکستان کو 4 میچوں میں شکست ہوئی اور سیریز 0-4 سے انگلینڈ کے نام رہی تھی۔اس کے بعد ورلڈکپ میں اپنے افتتاحی میچ میں ویسٹ انڈیز نے پاکستانی ٹیم کو 105رنز پر ٹھکانے لگانے کے بعد 7 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔

عالمی کپ میں پاکستا نی ٹیم کا اگلا ٹاکرا دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کے ساتھ 12جولائی کو ہوگا،پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے درمیان 1975 سے اب تک 103 میچز کھیلے جا چکے ہیں، پاکستانی ٹیم نے صرف 32 مقابلوں میں کامیابی حاصل کی جبکہ اسے67 میچز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، ایک میچ برابری کی سطح پر ختم ہوا، اسی طرح ورلڈ کپ کے مقابلوں کے درمیان بھی گرین شرٹس کا کینگروز کے خلاف ریکارڈ زیادہ اچھا نہیں ہے لیکن جس انداز میں پاکستان ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف زبردست کم بیک کیا اور بیٹنگ اور بولنگ میں صلاحیتوں کے بھر پور جوہر دکھائے،قومی ٹیم اسی طرح کی کارکردگی دہرانے میں زیادہ کامیاب رہتی ہے تو ورلڈ کپ کی دوسری فیورٹ ٹیم آسٹریلیا کو بھی زیر کرنے میں کامیاب رہے گی۔

ورلڈ کپ میں اگر بھارتی ٹیم کی بات کی جائے تو دولت اور طاقت کے نشے میں مبتلا بلو شرٹس کی طرف سے کمال ڈھٹائی کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی کپ کے جنوبی افریقہ کے خلاف اپنے ابتدائی ہی میچ میں بھارتی وکٹ کیپر مہندرا سنگھ دھونی نے بھارتی فوج کے لوگو کے گلوز استعمال کئے جو آئی سی سی کے کوڈ آف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی تھی۔ اس سے قبل 8 مارچ 2019 کو بھی بھارتی ٹیم نے رانچی میں آسٹریلیا کے خلاف میچ میں فوجی ٹوپیاں پہن کر میچ کھیلا تھا لیکن اس میچ میں اسے منہ کی کھانی پڑی تھی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھارتی ٹیم کی اس حرکت کو جنٹلمین گیم کو سیاست کی نذر کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے بھارتی ٹیم کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا تھا تاہم اس وقت انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کے خلاف تیسرے ایک روزہ میچ میں بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں نے آئی سی سی کی اجازت سے فوجی ٹوپیاں پہنی تھیں۔

اس وقت ترجمان آئی سی سی کا کہنا تھا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے پلوامہ حملے میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے اہلخانہ کیلئے فنڈ رائزنگ کے سلسلے میں اجازت مانگی تھی اور آئی سی سی نے اس کی اجازت دی تھی، تاہم اس بار انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا سخت ردعمل سامنے آیا ،آئی سی سی نے اپنی پریس ریلیز میں یہ واضح کیاکہ قواعد و ضوابط کے تحت مذہبی، سیاسی اور لسانی تعصب کو ہوا دینے والی چیزوں کا کٹ، بیٹ اور گلوز پر استعمال نہیں کیاجاسکتا۔

بی سی بی نے کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ دھونی نے آئی سی سی کے کسی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی، بھارتی بورڈ کے آفیشل ونود رائے کا کہنا تھا کہ دھونی کے گلوز پر نشان آرمی کا ہے اور نہ ہی اس کا کمرشل مقصد کے لیے استعمال ہے تاہم اب آئی سی سی کا واضح موقف سامنے آنے کے بعد دھونی نے بی سی سی آئی حکام کو بتا دیا ہے کہ وہ اس تنازع کو مزید ہوا نہیں دینا چاہتے اور قواعد و ضوابط کی پابندی کریں گے۔

بھارتی سابق کپتان کی اس حرکت اور بی سی سی آئی کے جواب کے بعد آئی سی سی کے موقف کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے، کرکٹ کی عالمی باڈی کے اس اقدام کا یقینی طور پر فائدہ شرفاء کے کھیل کو ہی ہوگا اور مستقبل میں کوئی بھی ٹیم آئی سی سی کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرنے سے قبل کئی بار سوچیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔