رحیم بخش آزاد کی یاد میں
رحیم بخش آزاد کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین سے رہا۔
زندگی ایک سفر ہے، اس میں لوگ ملتے ہیں اور بچھڑجاتے ہیں، اسی طرح سینئرصحافی،کالم نگار اور دانشور رحیم بخش آزاد بھی اس دنیا میں آئے اور بہتوں کو رولا کر ہم سے بچھڑگئے۔ 21مئی 2019ء کی شام انھیں منوں مٹی میں دفن کردیا گیا ۔
رحیم بخش آزاد کراچی کے قدیمی علاقے لیاری میں پیدا ہوئے، والدین نے ان کی تاریخ پیدائش نہیں لکھوائی، البتہ میٹرک کے سر ٹیفکیٹ میں 23نومبر 1948ء درج ہے۔ پانچ سال کی عمر میں ان کی نانی اماں نے انھیں سنگولین میں واقع مرزا آدم خان روڈ پر قائم سندھی میڈیم اسکول میں داخل کرادیا ۔چوتھی جماعت پاس کرنے کے بعد لی مارکیٹ کے قریب واقع آتما رام پریتم داس اسکول میں داخل کرایا گیا۔آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد ان کی نانی کے معاشی حالات بگڑگئے، لہذا وہ دن میں مزدوری کرتے اور رات کو پڑھتے تھے۔
نصابی کتب کے علاوہ آنا لائبریری سے کتابیں لاکر پڑھنے لگے۔1967ء میں بلوچی زبان میں چھپنے والے رسالے پجار سے پہلی بار ان کی شناسائی ہوئی۔ ان کے گھرکے سامنے ماسٹر مراد آوارانی کا مکان تھا جہاں بلوچی زبان وادب سے تعلق رکھنے والے صدیق آزات ، سید ظہور شاہ ہاشمی اور ماسٹر محمد مراد آوارانی سے ملنے کے لیے آتے تھے ۔ وہ اپنے سینئر ادیبوں اور نظریاتی رہنماؤں سے بہت متاثر تھے، بعد ازاں وہ ان کے ساتھ مل کر ادبی اور معاشرتی سرگرمیوں میں مصروف ہوئے۔ان میں میرگل خان نصیر، شیر محمد مری ،آزاد جمالدینی، عبداللہ جان جمالدینی ،اکبر بارکزئی، لالا لعل بخش رند اور محمد بیگ جیسے نام شامل تھے ۔ وہ اپنے ہم عمرعبدالباقی بلوچ کی اسمبلی میں کی جانے والی جوشیلی اور سحر انگیز تقاریر سے بھی بہت متاثر تھے ۔
جب بلوچی زبان کے ادیب صدیق آزات نے بلوچی زبان وادب کی ترویج کے لیے ملا فاضل اکیڈمی قائم کی تو رحیم بخش آزاد اپنے دوسرے ادیب دوستوں ظفرعلی ظفر ، عبدالرحمن ظفر ، غلام فاروق ، محمد عبداللہ اور منصور کے ساتھ مل کر بزم منشورکی ہفت روزہ ادبی اور تنقیدی نشستوں میں جانے لگے، جس کے بعد انھوں نے شام کے ایک اسکول مسلم پاپولر اسکول میں داخلہ لے لیا ۔ یہ اسکول اس وقت چڑیا گھرکے سامنے ہاشم خان باغیچہ میں واقع تھا جو بعد میں پاپوش نگر منتقل ہوگیا ۔ اس اسکول سے انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور فاررغ وقت میں ناظم آباد میں واقع بلوچی زبان کے پندرہ روزہ رسالے زمانہ میں اردو اور سندھی کے مضامین بلوچی زبان میں ترجمہ کرتے کرتے وہ خود بھی چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنے لگے ۔اسی زمانے میں وہ اردو اور بلوچی میں نہ صرف شاعری کرنے لگے بلکہ انھوں نے افسانہ نگاری کی طرف بھی توجہ دی ۔
1963 ء میں رحیم بخش آزاد نے سٹی کالج ناظم آباد میں شام کی کلاسوں میں داخلہ لینے کے بعد انٹرمیڈیٹ پاس کیا اور لیاری کے عبداللہ ہارون کالج سے شام کی شفٹ سے بی اے کیا ۔ وہ کراچی پورٹ سے سخت مزدوری کرنے کے بعد پہلے کھارادر آتے اور وہاں کے کسی حمام سے نہاکرکام والے کپڑے بدلتے جس کے بعد تازہ دم ہوکر حصول تعلیم کے لیے عبداللہ ہارون کالج چلے جاتے ۔ رحیم بخش آزاد کی زندگی پر عبداللہ ہارون کالج کے بہت گہرے ادبی، ثقافتی ، سماجی اور نظریاتی اثرات مرتب ہوئے ۔اس زمانے میں فیض احمد فیض اس کالج کے پرنسپل اور ڈاکٹر م ر حسان وائس پرنسپل تھے ۔جب کہ معروف شاعر دلاور فگار مرحوم ان کے اردو کے استاد تھے، جنہوں نے کالج میں ان کی شاعری کے شوق کو جگایا۔ اسی کالج میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تو فیض احمد فیض نے ان کی غزل کو پہلا انعام دیا ۔فیض احمد فیض ، لیاری کے نوجوانوں میں بہت مقبول تھے ،اس لیے وہ وہاں کے نوجوانوں سے گھل مل گئے تھے ۔انھوں نے نوجوانوں کو ترغیب دی کہ کالج میں بلوچی زبان کے شاعروں کو اکٹھا کرکے ایک مشاعرہ منعقد کریں ۔
1960کی نصف دہائی میں رحیم بخش آزاد نے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک بہت بڑا مشاعرہ منعقدکیا،اس وقت عوامی ادبی انجمن کے روح رواں نور محمد شیخ کالج کے رسالے ( لیاری ) کے ایڈیٹر تھے ۔
رحیم بخش آزاد نے دوستوں کے ساتھ مل کر فیض احمد فیض کے کہنے پر بلوچ لوک فن کاروں کو جمع کرکے انھیں کالج کے سالانہ میلے میں مدعوکیا ۔ بعد ازاں فیض احمد فیض نے ان فنکاروں کو آرٹس کونسل اور پریس کلب میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع فراہم کیا جس کے بعد ان سب فنکاروں نے ریڈیوکے پروگراموں میں حصہ لینا شروع کیا ۔انھوں نے کراچی کے سینما ورکروں ، پورٹ کے ورکروں اور ٹینری ورکروں کی ٹریڈ یونینز بنانے میں جہاں اہم کردار ادا کیا وہاں عبداللہ ہارون کالج میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا یونٹ بھی قائم کیا ۔
رحیم بخش آزاد نے پہلی باقاعدہ نوکری کالٹیکس میں کی ، مگر 1971ء میں نوکری چھوڑکر سماجی کاموں میں مصروف ہوگئے ۔کچھ عرصے کے بعد کوئٹہ میں پی آئی اے میں نوکری کرلی ۔ یہ نوکری بھی چھوڑنے کے بعد انھوں نے کے ایم سی میں ملازمت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر فیروز احمد کے اردو رسالے پاکستان فورم، جفاکش اور سندھی رسالے تحریک ،عثمان ڈیپلائی کے سندھ رسالے ساڑینھ اور بلوچی رسالے (بلوچی) ساچان اور لبزانک میں کام کیا اور دوستوں سے مل کر اکبر بارکزئی ، مراد ساحر ، محمد حسین عنقا ،آدم حقانی اور آزاد جمال دینی کے شعری مجموعے چھاپے۔ رحیم بخش آزاد نے گڈانی میں سات سال تک شپ بریکنگ کا بھی کام کیا جس کے بعد گدون امازئی کی ایک ٹیکسٹائل مل میں بھی کچھ عرصے کام کرتے رہے اور پھر ایک ادارے میں تراجم کا کام کیا۔
رحیم بخش آزاد کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین سے رہا۔کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی اور رابندر ناتھ ٹیگور ان کے پسندیدہ نثرنگار اور ساحر لدھیانوی اور جان نثار اختر پسندیدہ شاعر تھے ۔ رحیم بخش آزاد نے ممبئی ، بنگلور ، میسور اور ایران کا سفرکیا ۔ان کی پسندیدہ شخصیات مارکس ، اینگلز، لینن ،ماؤ، فیض اور غالب تھے ۔رحیم بخش آزاد اپنے فارغ وقت میں بھارت کی آرٹ فلمیں یا ٹی وی پروگرام دیکھنا پسند کرتے تھے ۔ٹیلی ویژن پر وہ حالات حاضرہ اور بین الاقوامی امور کے پروگرام دیکھنا زیادہ پسند کرتے تھے ۔ انھیں موسیقی سے بھی دلچسپی تھی وہ بچپن میں لیاری میں گرامو فون پرگانے سننے کے شوقین تھے ۔انھیں لتا اور ہمینت کمار کے دوگانے اچھے لگتے تھے ۔بنگال سے تعلق رکھنے والے گلوکار انھیں بہت اچھے لگتے تھے ۔ایس ڈی برمن اور منا ڈے انھیں بہت زیادہ پسند تھے ۔وہ وانی میں ریڈیو سے نزاکت علی سلامت علی اور روشن آراء بیگم کے کلاسیکل گانے بھی پسند تھے ۔
ہر چندکہ رحیم بخش آزاد اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی سماجی، ادبی اور صحافتی خدمات ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔