بھٹو تا زرداری

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی ایک تاریخی حقیقت ہے۔


وارث رضا June 12, 2019
[email protected]

تاریخ کے بہاؤ کے اپنے رنگ اور ڈھنگ ہوا کرتے ہیں، تاریخ نسل اور جنس سے لاتعلق المیے بھی رقم کرتی ہے اور خوشیوں کا اظہار بھی کرتی ہے، تاریخ ہی ماضی کے اوراق سے مستقبل بنانے کا وہ ہنر فراہم کرتی ہے، جس سے آپ سیکھنے سمجھنے اور جانچنے کا کام لیتے ہیں۔

تاریخی تناظر میں پاکستان کی سیاسی تاریخ اب تک ہچکولے لیے آگے بڑھ رہی ہے، جس کو جانچنے میں متناسب رویہ عمومی طور سے نا پسند سمجھا جاتا ہے، مگر تاریخ کسی کے برے اور اچھے کی خواہش سے ماورا اپنا سفر بنجارے کی مانند جاری رکھتی ہے اور پیش آنے والے واقعے کو بغیر کسی رعایت کے آیندہ کو منتقل کر دیتی ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی ایک تاریخی حقیقت ہے، سوال پیپلز پارٹی کے قیام سے زیادہ یہ اہم ہے کہ پیپلز پارٹی بناتے وقت وہ کونسے عوامل تھے جس نے پیپلز پارٹی کو عوامی پذیرائی دلوائی۔ تاریخ کے طالبعلم کے طور پر پیپلز پارٹی کے قیام کا دور دنیا میں سرد جنگ اور سرمایہ داری بمقابل سوشل ازم کا واضح دور تھا، جس میں سوشلسٹ تحاریک کمیونسٹ روس کی مدد سے دنیا میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں تیزی سے متحرک تھیں، جس میں کسی قدر سوشلسٹ فکر کا روس لاطینی امریکا، یورپ، افریقہ مشرقی یورپ، ایسٹ ایشیا میں اپنا پنجہ گاڑ کر ساؤتھ ایشیا کی جانب گامزن تھا۔

جس میں چین اور ہندوستان میں سوشلسٹ تحریک ایک مضبوط بنیاد پر کام کر رہی تھی۔اس بڑھتے ہوئے سوشل ازم کے عوام دوست خطرے کو پاکستان میں آنے سے روکنے کی کوشش میں امریکا سمیت تمام یورپی سرمایہ دار دنیا اس بات پر متفق تھی کہ ایشیا کے معاشی گیٹ وے پاکستان میں ہر صورت ''سوشل ازم'' کی لہر کو روکا جائے، اس منصوبے میں عالمی طور سے شہرت یافتہ ذوالفقار علی بھٹو کے نام قرعہ فال نکلا، اسی دوران امریکی اتحادی قوتیں دیکھ چکیں تھیں کہ آمر جنرل ایوب کے خلاف عوام میں سخت مزاحمت ہے اور عوام کسی صورت فوجی جنرل کو اقتدار میں دیکھنا پسند نہیں کریں گے، لہٰذا بہت چابکدستی سے فوجی جنرل ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنے والی این ایس ایف طلبہ کی عظیم ملک گیر تحریک کو سبوتاژ کرنا مقصود تھا، جس واسطے عالمی قوتوں کے اشاروں پر بھٹو کو ایوبی اقتدار سے آخری لمحات میں نکالا گیا اور بھٹو کے عوامی رنگ کو شہرت دلوا کر دوسری جانب ایوبی مارشل لا کے خلاف مزاحمت کار این ایس ایف طلبہ کی تحریک کے نعرے سوشل ازم کو بھٹو کی تقریروں کا اہم موضوع بنایا گیا۔

جسنے چشم زدن میں پاکستان کے کمزور اور نظریئے میں ناپختہ افراد مثلاً، رسول بخش تالپور معراج محمد خان، جے اے رحیم، مبشر حسن خان، محمود قصوری، مختار رانا ، شیخ رشید احمد اور دیگر کو متاثر کیا اور یہ تمام افراد ملک میں سماجی انصاف کی بالادستی کے لیے ''سوشل ازم'' کی خاطر بھٹو کی پارٹی میں شامل ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کو متحدہ پاکستان کی مضبوط پارٹی بنا دیا، جس کا حکومتی ہدف۔ سوشل ازم ہماری معیشت، عوام ہماری سیاست اور اسلام ہمارا دین رکھا گیا، مگر جب آئین کی شق نمبر 2 اسٹیبلشمنٹ (عسکری اشرافیہ) کے دباؤ میں شامل کی گئی۔

جس میں پاکستان کی ریاست کو مذہبی قرار دیا گیا تو سوشل ازم کی معیشت کا خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں دو چند ہوئیں کہ، یہ سوشلسٹ فکر کے رہنما تو ملک میں سرداری اور جاگیرداری کو ختم کر کے عوام کے واسطے ایک مساویانہ نظام معیشت لانا چاہتے تھے، جب ان سیاسی دوستوں کا یہ خواب چکنا چور ہوا تو آخر کار یا تو عوامی ترجمانی کی حکومت کے یہ سیاسی وکیل بھٹو سے الگ ہو گئے وگرنہ پیپلز پارٹی کے جاگیردار ٹولے اور اسٹیبلشمنٹ نے ان سوشلسٹوں کا پارٹی میں رہنا دوبھر کر دیا، حتیٰ کہ بابائے سوشل ازم کہلانے والے شیخ رشید کی جاگیری اصلاحات (زمین کی مساویانہ تقسیم) کے بل کو قومی اسمبلی سے پاس کروا کر شریعت کورٹ میں بھیج دیا جو تاحال فیصلے کا منتظر ہے۔ اس تاریخی سچائی کا مخالف رد عمل ہو سکتا ہے مگر سچ کو تاریخ کی کتابوں سے نکالنا بہت مشکل ہے۔ اس ابتدائی تاریخی حقیقت کی روشنی میں اگر پیپلز پارٹی کا جائزہ لیا جائے تو پیپلز پارٹی ہمیشہ سے ''اسٹیبلشمنٹ و عوام'' کی دو متوازن سوچ کے ساتھ اقتدار میں رہی اور عوام کو بھی براہ راست اسٹیبلشمنٹ کے عوام دشمن کردار کو نہ سمجھنے دیا۔

بھٹو کے بعد عالمی قوتوں کی مداخلت نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بے نظیر سے سمجھوتہ کرنے پر راضی کیا جب کہ دوسرے محاذ پر پیپلز پارٹی نے سیاسی قربانیوں کے عوض عوام کو اپنے نظریاتی کارکنوں کے ذریعے متحرک رکھا، یہ بے نظیر بھٹو کا وہ دور تھا جب انھیں ایم آر ڈی کی تحریک کو معتدل کرنے کے لیے لایا گیا تھا، ایم آرڈی تحریک کا یہ اہم واقعہ اوپر کی دلیل کے لیے کافی ہے کہ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران جب امریکی پرچم کو نذر آتش کیا گیا تو بے نظیر بھٹو کا فوری وضاحتی ردعمل آیا کہ ''یہ امریکی پرچم نذر آتش کرنے والوں کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں''۔ اس تناظر میں بے نظیر اسٹیبلشمنٹ کے لیے عالمی دباؤ کا ایک ایسا درد سر بن چکی تھیں جن سے جان چھڑانا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے روگ بن گیا تھا، یہی وجہ رہی کہ اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو کے قریبی اور ہمدرد ساتھیوں کو پہلے ان سے دور کیا اور بادل نخواستہ بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو پارٹی کے اہم فیصلوں میں شریک کروانا شروع کیا۔

جسے بے نظیر بھٹو جلد بھانپ گئیں اور انھوں نے انتہائی چابکدستی سے سب سے بڑے سیاسی حریف نواز شریف سے ''میثاقِ جمہوریت'' کیا جس میں آصف زرداری کا کوئی رول نہ رکھا گیا، بے نظیر بھٹو کے عالمی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کو آصف زرداری نے بوقت ضرورت استعمال کرنا بھی چاہا تو بے نظیر بھٹو کسی حد تک رکاوٹ رہیں۔ بے نظیر بھٹو کی دہشتگردی کے ذریعے شہادت کے بعد آصف زرداری اور اسٹیبلشمنٹ کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملا جس کا شاخسانہ آصف زرداری کا صدر بنائے جانے سے زیادہ اہم پارٹی امور پر گرفت مضبوط کروانا اسٹیبلشمنٹ کا مقصد تھا جو وہ جلد یا بدیر پورا ہو۔ آج بھی سیاست کے غیر جانبدار ''آصف زرداری اور اسٹیبلشمنٹ'' کو یک جان دو قالب سمجھتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ نواز شریف آصف پر مکمل اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اب آصف زرداری نیب کی تحویل میں ہیں، جو بظاہر جعلی اکاؤنٹس کیس میں مطلوب تھے۔

مگر اب بھی سیاسی پنڈت اس پر یقین نہیں کر پا رہے کہ آصف زرداری واقعی نیب کے زیر تحویل ہیں یا دوبارہ سے اسٹیبلشمنٹ کے نئے کھیل کے لیے انھیں تیار کیا جا رہا ہے۔اس پوری صورتحال میں بلاول بھٹو میں بے نظیر بھٹو کی جھلک ضرور نمایاں ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ یہ نوجوان عوام کی امید کی کرن ہونے میں کس حد تک خود کو اسٹیبلشمنٹ کے منحوس سائے سے بچا سکتا ہے اور کب پیپلز پارٹی کو اپنوں کے چنگل سے نجات دلا کر عوامی پارٹی بنا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں