پھپھوندی لگی سیاسی دیگ
بریانی یا پلاؤ کی دیگ کا ایک دانہ چکھنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ چاول پوری طرح پک چکے ہیں یا ابھی مزید آنچ کی ضرورت ہے۔۔۔
بریانی یا پلاؤ کی دیگ کا ایک دانہ چکھنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ چاول پوری طرح پک چکے ہیں یا ابھی مزید آنچ کی ضرورت ہے۔ ماہر نائی یا باورچی ایک دانے سے ذائقے کا اندازہ بھی لگا لیتے ہیں۔ دیگ چونکہ اس وقت تیار کرائی جاتی ہے جب زیادہ مہمانوں کو کھانا پیش کرنا ہو، اس لیے میزبان کی کوشش ہوتی ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے کوئی مہمان اس کے معیار پر انگلی نہ اٹھائے۔ چند دن پہلے اسلام آباد میں دوستوں کے ساتھ تحریک انصاف اور خیبر پختونخوا میں اس پارٹی کی حکومت کے بارے میںگفتگو ہو رہی تھی کہ اس دوران میرا دھیان دیگ کی طرف چلا گیا۔ ایسا کیوں ہوا، اس کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آ سکی۔ ہم لہوریئے چونکہ کھابہ گیر ہوتے ہیں اس لیے کسی وجہ کے بغیر بھی ہمارا دھیان کھانے پینے کی چیز کی طرف چلا جاتا ہے۔ دیگ کے حوالے سے مجھے ایک ذاتی واقعہ بھی یاد آ رہا ہے کیوں نہ وہ بھی آپ کے ساتھ شیئر کر لوں۔ ہوا یوں کہ اپنی پہلی اور فی الحال آخری شادی کے موقع پر دعوت نامہ دینے اپنے بڑے ماموں کے گھر گیا۔
کارڈ کی عبارت پڑھنے کے بعد مرحوم ماموں نے مجھ سے کہا، ''یہ تم نے کیا کیا، ہوٹل میں ولیمہ کرنے کی کیا ضرورت تھی، ہمیں بتاتے ہم پکوان کا اہتمام کرتے، دیگیں کھڑکتیں تو محلے میں پتہ چلتا کسی کا ولیمہ ہو رہا ہے۔'' میں نے فوراً دفاعی پوزیشن لی اور ان سے کہا، اس بار معاف کر دیں' کبھی دوبارہ ایسا موقع آیا تو پھر جو آپ کا حکم ہو گا اس کی تعمیل کروں گا۔ خیر اب تک نہ ایسا موقع آیا ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کا امکان ہے۔
بیوی ایک ہی اچھی۔ وہی ماموں جب ولیمے کی تقریب میں تشریف لائے تو وہاں کا ماحول دیکھ کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگئے۔ مرحوم نے میرے چھوٹے بھائی کو پاس بلایا اور اس سے پوچھا کہ پرہیڈ کتنی پے منٹ ہو رہی ہے۔ شادی کوچونکہ ''صدیاں'' بیت چکی ہیں اس لیے یہ یاد نہیں رہا کہ کتنی پے منٹ کی تھی۔ میری عمر کے شادی شدہ نوجوان بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں ایک مہمان پر کتنا خرچ آتا تھا۔ ماموں کے پوچھنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کی شادی کرنے والے تھے اور انھوں نے اس کی دعوت ولیمہ اسی ہوٹل میں کرنے کا ارادہ بنا لیا تھا۔ اس کا اظہار انھوں نے میرے چھوٹے بھائی سے کر بھی دیا۔
واپس سیاسی یا قومی دیگ کی طرف آتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں کہ چاروں صوبے مل جائیں تو ایک دیگ بن جاتی ہے۔ اس فرضی دیگ میں سے سندھ کا ایک دانہ نکال لیتے ہیں۔ کراچی کی پھپھوندی نے اس دانے کو کھانے کے قابل نہیں چھوڑا جس کی وجہ سے ساری دیگ خراب ہو گئی ہے۔ پنجاب اور بلوچستان کے دانوں کو چکھے بغیر خیبر پختونخوا اور فاٹا نامی دانہ چکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فی الوقت ذائقے کے بارے میں تو کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی البتہ یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ چاول نئے ہیں۔ آپ جانتے ہیں چاول پرانا ہو تب ہی اس میں ذائقہ بھی ہوتا ہے اور وہ ''پپا'' بھی نہیں بنتا یعنی 12کلو کی دیگ میں ایک ایک دانہ اپنی الگ شناخت قائم رکھتا ہے۔
تحریک انصاف کا خواب پوری دیگ کو اپنے قبضے میں رکھنے کا تھا مگر اس خواب کی تعبیر یوں نکلی کہ ن لیگ دو تہائی دیگ کی مالک بن گئی۔ تحریک انصاف کے دانے کو جب چکھا جائے گا تب پتہ چلے گا کہ چاول پرانے ہوئے یا نہیں، مصالحے پورے ڈالے گئے اور مناسب آنچ ملی یا کسی وجہ سے آگ بجھ گئی۔ چاولوں کوٹھیک دم دیا گیا یا نہیں۔ سب کچھ ٹھیک رہا تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس دانے کا ذائقہ شاندار ہے اور پوری دیگ کھانے کے قابل، چھوٹی موٹی غلطی بھی ذائقہ برباد کر دے گی اور نا صرف دو تہائی مہمان ناراض ہوں گے بلکہ کے پی کے والے میزبانی سے بھی انکار کر دیں گے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا دعویٰ تھا وہ الیکشن میں کلین سوئپ کریں گے۔ الیکشن کا رزلٹ آیا تو صرف ایک صوبے میں ان کو اتحادی حکومت بنانے کا موقع مل سکا تھا۔ اس کا کریڈٹ بھی میاں نواز شریف لیتے ہیں۔ وزیراعظم کی بات میں اس لیے وزن ہے کہ ماضی میں مرکز میں حکومت بنانے والی پارٹی کے پی کے میں بھی اقتدار آرام سے حاصل کر لیتی تھی۔ مولانا فضل الرحمن نے تو پہلے دن ہی اپنی خدمات پیش کر دی تھیں لیکن میاں صاحب کے جال میں نہیں پھنسے۔
عمران خان کے دھاندلی کے الزامات میں حقیقت ضرور ہے لیکن تحریک انصاف جن نشستوں پر دھاندلی کا شکار ہوئی، ان کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ وہ جیت کر کلین سوئپ تو دور کی بات مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی آ جاتے۔ کپتان کو اب صرف یہ مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی انتخابی شکست تسلیم کر لیں۔ اب دھاندلی کا شورمچانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انھیں اب صرف خیبر پختونخوا میں مثالی حکومت قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔اس حکومت کی کارکردگی تحریک انصاف کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔
کپتان نے کرکٹ کے بعد جس چیز میں سب سے زیادہ مہارت حاصل کی وہ چندہ جمع کرنے کی مہم ہے۔ شوکت خانم کینسر اسپتال پوری دنیا سے جمع ہونے والے چندے پر چل رہا ہے۔ عمران خان کے لیے ایک اور مفت مشورہ یہ ہے کہ وہ دو تین سال کے لیے علیم خان جیسے کسی قریبی ساتھی کی ڈیوٹی لگا دیں کہ وہ شوکت خانم اسپتال کے لیے چندہ جمع کریں۔ کپتان خود اپنی صوبائی حکومت کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم کا آغاز کریں۔ یورپ' امریکا اور کینیڈا کا ایک دورہ انھیں اتنا چندہ ضرور جمع کرنے میں مدد دے گا کہ وہ کے پی کے میں ڈالروں کی ریل پیل کر دیں۔ پورا صوبہ جب ڈالروں میں کھیلے گا تو پھر ملک بھر میں خیبرپختونخوا حکومت کی نیک نامی ہو گی۔ یوں تحریک انصاف کی حکومت کو انڈر نائنٹین کی ٹیم کہنے والوں کے منہ بھی بند ہو جائیں گے۔ مرکز میں حکومت بنانے کا خواب اسی طرح پورا ہو سکتا ہے۔
چلتے چلتے ہاکی کی موت کا ماتم بھی کر لیں۔ چند دن پہلے ایک کولیگ نے کہا' دعا کریں ہماری ٹیم ایشیا کپ جیت جائے ورنہ بڑی زیادتی ہو جائے گی۔ میں نے پوچھا' کیا زیادتی ہو گی' وہ کہنے لگا ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے' ہم ورلڈ کپ سے باہر ہو گئے تو کیا عزت رہ جائے گی۔ میں صرف اتنا کہہ سکا' قومی کھیل تو قوموں کا ہوتا ہے جب کہ ہم قوم ہی نہیں رہے تو اس کا کوئی کھیل کیسا، سیاسی دیگ میں بھی جو پلاؤ پک رہا ہے ، اس کے دانوں کو پھپھوندی لگی ہے،دیگ چڑھانے والے باورچی کو بھی پتہ ہے پلاؤ کھانے کے قابل نہیں لیکن پھر بھی اسے دم دیے بیٹھا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ باورچی چالاک ہے، اسے پتہ ہے ،عوام کھانے کے معاملے میں بے صبرے ہیں،جو ملے گا، کھا لیں گے، معیار کون دیکھتا ہے۔